... loading ...
بے چاری فیصل مسجد کا کیا قصور تھاجواسے پینک کردیاگیا؟ اکتوبر کے مہینے کو دنیا بھر میں چھاتی کے کینسر سے آگاہی کے حوالے سے منایا جاتا ہے۔ اس سال پاکستان میں بریسٹ کینسر سے آگاہی کے لیے اسلام آباد کی فیصل مسجد کو روشنیوں کی مدد سے پینک کردیا گیا۔ بندہ پوچھے کے کیا دنیا بھر میں جو ہر سال 5 لاکھ عورتیں چھاتی کے کینسر کی وجہ سے مرجاتی ہیں ،اس کا ذمے دار اسلام ہے؟ کیا نمازیوں کی عورتوں کو چھاتی کا کینسر ہوتا ہے؟ کہ اس وجہ سے فیصل مسجد کو اظہار یکجہتی کے لیے استعمال کیا گیا؟ اگر پارلیمنٹ، سپریم کورٹ اور GHQ کو پینک کردیتے تو بات سمجھ آتی کہ کیونکہ چھاتی کے کینسر کا براہ راست تعلق ترقی، جدید طرزِ زندگی اور سرمایہ دارانہ نظام سے ہے۔ اور ابھی ذکرکیے گئے ادارے ہی دراصل کسی بھی جدید ریاست میں نافذ نظام کے سب سے بڑے حامی اور محافظ ہوتے ہیں اس لیے ان کاپینک ہوناسمجھ آتاتھا۔
بریسٹ کینسر دنیا کے ان چند امراض میں سے ایک ہے جس کا براہ راست اور سیدھا تعلق ترقی اور ماڈرن طرز زندگی کے اختیار کرنے سے ہے۔ عالمی کینسر ریسرچ فنڈ انٹرنیشنل نامی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق بریسٹ کینسر پوری دنیا کی خواتین میں پایا جانے والا سب سے عام سرطان ہے۔ ماضی میں یہ مرض عوتوں کو بڑھاپے میں لاحق ہوتا تھا مگر آج کم عمر خواتین بھی اس بیماری کا شکار ہورہی ہیں ۔ ہمارے سامنے اکتوبر کے مہینے میں اخبارات میں ڈاکٹرز کی مدد سے چھپنے والی تحریروں کا انبار لگا ہے۔ تقریباً ہر تحریر کا مطالعہ کرنے کے بعد ہم جس نتیجے پر پہنچے ہیں اس کو آج ہم اپنے پڑھنے والوں کے ساتھ بانٹیں گے۔ یہ تحریریں صرف ڈاکٹرز کی ذاتی رائے نہیں ہیں بلکہ انہوں نے عالمی اداروں کے حوالے اور ان کی جدید تحقیق کی روشنی میں بریسٹ کینسر کے موضوع پر روشنی ڈالی ہے ۔
اگر ہم سب سے پہلے بات کریں کے بریسٹ کینسرکیسے ہوتا ہے تو اس کی نمایاں وجوہات درجہ ذیل ہیں ۔ 1 شادی کا تاخیر سے ہونا، 30 سال کے بعد شادی کرنے والی خواتین میں یہ مرض پیدا ہونے کے امکان روشن ہوجاتے ہیں ۔ 2 بچوں کو اپنا دودھ نہ پلانا، 3 پیدائش کو کنٹرول کرنے والی ادویہ کااستعمال۔ یہ تین بنیادی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے عام طور پر چھاتی کا سرطان ہوسکتا ہے۔ اس کے علاوہ امریکین کینسر سوسائٹی کے مطابق باقاعدگی سے ورزش نہ کرنے والی، ہر وقت بیٹھے رہنے والی خواتین میں اس سرطان کی پیدائش ہوسکتی ہے۔ فاسٹ فوڈ کلچر بھی بریست کینسر کا سبب بن سکتا ہے۔ وہ خواتین جوفیکٹریوں ، کارخانوں یا ایسی جگہوں پر کام کرتی ہیں ، جہاں کیمیائی اجزاء کا اخراج ہوتا ہو، انہیں بھی اس کا سامنا کرنا پڑھ سکتا ہے۔
