وجود

... loading ...

وجود

لیٹرے دیوتا

منگل 14 نومبر 2017 لیٹرے دیوتا

عبادت کے لائق وجود کا تصور دنیا کے ہر مذہب میں موجود ہے ، کہیں وحدانت کا معاملہ ہے تو کہیں تثلیث اور تکثیراور جو اس وجود کو تسلیم نہیں کرتے وہ بھی کسی نہ کسی نادیدہ قوت کو مانتے ہیں۔
مسلمانوں کی طرح یہودی بھی وحدانیت کے قائل ہیں لیکن اپنی چالبازیوں کے باعث راندہ درگاہ قرار پائے ہیں حرام کو حلال کرنے کی حلیہ سازی میں پوری دنیا یہودی کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ مسلمان وحدانیت کے قائل ہیں تو عیسائی تثلیث کے ۔ عیسائیوں کے (موجودہ حالت میں) عقیدہ کے مطابق کائنات کا نظام ماں بیٹا اور روح القدس کے ذمہ ہے۔ عبادت کے لائق وجود تسلیم کرنے میں ہندوئوں کا کوئی ثانی نہیں۔ اگرچہ بھگوت گیتا کے مطابق تکثیر کا کوئی ثبوت نہیں ملتا لیکن ہندوئوں نے جو معبود تشکیل دیئے ہیں ان کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق 10کروڑ سے زائد ہے ان میں انسانی وجود بھی اور حیوان بھی ۔ ہندوئوںمیتھالوجی کے مطابق ہر طاقتور دیوتا ہے۔ جس کو اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ ناگ (سانپ) بھی دیوتا ہے اور گنیش(ہاتھی) بھی ۔ناگ دیوتا ہو یا گنیش جی ان سے انسانوں کو زیادہ مسائل پیدا نہیں ہورہے۔
ہندوستان گذشتہ ایک عرصے سے جن مسائل کا شکار ہے ان میں سے ایک مسئلہ جو ہرگزرتے دن کے ساتھ گھمبیر سے گھمبیر تر ہوتا جارہا ہے۔ وہ بھی ایک دیوتا کا پیدا کردہ ہے۔ اور یہ دیوتا ہیں ہنومان جی (بندر) ہندو دیومالائی کہانی کے مطابق جب راوان(شیطان) سیتا (دیوی) کو اغوا کرکے سیلون(سری لنکا) لے گیا اور دیوی سیتا کا پتی دیو(شوہر) اسے راون سے بازیاب کرانے میں ناکام رہا تو ہنومان جی نے سیتا کے پتی دیو کی مدد کی اور سیتا کو راون کے چنگل سے نجات دلائی پھر وہ بندر سے ہنومان دیوتا قرار پائے۔
پورے ہندوستان میں کروڑوں کی تعداد میں بندر موجود ہیں، ان میں سے ایک بڑی تعداد کو ہندوستان کے باشندوں نے تربیت دے کر مکمل ڈاکو بنا دیا ہے۔ ہندوستان کا کوئی شہر ایسا نہیں جہاں مندر اور بندر ایک ساتھ موجود نہ ہوں مندر پوجا پاٹ(عبادت) کے مراکز ہیں تو بندروں معاف کیجئے گا ہنو مان دیوتائوں کے لیے لوٹ مار کے بہترین ٹھکانے۔ لوٹ مار کرنے والے ان بندروں کی ایک بڑی تعداد کو ہندوستان کے باسیوں جن میں انہیں دیوتا ماننے اور ان کی پوجا کرنے والے بھی شامل ہیں نے انہیں باقاعدہ تربیت دے کرمکمل ڈاکو بنا دیا ہے۔ ان لیٹرے دیوتائوں کا خصوصی نشانہ قیمتی اشیاء ہوتی ہیں، جن میں آئی فون، لیپ ٹاپ، خواتین کے گلوں میں پڑے منگل سوتر(ہندو عورت کے شادی شدہ ہونے کی نشانی) گلوں میں موجود سونے کے لاکٹ، ہینڈی کیم، اور کیمرے شامل ہیں، جب کہ خواتین کے پرس چھیننا اور مردوں کی جیبوں سے بٹوے نکالنا ان کا محبوب مشغلہ ہیں۔ خصوصا جیبوں سے بٹوے نکالنے میں ان کی مہارت دیکھ کر ماہر جیب تراش بھی انگشت بدندان رہ جائیں۔ ان بندروں کو ڈاکو بنانے میں صرف نچلی ذات کے ہندو ہی نہیں اعلیٰ جاتی کے برھمن بھی برابر کے شریک ہیں۔
ہندوستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق ہندوستان میں بندروں کی لوٹ مار کی وارداتیں اس حد تک بڑھ چکی ہیں کہ ہندو اپنے دیوتا کے خلاف پولیس سے مدد کے طلب گار ہو گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ممبئی کے ایک مندر میں ایک تاجر اپنے اہل خانہ کے ساتھ پوجا پاٹ کے لیے آیا تو بدقسمتی سے اس نے پنڈت کو نذر کرنے اور مندر کو دان کرنے کے لیے ڈیڑھ لاکھ روپے اپنے دستی بیگ میں رکھ لیے تھے جب وہ مندر میں داخل ہوا تو قریب ہی موجود ہنومان دیوتا اس پر مہربان ہوگئے۔ اسے پنڈت کی نذر اور مندر کو دان کرنے کی زحمت سے بچالیا۔ ہنومان جی نے تاجر سے بیگ چھینا اور درخت پر جا بیٹھے اور نوٹ لٹانا شروع کردیئے۔ اسی طرح ایک عورت کے گلے میں پڑا 2تولہ (تقریبا25گرام) سے وزنی منگل سوتر جھپٹا اور مندر کی دیوار پر چڑھ کر اپنی بندریا کے گلے کی زینت بنا دیا۔ متاثرہ افراد جب کوتوالی (تھانہ) پہنچے تو ڈیوٹی پر موجود اہلکار نے ملزم کا نام پتہ اور حلیہ دریافت کیا جب بتایا گیا کہ وارداتوں میں ملوث کوئی فرد نہیں ہنومان دیوتا ہیں تو انہیں بتایا کہ تھانوں میں کسی بندر کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کو طریقہ موجود نہیں ہے یہ صورتحال صرف ممبئی کی نہیں ہے اس سے سب سے زیادہ متاثر شہر اس دیوتا کے نام پر بسایاگیا شہر ہنومان گڑھ ہے جہاں ایک محتاط اندازے کے مطابق بندروں کی تعداد انسانوں سے زیادہ ہے۔
بندروں کی اس لوٹ مار کا پورا ہندوستان شکار ہے شاید ہی کوئی شہر ہو جہاں ہنومان دیوتا کی مہربانیاں نہ ہوں۔ اس صورتحال کے تدارک کے لیے پہلے یو ڈی اے کی سرکار نے بندروں کو بانجھ بنانے کا عمل شروع کیا ، بندروں کی نس بندی کی جانے لگی لیکن اس کا الٹا اثرہوا۔ جس رفتار سے بندروں کی نس بندی ہورہی تھی اس سے زیادہ تعداد میں بندروں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ اس صورتحال میں متعلقہ اداروں خصوصا پولیس نے سرکار سے درخواست کی کہ مندروں اور آبادیوں کے قریب منڈلاتے بندروں کو گولی مارنے کی اجازت دی جائے لیکن اس دوران من موہن سنگھ کی حکومت اپنی مدت پوری کرچکی تھی اور یو ڈی اے کی جگہ ہندوانتہا پسند جماعت بی جے پی حکومت بنا چکی تھی نریندر مودی نے 2014میں انتخابات میں کامیابی ہی ہندوتواء( مذہبی انتہا پسندی) کے نام پر حاصل کی تھی یوں وہ ہنومان دیوتا کے اس قتل عام کی اجازت کس طرح دے سکتے تھے اور عوام اپنے طور پر کسی کاروائی کے متحمل نہیں ہوسکتے کہ کسی بھی کاروائی کی صورت میں ارد گرد موجود انتہا پسندوں کے رد عمل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ جیسا کہ گذشتہ دنوں غیر ملکی سیاح خاتون کو اپنا دستی بیگ بچانے کی کوشش کے دوران بندر کے زخمی ہونے کے بعد انتہا پسندوں کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن خاتون خوش قسمت تھی کہ قریب موجود پولیس نے موصوفہ کو کسی انتہائی کاروائی سے بچالیا ورنہ اسے جان کے لالے پڑ سکتے تھے یوں بھی ہندوستان کے دارالحکومت دہلی کی شہرت دارالحکومت اور تاریخی شہر سے زیادہ ریپ سٹی کی ہے کہ شاید ہی کوئی دن گزرتا ہو کہ یہاںخواتین زیادتی سے محفوظ رہتی ہوں گی۔دستیاب محتاط اعداد و شمار کے مطابق دھلی میں روزانہ دو درجن سے زائد خواتین زبردستی گوہر عصمت سے محروم کردی جاتی ہیں اور یہ وہ تعداد ہے جو واردات کے بعد پولیس سے رجوع کرتی ہے ورنہ اس سے کئی گنا زیادہ تعداد عزت اور جنگ ہنسائی کے خوف سے پولیس سے رجوع بھی نہیں کرتی۔ یہ ہے لٹیرے دیوتائوں اور جنسی درندوں کا چمکتا بھارت۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر