... loading ...
میانوالی کو اس کاموجودہ نام بغداد سے آئے ایک بزرک حضرت شیخ جلال الدینؒ کے صاحبزادے حضرت میاں علیؒ ؒکی بدولت ملا ہے ۔اس سے پہلے یہ علاقہ ’’ دھنوان ‘‘ ، کرشنوران ، رام نگر اور ’’ ستنام ‘‘ کے ناموں سے موسوم کیا جاتا تھا ۔ بعد میں دریا کے پہلو میں آباد ہونے کی وجہ سے اسے ’’ کچھی ‘‘ کا نام دیا گیا ۔ تاریخی اور جغرافیائی طور پر وادی سندھ کی تہذیب کا حصہ ہونے کی وجہ یہاں آبادی کا سراغ ہزاروں سالوں سے ملتا ہے ۔ ایک ضغیم تاریخ اور کئی تہذیوں کا سنگھم اور مرکز رہنے والا یہ خطہ ہمیشہ سے ہی مردم خیزی میں اپنی مثال آپ رہا ہے ۔ بلوخیل کے نیازی قبیلہ کے ڈاکٹر محمد عظیم خان شیر مانخیل کواس علاقے کے پہلے مسلمان ڈاکٹر ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔ ان کے بیٹے انجینئر اکرام اللہ خان نیازی اپنے علاقے کے دوسرے شخص تھے جو لندن سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس آئے تھے ۔ 1948 ء میں جب وہ امپیریل کالج لندن سے فراغت کے بعد واپس میانوالی آئے تو شہر کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان کے استقبال کے لیے میانوالی ریلوے اسٹیشن پر جمع ہو گئی تھی ۔
ڈاکٹر عظیم خان کے گھرانے نے اس علاقے میں مسلم حمیت کی پاسداری کی، قیام پاکستان کی جدوجہد اور بعد ازاں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح ؒ کی حمایت کرکے علاقے کی تاریخ میں اس خانوادے کا نام امر کیا ۔
علاقے سے تعلیمی پسماندگی کے خاتمے کے لیے انجینئر اکرام اللہ خان نیازی نے ’’ پاکستان ایجوکیشن سوسائٹی ‘‘ کے نام سے ایک تنظیم قائم کررکھی تھی جس کے پلیٹ فارم سے غریب مگر با صلاحیت نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے ا سکالر شپ دیئے جاتے تھے ۔22 سال کی عمر میں عمران خان کو اس ادارے کے بورڈ کا رکن بھی بنایا گیا تھا ۔ عمران خان کی ہمشیرہ محترمہ علیمہ خانم بتاتی ہیں کہ ’’ میرے والد اپنی والدہ اور ہماری دادی کے نام پر ضرورت مند اور ہونہار طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے لیے ’’ شاکرہ عظیم ا سکالر شپ ‘‘ دیا کرتے تھے ۔ اگر چہ نمل شہر علم کا خواب عمران خان نے ہمیں دکھایا ہے لیکن تعلیم کے شعبے میں خدمات کا آغاز ہمارے والد صاحب نے کیا تھا ‘‘۔
عمران خان نے 1996 ء میں اس علاقے سے اپنی سیاست کا آغاز کیا تو انہوں نے اپنے خاندان کی روایات کے مطابق علاقے کی تعمیر و ترقی کے لیے جدوجہد بھی شروع کی اُن کی ان کاوشوں میں تعلیمی ترقی کے اقدامات ہمیشہ نمایاں رہے ۔ان کی تحریک پر N.C.H.D نے خٹک بیلٹ کے علاقوں تبی سر اور بانگی خیل میں 150 بنیادی ا سکولوں کی بنیاد رکھی ۔ سیٹیزن فاؤنڈیشن نے علاقے میں پانچ کوالٹی ایجوکیشن ا سکول قائم کیے جن میں سے اب داؤد خیل اور پائی خیل کے ا سکول انٹر کالج بن چکے ہیں ۔ پنجاب کے اس پسماندہ اور مشکل ترین پہاڑی علاقوں میں عمران خان نے جاپان کی حکومت کی مدد سے 92 کلومیٹر سڑک ( جیپ ایبل ٹریک ) بنوایا جس سے تخت وشوڑہ ( Takhat Weshora )۔ پتو ، بوہڑ کھوئی ، قمر سر ، وگیان ، کھجورو فقیر ِ ، کر یژئی کے مکینوں کو خاطر خواہ فائدہ ہوا اور ان کی بڑے شہروں تک ان کی رسائی آسان ہو گئی ۔ اس علاقے میں بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے اور قابل استعمال بنانے کے لیے ’’ مائی نور ڈیم ‘‘ کے نام سے ایک آبی ذخیرہ بھی بنایا گیا ۔ اس ڈیم میں اڑھائی لاکھ گیلن پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے ۔ اس ڈیم سے کافی مقدا ر میں مچھلی بھی پیدا ہور رہی ہے ۔ عمران خان نے اپنی ایم این اے شپ کے دوران اپنے حلقہ انتخاب میں بجلی کی73 اسکیمیں بھی مکمل کروائیں ۔ نریوب اور کچی بانگی خیل کے علاقے میں ڈیڑھ کروڑ روپئے کی لاگت سے واٹر سپلائی اسکیمیں بھی مکمل کی گئیں جن سے ایک کثیر آبادی کی پینے کے پانی کی ضرورت پوری ہوئی ہے ۔