اب آتے ہیں ان عوامل کی طرف جن کی مدد سے خواتین بریسٹ کینسر سے محفوظ رہ سکتی ہیں ۔ 1:بالغ ہونے کے فوری بعد شادی ہوجانا، 2 بچوں کوکم ازکم ایک سال تک ماں کا، اپنا دودھ پلانا، 3 پیدائش کو کنٹرول کرنے والی ادویات کا استعمال نہ کرنا، 4 ہفتے میں کم از کم 150 منٹ کی ورزش کرنا، 5 صاف ستھری آب و ہوا میں رہنا، یعنی شہروں سے دور رہنا، 6 سادہ غذا کھانا، زیادہ مرغن اور تیل والے کھانوں سے پرہیز کرنا ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پورے پاکستان میں کوئی ایک ادارہ یا اسپتال ایسا نہیں ہے جو مکمل طور پر بریسٹ کینسر سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ آغا خان اسپتال میں شعبہ سرجری کے بریسٹ سرجری سیکشن کی سربراہ ڈاکٹر شائستہ مسعود (ستارہ امتیاز) بتاتی ہیں کہ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں مکمل ٹریننگ نہیں ہے، ماہرین کی کمی ہے۔ لہٰذا بغیر مکمل تشخیص کیے فوری طور پر ’’سرجری‘‘ کردی جاتی ہے اور بعد میں کیمو تھراپی بھی نہیں کی جاتی۔ بریسٹ کینسر کی 20 فیصد خواتین کو جو ایک انجیکشن چاہئے ہوتا ہے وہ 15 لاکھ کا ہے، دوسرا انجیکشن ایک لاکھ 25 ہزار کا ہے اور ایسے 12 انجیکشن درکار ہوتے ہیں ۔ اگر ہم صحت کے عالمی اداروں کے اعدادو شمار کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ بریسٹ کینسر کا تعلق جدید طرز زندگی ہے۔
امریکامیں ہر سال 40 ہزار امریکن عورتیں چھاتی کے سرطان سے مرتی ہیں ۔ جبکہ دنیا میں سب سے کم چھاتی کا سرطان مشرقی افریقہ کے غریب ممالک میں ہے۔ دنیا میں جو ملک ترقی میں جتنا آگے ہے اس ملک میں چھاتی کے سرطان کے مریض اتنے زیادہ ہیں اور دنیا میں جو ممالک سب سے غریب تصور کیے جاتے ہیں ان ممالک میں چھاتی کا سرطان سب سے کم ہے۔ مگر اس حقیقت کو کوئی واضح کرکے بیان کرنے پر راضی نہیں ہے۔ بریسٹ کینسر کے عالمی دن کے موقع پر جتنے مضامین لکھے گئے ان میں اس مرض کی اقسام، اس کی روک تھام اس کی وجوہات، اس کی نشانیاں تو بیان کی گئیں مگر یہ نہیں بتایا گیا کہ اس مرض کی اصل وجہ سادگی کو چھوڑ کر جدید طرز زندگی اختیار کرنا ہے۔ عالمی طور پر مشہور ڈاکٹرز بتاتے ہیں کہ 30 سال کے بعد شادی کرنے والی عورت کو چھاتی کے سرطان کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ مگر وہ یہ کبھی
نہیں کہیں گے کہ عورت کے بالغ ہونے کے فوراً بعد اگر اس کی شادی کردی جائے تو اس کو چھاتی کا سرطان نہیں ہوگا۔ کون ہے وہ عورت جو بچے کو دودھ نہیں پلانا چاہتی؟ دنیا بھر کی مادائیں ،بکریاں ،بلیاں ،با گڑبلیاں ،لومڑیاحتی کہ ایک کتیا بھی، اپنے بچوں کو چھاتی سے لگاکر دودھ پلاتی ہے ۔
(جاری ہے )