... loading ...
کالعدم بلوچ مسلح تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ(بی ایل ایف) کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر سخت گیر اور شدت پسندانہ سوچ و عمل کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔ اور یہ عمومی رائے پائی جاتی ہے کہ باقی شدت پسند بلوچ رہنماء ریاست کے ساتھ افہام و تفہیم پر آمادہ اور بلوچستان لـوٹ سکتے ہیں۔ جبکہ اس کے بر عکس ڈاکٹر اللہ نذر موت کو ہی ترجیح دیں گے ۔ بہرحال یہ ایک رائے ہے جو غلط بھی ہوسکتی ہے ۔ مذاکرات کے عمل میں ان کی شرکت کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا۔ ڈاکٹر اللہ نذر زمانہ طالبعلمی ہی میں ریاست مخالف رجحان کے حامل تھے۔ بلوچ قوم پرست سیاست میں بنیادی نکتہ جو ایک طالب علم اور کارکن کو سکھایا جاتا ہے، وہ یہ ہے کہ بلوچستان کا پاکستان سے الحاق جبری طورپر کیاگیا ہے۔ نیشنل پارٹی اپنی سمت تبدیل کر چکی ، جنہیں اتفاق نہ تھا وہ ان کی اجتماعیت سے الگ ہوگئے ہیں ۔
جولائی 1931میں’’ انجمن اتحاد بلوچاں ‘‘کے پلیٹ فارم سے ریاست قلات میں سیاسی بیداری کی تحریک کا آغاز ہوا ۔پھر’’ انجمن اسلامیہ قلات ‘‘قائم ہوئی ۔اس طرح پانچ جولائی 1937 کو’’قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی ‘‘کی داغ بیل ڈالی گئی۔اس جماعت میں سرکردہ بلوچ سیاسی قائدین شامل تھے ۔دورانگریز ی استبداد کا تھا ۔نیز ریاست پر خاندانی نظام مسلط تھا ۔یہ جماعت ریاست قلات کو ہندوستان کا حصہ کی بجائے الگ وطن تصور کرتی تھی ۔ تحریک کا مقصد وطن کی قومی و سیاسی بنیادوں پر تنظیم و ترقی تھا۔ انہی افکار کے تحت ریاست قلات کے ایوان بالا اور ایوان زیریں نے پاکستان سے بھی الحاق کی مخالفت کی تھی۔ خان آف قلات میر احمد یار خان بہر حال الحاق کے سمجھوتے پر آمادہ ہوئے اور دستخط کر ڈالے۔ چناں چہ پاکستان سے الحاق کے ساتھ علیحدگی اور صوبائی خود مختیاری کی سیاست ساتھ ساتھ چلی۔ جس میں کبھی شدت تو کبھی ٹھہرائو دیکھنے کو ملا۔ غرضیکہ ڈاکٹر اللہ نذر 2005ء میں کراچی سے ُاٹھائے گئے ۔ لمبا عرصہ غائب رکھے گئے، ان کے ہمراہ بی ایس او کے چند دیگر رہنماء بھی تھے۔ طلباء و سیاسی جماعتوں نے ان کی رہائی کے لیے آوازاٹھائی ۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں الگ منظر عام پر لانے کا مطالبہ کررہی تھیں۔ یوں طویل گمشدگی کے بعد چھوڑ دئے گئے۔
ڈاکٹر اللہ نذر پر جسمانی تشدد ہوا تھا ۔ کوئٹہ کے سول ہسپتال میں زیر علاج تھے ۔عدالت میں پیش کیے گئے جہاں سے2006 میں ضمانت ملی اور پھر عدالت میں حاضر نہ ہوئے ۔ما بعد مسلح تنظیم بنا کرکے اپنی موجودگی ظاہر کردی ۔ گمشدگی اور بازیابی کے ایام ڈاکٹر اللہ نذر کی عوام میں پہچان کا باعث بنے ۔ ان کی تنظیم نے بڑی سفاکانہ اور مردم کش کارروائیاں شروع کیں۔ فورسز نے ان کے خلاف بڑے آپریشن کیے ۔ ان کے مارے جانے کی اطلاعات آئیں۔ چنانچہ 2015ء کے وسط میں آواران میں اللہ نذر کے آبائی علاقے مشکے کے پہاڑوں میں ایک اور مؤثر آپریشن ہوا،تنظیم کو جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ حکومت کی جانب سے ڈاکٹر اللہ نذر کے مارے جانے کا اعلان بڑے یقین کے ساتھ کیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد ان کے زندہ ہونے کی اطلاعات آئیں اور حکومت کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس آپریشن میں اللہ نذر زخمی ہوگئے تھے ۔