... loading ...
قوموں کی بے بسی کے اسباب بہت سارے ہوتے ہیں مگر ہمارا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ ہم ابھی تک نا ہی ایک قوم ہیں نا ہی اُمت !ہم بکھرے ہوئے وہ پروانے ہیں جنہیں اس چراغ کا بھی پتہ نہیں ہے جس کے گرد ایک پروانہ زندگی کی بہاریں نچھاور کرتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہم ان جانوروں کی طرح مارے جا رہے ہیں جنہیں دوسروںکے کھونے کا غم چند لمحات تک تو ضرور ہوتا ہے مگراس کے بعد وہ کھانے پینے میں مصروف ہو کراپنوں کے کھونے کا غم تک بھول جاتے ہیں ۔گذشتہ تقریباََ ڈھائی سو سال سے کشمیریوں پر ہر پچاس یا سو سال کے بعد کوئی نہ کوئی آکر حکومت کرتا ہے ۔ مزے لوٹنے کے بعد وہ چلا جاتا ہے مگر دوسرا آکر پھر ’’باپ داداؤں کی جاگیر ‘‘پرآکر اگلوں سے زیادہ وحشت ناک مظالم ڈھا تا ہے اور ہم اس امید میں جینے کا پھر حوصلہ کرتے ہیں کہ آج نہیں تو کل ہمیں ان مظالم سے نجات تو مل ہی جائے گی ۔مگر ہر بار یہ تاریک رات مزید سیاہ ہوگئی اور ہم پھر ایک نئی مصیبت میں پھنس گئے ۔ہماری اجتماعی سوچ ’’قتلِ عام‘‘روکنے پر متفق ہونی چاہیے تھی مگر المیہ یہ ہے کہ دلی میں براجمان چند ٹی وی اینکرس کی طرح ہم خود بھی اس ’’ماراماری‘‘کی تاویل کر کے آپ اپنے ضمیر کو مطمئن کر کے بدترین دھوکے میں رہنا چاہتے ہیں اور جب ایک قوم کو یہ بیماری لگ جائے تو اس کی مال و جان کے تحفظ کی ذمہ داری کوئی دوسرا کیوں اٹھائے ؟
جموں و کشمیر میں عسکریت کے بہانے 1990ء سے جاری قتل عام میں ہم اب تک ایک لاکھ سے بھی زیادہ تعداد میں مارے جانے کے باوجود اس کے روکنے پر متفق نظر نہیں آتے ہیں ! اس میں اہم رول تو بھارت نواز مین اسٹریم کا تو بنتا تھا مگر وہ زبانی جمع خرچ کے سوا اگر کچھ کر بھی پاتے ہیں تو بس اتنا کہ کسی طرح زیادہ سے زیادہ مراعات اور جائدادیں حاصل کر کے سات نسلوں تک عیاشیوں کا سامان مہیا رکھے جائیں اور بس۔نہیں تو قوم پرستی کے لباس میں ملبوس یہ حضرات کیوں اس نازک مسئلے پر اتنے غیر سنجیدہ ہیں ؟ یہاں روز جنازے اٹھتے ہیں اور روز ماؤں کی گود اُجڑتی ہے یہ جنازے انہی علاقوں سے اٹھتے ہیں، جہاں سے مین اسٹریم کے لوگ اسمبلیوں میں نمائندگی کا دعوی لے کر پہنچتے ہیں ،مگر المیہ یہ کہ سب کچھ سننے اور دیکھنے کے باوجود یہ لوگ اطمینان کی نیند کیسے سوتے ہیں ایک ناقابل یقین تصور ہے ۔یہ جس طرح سارا ملبہ دلی پر گرا کر اپنا دامن بچا لینے کی ناکام کوشش کرتے آئے ہیں اُ س میں ایک وقت تک انہیں فائدہ تو مل رہا تھا مگر اب صورتحال بالکل بدلتی جا رہی ہے ۔اس نئی صورت حال میں قوم کے ساتھ یہ صرف تب کھڑے نظر آتے ہیں جب اقتدار کی دیوی انہیں اپوزیشن کی کرسیوں پر بٹھاتی ہے نہیں تو انہیں اس بات کا ذرا برابر غم نہیں ہوتاہے کہ قوم مرے یا جئے اور بھارتی غلبے کے ستر برس میں آپ کو اسے کچھ بھی مختلف نظر نہیں آئے گا ۔