... loading ...
آخری کتابِ ہدایت نے حتمی نکتہ تعلیم کیا:
’’اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کے سینے میں دودل نہیں رکھے‘‘۔(سورۃ الأ حزاب)
یہ کسی مذہبی آدمی کے لیے نہیں بنی نوعِ انسان کے لیے بھی قانونِ عظمت ہے۔مگرکیا چودھری نثار کے سینے میں دو دل نہیں؟ ایسا کون آدمی ہے جو اپنی عظمت سے ہمقدم ہوا ہو، اور وہ دو دِلا بھی رہا ہو۔ ایک اور شخص جس کے سینے میں دو دل ہیں، مریم نواز نے کبھی جاوید ہاشمی کے لیے ایک ٹوئٹ کیا تھا جب وہ تحریک انصاف کو پیارے ہوئے۔بیکار اور بیمار آدمی!!تب رنجیدہ دل کے ساتھ اس خاتون کی تربیت کے عناصر پر غور کیا تھا۔ مگر افسوس اس ٹوئٹ کے بمصداق کوئی اوربھی ثابت ہوا۔ تعقل کی شدت بھی آدمی کو بیمار کردیتی ہے۔ مگر یہ ایسا بیمار ہوتا ہے جس کا کچھ اندازا نہیں ہوپاتا یہاں تک کہ مرض لادوا بن جائے۔ شاید چودھری نثار کے لیے بھی یہ مرض لادوا ہوا۔
آدمی کی سوچ فرش کی ہو اور وہ آسمان کی رفعتوں سے اپنی پہچان کرانا چاہے تو کیسا لگے گا؟ انسان اپنی ہی فضیلت کے فخر میں مبتلا ہو جائے تو وہ گاہے چودھری نثار ایسا لگتا ہے۔ عربی مقولہ ہے کہ
’’حِدَّۃُالمَرء تُھلکُہ‘‘
( انسان کی تیزی اُسے مارڈالتی ہے)۔
چودھری نثار کی تیزی نے بھی اُن کے ساتھ یہی کیا۔ اب بھی وہ سیاست میں ہیں مگر کہاں ہیں؟چودھری نثار نے بلندیوں کو بھی پست کرتے ہوئے اپنی پرواز ِفکر کو اونچا کردیا ہے کہ دھرنوں کا باب بند نہ کیا گیا تو ملک پر جتھوں کی حکومت ہوگی۔بظاہر اس میں کچھ غلط نہیں مگر یہ ایک ادھوری بات ہے اور حقیقی مسئلے سے گمراہ کرتی ہے۔ پورا مسئلہ دائرہ فہم میں تب آئے گا جب ایک سادہ سوال کیا جائے کہ آخر دھرنوں کی نوبت کیوں آتی ہے؟پاکستان کو حکمران اشرافیہ (بلاتخصیص وامتیازسیاسی و عسکری) نے ایک ایسے جسم میں تبدیل کردیا جو سرجری کے بغیر سنبھلتا نہیں۔ یہاں ایک عام آدمی کی کوئی شنوائی کسی بھی مرحلے اور مرکز پر نہیں۔ قانون طاقت ور کے گھر کی لونڈی بن چکااور حصولِ انصاف زرکی چکاچوندی سے اختیار کی بازیگری پر انحصار کرنے لگا۔ معاشرہ مثالوں سے طاقت لیتا ہے۔ مگر ہم کسی بھی مسئلے پر قانون کی بالادستی اور انصاف کی بے امتیاز کارگزاری کا کوئی بہی کھاتہ نہیں رکھتے۔ ہمارے کمزور قانون کی نظروں میں بھی کمزور اور ہمارے طاقت ور قانون کی نظروں میں بھی طاقت ور ہی ہیں۔ ہمارے مظلوم درِ انصاف سے بھی مظلوم بن کر نکلتے ہیں اور ہمارے ظالم درِانصاف سے بھی زیادہ ظالم وسفاک بن کر سامنے آتے ہیں۔ پھر ایک عام آدمی کیا کرے۔ اُنہیں اس نظام کو گالیاں دینے والے زیادہ اچھے لگتے ہیں کہ یہ اُن کے بھی کتھارسس کا ذریعہ بنے رہتے ہیں۔ علامہ خادم حسین رضوی کے دھرنے کے اسباب جہاں مذہبی ہیں وہاں کچھ نفسیاتی بھی ہیں۔ وہ ریاست کو اسلام آباد میں ہکا بکا چھوڑ کر آئے ہیں۔ یہ جتھوں کا معاملہ نہیں۔ تصور کی سطح پر پاکستان میں متعارف نظمِ حکمرانی کی ناکامی کا معاملہ ہے۔ چودھری نثار کو اس پر غور کرنا چاہئے کہ آخر علامہ خادم حسین رضوی کو یہ موقع کیسے ملا؟
مسلم لیگ نون کی قیادت نے اپنی پوری تاریخِ حکمرانی میں کسی ایک گروہ سے بھی دشمنی نہ کی ہو، اُس کی کوئی مثال وہ پیش کریں ۔ ایک ایسے وقت میں جب نوازشریف پاکستان پر حقِ حکمرانی کی بابت سوال اُٹھا رہے ہیں اور ملک کے دوسب سے طاقت ور اداروں عدلیہ اور فوج کو جگہ جگہ للکار رہے ہیں۔ کیا اُنہیں ختم نبوت کے معاملے میں بم کو لات مارنی چاہیے تھی؟یہ ایک ایسی ذہنیت کی کارگزاری ہے جو عوام کو اپنے مرہونِ منت ،ملک کے تمام طبقات کو اپناحاشیہ بردار اور حکمرانی کو اپنا ازلی حق سمجھتی ہو۔ اس ذہنیت نے عوام کو ہر سطح پریہ باور کرادیا ہے کہ سیاسی اجتماعیت میں ہر مطالبہ تب تک ناکام رہتا ہے جب تک اُسے حکمرانوں کے لیے خطرناک نہ بنا دیا جائے۔ کسی بھی مطالبے پر ریاست اُس کی اصابت اور برحق ہونے کے معیار سے غور نہیں کرتی۔ ریاست کی پوری مشنری کسی مطالبے کو تسلیم کرنے پر تب تیار ہوتی ہے جب اُنہیں اقتدار کی گاتی گنگناتی شاہراہ پر خطرات کی سرخ بتیاں جلتی ہوئی دکھائی نہ دیں۔ یہ طرزِ حکمرانی بجائے خود معاشرے کے اندر نراجی ذہن کو پروان ہی نہیں چڑھا رہا بلکہ اِسے باجواز بھی بنا رہا ہے۔ مسئلہ خادم حسین رضوی کا نہیں ، طرزِ حکمرانی کا ہے۔ جہاں نظیر ، دلیل ، اپیل اور وکیل کی کوئی گنجائش نہیں۔ جہاں تھپڑ، گھونسہ اور لات کی سیاسی ثقافت کو خود حکمرانوں نے رائج کردیا ہے۔
یہ مسئلے کی غلط تشریح ہے کہ دھرنے جاری رہے تو جتھے حکومت کریں گے۔ یہ تو جمہوریت کی اصل روح کو باطل کر نے کے بمصداق ہوگا۔ کیونکہ جمہوریت کے جس نظام کو ہم نے مذہب سے زیادہ تقدیس دے دی ہے۔ وہ نظام اپنی اصل میں ’’احتجاج‘‘ اور اُس کی مختلف شکلوں کو روا رکھنے کا قائل ہے۔ اگر جمہوریت کو ایک مذہب مانا جائے تو احتجاج اس کا تصوف ہوگا۔ دنیا بھر میں جمہوریتیں احتجاج کو اپنے نظام کے بانکپن کے طور پر پیش کرتی ہے۔ دھرنا ، احتجاج کی ہی ایک جائز شکل ہے۔ سٹیل میں ہونے والے دھرنے اس کی ایک مثال ہے جو سرمایہ دارانہ نظام نے خود اپنے بنیادی تصور کے خلاف برداشت کیے۔نیویارک میں وال اسٹریٹ پر 17؍ ستمبر 2011ء کو قبضہ کرکے معاشی عدم مساوات پر ایک زبردست تحریک چلائی گئی۔ مظاہرین 15؍ نومبر تک قابض رہے یہاں تک کہ اُنہیں مشہور زیکوٹی پارک سے طاقت استعمال کرکے باہر کیا گیا۔ اس تحریک کا بظاہر کوئی نتیجہ نہیں نکلا مگر اس تحریک نے سوشل میڈیا کو زبردست تحریک آشنا کردیا اور مرکزی دھارے کے مغربی ذرائع ابلاغ کو بے وقعت بنا کررکھ دیا۔ آج بھی اس تحریک کی کشش باقی ہے۔ عراق پر جارحیت کے خلاف 2003ء میں عظیم الشان مظاہرے خود یورپ کی اپنی سرزمین پر ہوئے۔ لندن میں ہونے والا 15؍ فروری 2003ء کا احتجاج اپنی مثال آپ بنا۔ تحریر اسکوائر کا دھرنا مصری انقلاب کا یادگار واقعہ ہے ۔ 25؍جنوری 2011ء سے 11؍ فروری 2011ء تک یہ دھرنادوہفتے اور تین دن جاری رہا۔ اس دھرنے نے حُسنی مبارک کو اُن کی حکومت سمیت اُٹھا کرپھینک دیا۔ دھرنے کی یہ تشریح دنیا بھر میں کہیں نہیں ہوئی۔ اس لیے کہ وہاں ایک نظام کسی نہ کسی انداز میں کام کرتا ہے اور اُس پر خود دھرنے والے بھی کچھ نہ کچھ یقین رکھتے ہیں۔ پھر حسنی مبارک ایسا آمر بھی کسی نہ کسی سطح پر خود کو جوابدہ بنا لیتا ہے ۔ مگر ہمارے ہاں آمریت کی تو چھوڑیئے، جمہوریت بھی ایسی کریہہ واقع ہوئی ہے جس میں حکمران خود کو آمر نہیں دیوتا سمجھنے لگتے ہیں جس میں وہ اپنے غلط کو کبھی درست بنا کر پیش کردیتے ہیں اور کبھی اپنے کہے درست کو ضرورت پڑنے پر غلط مان لیتے ہیں ۔زرداری کے نوازشریف سے متعلق اور نوازشریف اور اُن کے کاسہ لیسوں کے گزشتہ پانچ برسوں میں آصف علی زرداری کے بارے میں بدلے موقف کی تاریخ مرتب کرلیجیے ، اس بحث کا سرا ہاتھ آجائے گا۔ یہ مخلوق سمجھتی ہے کہ وہ حرام کو حلال اور حلال کو حرام بنانے پر قادر ہیں۔ ایسے حالات میں عوام یا کوئی بھی گروہ اپنے کسی بھی موقف کو کہاں لے کر جائیں گے۔ اُنہیں یقینی طور پر حکمرانوں کو دیوار سے لگا کر ہی کسی نتیجے کی کوئی امید ہوتی ہے۔ پھر وہ ایسا کیوں نہیں کریں گے؟
چودھری نثار کا معاملہ مختلف ہے ۔ وہ اپنی سیاسی چرب زبانی کو بصیرت کے ہم معنی سمجھنے لگے ہیں۔ تاریخ ہی نہیںپاکستانی معاشرے کے حقیقی مسائل سے بھی انہیں اور ان کے درجے کے لوگوں کو کوئی علاقہ نہیں۔پھر ان کے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہوا ہے کہ وہ سیاسی حلقوں میں جس ’’نسبت‘‘ سے زیادہ مشہور تھے وہاں بھی وہ ناقابل اعتبار قرار پاچکے ہیں۔ اُنہیں آخری تجزیے میں اقتدار کے حقیقی طاقت ور مرکز نے بھی ایک ایسا شخص قرار دے دیا ہے جس پر انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ دوسری طرف وہ اپنی جماعت کی اعلیٰ قیادت کے لیے بھی موزوں نہیں رہے۔ اُن پر اپنی جماعت کے قائد کا اعتبار بھی ایک عرصے سے بالکل نہیںرہا۔ آدمی کو اپنے سینے میں ایک ہی دل رکھنا چاہئے۔ ورنہ وہ کسی دوسرے کے سینے میں کبھی بھی اپنی جگہ نہیں بنا پاتا۔ چودھری نثار کو دھرنے سے زیادہ اپنے کردار پر غور کرنے کی ضرور ت ہے۔ انسان الفاظ سے نہیں عمل سے مقام بناتا ہے۔ اور چودھری نثار کی فردِ عمل اُن کے الفاظ سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی۔افسوس وہ اپنی تیزی کے ہاتھوں ہلکان ہورہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