30اکتوبر کو ان کی اہلیہ فضیلہ بلوچ اور بیٹی پوپل جان کی حراست کے بعد ایک بار پھر سیاسی و عوامی حلقوں میں ڈاکٹر اللہ نذر کی باز گشت ہوئی۔ حراست میں لی گئیں خواتین میں کمانڈر اسلم اچھو کی ہمشیرہ ،اس کے بچے اور بی ایل ایف کے ایک اور سرکردہ جنگجو دلیپ بلوچ کی اہلیہ بھی تھیں۔ یہ خواتین اور بچے چمن میں پاک افغان سرحد باب دوستی گیٹ پر حراست میں لیے گئے۔
یقینی طور پران افراد نے رازداری سے افغانستان میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ خواتین و بچوں کی گرفتاری پر یکا یک احتجاج ہوا۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر زبردست احتجاج اور ابلاغ کا ماحول بنایا گیا۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں تشویش کا اظہار ہوا۔ سیاسی جماعتوں نے خواتین کو حراست میں لینے کے اقدام کو بلوچ اور اسلامی روایات کے منافی عمل کہا۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ، نواب اسلم رئیسانی اور دوسرے زعماء نے رد عمل دیا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتونخواملی عوامی پارٹی کے بیانات اخبارات میں چھپے۔ ان سیاسی جماعتوں کا رد عمل بڑا تلخ و ترش تھا ۔ سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی اورقومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر نے رپورٹ طلب کرلی۔ اس حوالے سے بعض بلوچ جماعتوں اور سیاسی کارکنوں نے مبالغہ آمیزی بھی کی۔ کسی نے کہاکہ خواتین کو کوئٹہ کے علاقے سریاب سے اغواء کیا گیا ۔تو کسی کا پروپیگنڈہ ہسپتال سے دوران علاج اُٹھانے کا تھا۔ ڈاکٹر اللہ نذر کی اہلیہ علیل ضرور تھیں ۔ کراچی علاج کے لیے گئی تھیں۔ کوئٹہ آنے کے بعد افغانستان جارہی تھیں وہ بھی بغیر قانونی دستاویزات کے۔ یقینا بلوچ پشتون روایات میں اس گرفتاری کو اچھی نظر سے نہیں دیکھاگیا۔ لیکن کیا ریاست اور اس کے اداروں کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنیوالوں کو روکیں یا ان سے باز پرس کریں؟۔ بلاشبہ قانون امتیاز نہیں کرتا کہ عورت غیر قانونی طور پر سرحد پار کررہی ہے یا مرد ، بوڑھا یا بچہ۔ اور پھر یہ خواتین کوئی عام خواتین بھی تو نہ تھیں۔ یہ ڈاکٹر اللہ نذر اور دوسرے معروف کمانڈروں کی اہل خانہ تھیں ۔ اللہ نذر نے ریاست کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے اور ریاست کو مطلوب ہیں ۔ ان پر سینکڑوں ہزاروں لوگوں کے قتل اور بے پناہ نقصان پہنچانے کے سنگین الزامات اور مقدمات قائم ہیں۔
سچی بات یہ ہے کہ ان خواتین کے ساتھ بڑا عزت اور احترام والا سلوک کیا گیا۔ بقول صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی کے فورسز کی حراست میں بھی اس احترام میں کمی آنے نہ دی گئیں۔ وزیراعلیٰ ہائوس پہنچائی گئیں، وہاں نواب ثناء اللہ زہری نے خود ملاقات کی ۔ خود ان کے سروں پر چادر ڈالی۔ بچوں کو تحائف دیئے ،مالی مدد کی۔ ڈاکٹر اللہ نذر کی اہلیہ کو بھی نصیحت کی کہ وہ اپنے شوہر کو کہے کہ ’’بردار کشی ٹھیک عمل نہیں۔ اور نام نہاد آزادی کے علمبردار خواتین اور بچوں کو اس جنگ میں نہ دھکیلیں‘‘۔نواب زہری نے یہ انکشاف بھی کیاکہ ڈاکٹر اللہ نذر کے بچے فرانس میں زیر تعلیم ہیں اور وہ خود بلوچستان میں اساتذہ کو شہید کرنے اور نوجوانوں کو بہکانے اور ان کا مستقبل تاریک کرنے کی خوفناک سازش کررہاہے۔ ‘‘سرفراز بگٹی کہتے ہیں کہ گرفتارخواتین کو ڈاکٹر اللہ نذر نے افغانستان بلایا تھا اور یہ خواتین بی ایل ایف اور بی ایل اے کے پیسوں کی تقسیم میں بھی ملوث رہی ہیں۔ اس پر ڈاکٹر اللہ نذر نے اپنی ٹویٹ میں سرفراز بگٹی کو دھمکی آمیز لب و لہجے میں مخاطب کیا کہ اس کی اہلیہ سے زبردستی اقرار کروایا گیا ہے ۔ڈاکٹر اللہ نذر کی اہلیہ کو ان کے بھائی مہراللہ کے ساتھ بھیجا گیا ۔ دوسری خواتین بھی ورثاء کے حوالے ہوئیں۔
سرفراز بگٹی کہتے ہیں کہ ڈاکٹر اللہ نذر افغانستان میں ہیں۔ یہ بات درست ہے جب ہی تو اہلخانہ نے وہاں جانے کی کوشش کی۔ اور اس تنظیم کی کالز اور میل افغانستان سے بھی آپریٹ ہورہی ہیں ۔ براہمداغ بگٹی طویل عرصہ افغانستان میں رہے ہیں ۔ بالاچ مری وہاں پناہ لیے ہوئے تھے۔ بڑی تعداد ان شدت پسندوں کی آج بھی افغانستان میں مقیم ہے۔ افغان اور بھارتی جاسوسی ادارے ان کو مالی اور لاجسٹک کمک دیتے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد ہر شورش کے قائدین کو افغانستان نے محفوظ رکھا۔البتہ مئی 1948ء میں خان قلات میر احمد یار خان کے بھائی شہزاد عبدالکریم اپنے باغی رفقاء کے ہمراہ افغانستان کی طرف گئے ۔ افغان سرحدی علاقہ’’ سرلٹھ ‘‘میں پڑائو ڈالا ۔ مگر اس وقت کی افغان حکومت نے ا ن افراد کو جنگی مقصد کے تحت پناہ میں لینے سے انکار کردیا ۔ یہی وجہ تھی کہ شہزادہ عبدالکریم احمد زئی سے خان قلات نے بھی حسن سلوک نہ کیا ۔ بہت جلد وہ اور ان کے ساتھی دھر لیے گئے۔ انہیں سزائیں ہوئیں۔ اور مزاحمت نے دم توڑ دیا۔ ما بعد شہزادہ عبدالکریم سیاست میں سرگرم ہوئے ۔ اسمبلی کے ممبر بھی منتخب ہوئے ۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کمانڈر اسلم اچھو جس کا تعلق بی ایل اے سے تھا کے خلاف مارچ2016ء میں آپریشن ہوا ،اور ان کے مارے جانے کا حکومتی و سرکاری سطح پر اعلان ہوا۔ بعد ازاں ان کی ہلاکت کی خبر بھی غلط ہوئی۔ یہ شخص وزیراعلیٰ نواب زہری پر انجیرہ قلات میں حملے کا منصوبہ ساز ہے۔ اس دھماکے میں نواب زہری کے بیٹے میر سکندر زہری ، بھائی مہرا للہ زہری اور بھتیجا میر زیب زہری جاں بحق ہوگئے تھے۔۔ اسلم اچھو کی موجودگی کی اطلاع فورسز کو، بی ایل اے کے ایک کمانڈر نے دی تھی۔ لیکن وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ شنید میں ہے کہ اس واقعہ کے بعد اسلم اچھو نے بی ایل اے سے وابستگی ختم کردی اور ڈاکٹر اللہ نذر کی بی ایل ایف سے منسلک ہوگئے۔ اس امر کی تصدیق اسلم اچھو کی ہمشیرہ کا ڈاکٹر اللہ نذر کی اہلیہ اور بی ایل ایف کے کمانڈر دلیپ بلوچ کی اہلیہ کے ہمراہ افغانستان جانے سے بھی ہوتی ہے۔ القصہ نواب زہری اور سرفراز بگٹی نے تو قبائلی روایات کا پاس رکھ دیا۔ مگرمسلح تنظیمیں جو خود کو اصول و روایات کے محافظ اور امین سمجھتی ہیں نے خواتین اور بچوں کوموت کے گھاٹ اتار دینے سے کبھی دریغ نہیں کیا ہے۔