عسکریت پسند نوجوانوں کا مارا جانا یہاں سرے سے اب کوئی اشو ہی نہیں رہا ہے گویا کہ یہ سب بالکل جائز اور مناسب ہے اور وہ اسی کے سزاوار ہیں ۔چندروزہ زبانی کلامی ہنگامہ اگر ہوتا بھی ہے تو بس اس بات پر کہ کوئی غیر عسکر ی مرد یا عورت جاں بحق ہو جائے ۔وہ بھی اس حد تک کہ ہلاکت کے بعدمذمت،انکوائری ،خاموشی،فراموشی اورامن کی واپسی کی جھوٹی امید اور بات ختم ۔
میڈیا کے مطابق11دسمبر2017ء کے دن سوپور کپوارہ شاہراہ پر چوگل ہندوارہ کے نزدیک ایک گائوں میںشبانہ مسلح تصادم میں تین عسکری نوجوانوں کے ساتھ ساتھ میسرہ نامی ایک جواں سال خاتون بھی گولی لگنے سے جاں بحق ہوگئی ۔ شمالی کشمیر کے ڈی آئی جی کے حوالے سے کہا گیا کہ 25سالہ خاتون جو ایک بچے کی ماں بھی تھی، اس وقت کراس فائرنگ کی زد میں آکر ہلاک ہوئی جب اس نے اپنے مکان سے باہر نکلنے کی کوشش کی جہاں جنگجو چھپے بیٹھے تھے۔مقامی لوگوں کاکہنا ہے کہ مذکورہ خاتون کو سیکورٹی فورسز نے جان بوجھ کرگولیوں کا نشانہ بناکر ہلاک کردیا۔احتجاجی مظاہرین نے میسرہ کی نعش کو کپوارہ سوپور شاہراہ پر رکھ کر احتجاجی مظاہرے کیے اور واقعہ کی فوری طور تحقیقات کا مطالبہ کیا۔مظاہرین نے الزام لگایا کہ میسرہ اپنے مکان سے باہر آرہی تھی کہ فوج نے اس پر گولیاں چلائیں جس کے دوران وہ موقع پر ہی جا ں بحق ہوگئی۔19دسمبر2017ء کو 24 سالہ خاتون روبی جان جبکہ 16 اور 17 دسمبر کی درمیانی رات 22 سالہ آصف اقبال بٹ کو فورسز نے بلاجواز فائرنگ کر کے قتل کردیا۔ 19دسمبر کی شام پولیس کے ا سپیشل آپریشن گروپ،44آر آر اور 14بٹالین سی آر پی ایف نے بٹہ مڈن وانپورہ کیلر شوپیان کا محاصرہ کیا ۔جس کے دوران شام قریب 7بجے فورسز اور عسکری نوجوانوںکے مابین جھڑپ شروع ہوئی جو رات دیر گئے تک جاری رہی۔اس دوران مقامی مظاہرین اور فورسز میں شدید نوعیت کی جھڑپیں بھی ہوئیں۔رات کے دوران محمد یعقوب بٹ کے مکان کو باردوی مواد سے اڑا دیا گیا جس میں اس کی آلٹو گاڑی بھی تباہ ہوئی۔جس کے بعد فائرنگ تھم گئی۔لیکن رات کے دوران ہی دوبارہ فائرنگ کا آغاز ہوا جو صبح تک جاری رہا۔اس دوران فورسز نے غلام محمد شیخ اور عبدالاحد کے رہاشی مکانوں کو بھی تباہ کردیا اس دوران ایک گائو خانہ بھی تباہ ہوجہاں دو گائیں بھی مر گئیں۔مقامی لوگوں نے میڈیا کو بتایا کہ فورسز نے مظاہرین پر بے تحاشا پیلٹ اور گولیاں چلا ئیں جس کے باعث جواں سال روبی جان عرف بیوٹی زوجہ منظور احمد میر کو براہ راست گولی کا نشانہ بنایا گیا جس کے باعث گولی اس کی چھاتی کو لگی اور وہ موقع پر ہی لقمہ اجل بن گئی۔تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ روبی جان مسلح تصادم کے مقام پر کراس فائرنگ کی زد میں آکر لقمہ اجل بن گئی ہے۔ روبی جان کی ایک آٹھ ماہ کی بچی ہے۔ (جار ی ہے)