عمران خان کی پہلے پہل اپنے حلقہ انتخاب میں جن سماجی مسائل سے آگاہی ہوئی ان میں سے بے روزگاری کا مسئلہ سب سے زیادہ تکلیف دہ تھا۔ بے روزگاری کی وجہ سے نئی نسل کو معاشی بدحالی اور پسماندگی کے ساتھ ساتھ معاشرقی برائیوں کا ایندھن بن رہی تھی ۔ سماجی ڈھانچہ شکست و ریخت کاشکار ہو کر تباہی و بربادی کے قریب تھا ۔
قدرت مہربان ہوئی اورانہی دنوں برطانیا کی معروف برید فورڈ یونیورسٹی نے عمران خان کواپنا پہلا غیر ملکی چانسلر منتخب کر لیا ، عمران خان نے اپنے اس منصب کو میانوالی کی تعلیمی اور تہذیبی ترقی کے لیے وقف کر دیا ، سالٹ رینج کے سب سے بلند ترین پہاڑ ’’ ڈھک ‘‘کی ڈھلوان پر ایک ٹیکنیکل کالج کی بنیاد رکھی گئی ۔ عمران خان کواللہ پاک نے اقبالؒ کا رہ نورد شوق بنایا ہے وہ کسی ایک کامیابی پر اکتفا کرنے کی بجائے جہد مسلسل اور عمل پیہم کا استعارہ ہیں ۔ ملنے والی ہر کامیابی ان کے لیے مہمیز کا کام دیتی ہے ۔ وہ ایک روزاپنے قریبی ساتھیوں کے ہمراہ سالٹ رینج ( کوہستان نمک ) کے سب سے اونچے پہاڑ ’’ ڈھک ‘‘ کی ڈھلوان اور نمل جھیل کے درمیاں بیاناں اور سنسان علاقے کا جائزہ لے رہے تھے کہ انہیں ان بلند و بالا کہساروں اور چاندنی کے شفاف عکس جیسی جھیل کے درمیان اقبالؒ کے شاہینوں کے روشن اور تابناک مستقبل کے حوالے سے اُمید کی کرن دکھائی دی جسے ان کے ایقان اور جدوجہد نے ایک حقیقت بنا دیا ۔
انہوں نے آکسفورڈ کی طرز پر یہاں علم کا ایک شہر آباد کرنے کا ارادہ کیا اور پھر اپنے اس سرمدی خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے سر گرم ہو گئے ۔ نمل کالج جلد ہی ایک یونیورسٹی میں بدل گیا ۔ اب یہاں میں ایگری بزنس کی تعلیم کا آغاز بھی ہو رہا ہے ۔اس علاقے میں ملک کے مختلف حصوں سے طالب علموں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے ۔ اس خطے کے تمام لوگوں کے لیے یہ فخر اور خوشی کی بات ہے یہاں کے لوگ پہلے حصول علم کے لیے لاہور ، اسلام آباد ، فیصل آباد جیسے جن بڑے علاقوں رُخ کیا کرتے تھے آج انہی علاقوں سے طلباء وطالبات کی ایک بڑی تعداد نمل شہر علم کا رُخ کر رہی ہے ۔ اس ادارے میں پچانوے فیصد طلباء کوا سکالر شپ دیا جاتا ہے اور داخلے کے لیے میرٹ کی سختی سے پابندی کی جاتی ہے ۔ اس ادارے کے نصب العین سے متائثر ہو کر بہترین فکیلٹی خدمات سر انجام دے رہی ہے جس میں بارہ کی تعداد میں پی ایچ ڈی اساتذہ شامل ہیں ۔
اس شہر علم کو دنیا کا سب سے بڑا نالج سٹی بنانے کے لیے عمران خان اپنی سیاسی مصروفیات سے وقت نکالتے ہیں ۔
آج ایک مرتبہ پھر وہ نمل گریجوایٹس کی پانچویں سالانہ تقریب میں شرکت کے لیے میانوالی آ رہے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ میں گذشتہ اٹھائیس سال سے عطیات اکٹھے کر رہا ہوں ۔ شوکت خانم ہسپتال کا سالانہ مالیاتی خسارہ ستر کروڑ روپئے سے بڑھ پر پانچ ارب روپئے ہو چُکا ہے ۔ نمل نالج سٹی کے لیے بھی ہر سال کروڑوں روپئے جمع ہو رہے ہیں ۔ تمام تر سیاسی مخالفتوں کے باوجود پاکستانی عوام پہلے سے بھی بڑھ کر دل کھول کر عطیات دے رہی ہیں ۔ پاکستانی قوم نے مجموعی طور پر مجھے سب سے زیادہ عطیات دیئے ہیں ۔‘‘
پاکستانی قوم کی بیداری اور جذبے کا اظہار شوکت خانم میموریل ہسپتال اور نمل شہر علم (Namal Knowlodge City ) جیسے منصوبوں سے بخوبی ہوتا ہے ۔ جذبہ صادق اور نیت بے ریا ہونی چاہیے یہ قوم آنکھوں کو میٹھے خوابوں سے لبریز اور ماحول کو خوشیوں سے سرشار کر دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے ۔ ایک سچے اور بے ریا جذبے سے ہم روشن اور خوشحال مستقبل کی اڈیک اور اُمید رکھ سکتے ہیں ۔