... loading ...
بادشاہوں کی قسمت میں راج کرنا اور اقتدار کے مزے لوٹنا لکھا ہوتا ہے عام طور ہر ہوتا بھی ایسا ہی ہے لیکن کبھی کبھی قسمت کچھ ایسی چال چلتی ہے کہ بادشاہ ہوتے ہوئے بھی راج اور اقتدار سراب بن جاتے ہیں۔ بہادر شاہ ظفر بھی ہندوستان کے ایک ایسے ہی بدنصیب بادشاہ تھے جن کا حکم بس لال قلعے پر چلتا تھا۔ ماہ ستمبر سنہ 1837 میں والد اکبر شاہ دوم کی موت کے بعد بہادر شاہ ظفر تخت نشین ہوئے۔ بہادر شاہ ظفر کا دور آتے آتے مغلیہ سلطنت کے پاس راج کرنے کے لئے محض دلی یعنی شاہ جہان آباد ہی بچا رہ گیا تھا۔1857 تک انگریزوں نے تقریباً تمام ہندوستان کو اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ انگریزوں کے حملوں سے مشتعل باغی فوجیوں اور راجا مہاراجائوں کو ایک مرکزی قیادت کی ضرورت تھی جو انہیں بہادر شاہ ظفر میں دکھائی دی۔ بہادر شاہ ظفر نے انگریزوں کے خلاف قیادت تو قبول کر لی لیکن 82 سالہ بوڑھا بادشاہ آخر کار جنگ ہار گیا، انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ بہادر شاہ ظفر کو زندگی کے آخری ایام انگریزوں کی قید میں گزارنے پڑے۔ بہادر شاہ ظفر کا انتقال سات نومبر 1882 کو 87 برس کی عمر میں برما (اب میانمار) کی اس وقت کے دارالحکومت رنگون (اب یانگون )کی ایک جیل میں ہوا۔ انگریز بہادر نے آخری مغل تاجدار کی قبر کا نشان بھی باقی نہیں چھوڑا تھا۔ موت کے بعد سو سال سے بھی زیادہ عرصے تک ان کی قبر کا کسی کو پتہ نہیں تھا۔ بہادر شاہ ظفر کے انتقال کے 132 سال کے بعد 1991 میں کھدائی کے دوران ایک قبر کا پتہ چلا۔ ساڑھے تین فٹ کی گہرائی میں بہادر شاہ ظفر کی نشانیاں اور باقیات برآمد ہوئیں۔ بہادر شاہ ظفر کے مزار کی تعمیر1994 میں ہوئی۔ بہادر شاہ ظفر کو بادشاہ سے زیادہ ایک حساس شاعر کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ درد سے بھرپور ان کے اشعار میں زندگی کی تلخ حقیقت اور احساسات کا سمندر موجزن ہے۔ رنگون میں انگریزوں کی قید میں رہتے ہوئے بھی انہوں نے کئی غزلیں کہیں۔ قید میں انہیں قلم دستیاب نہ تھا تو انہوں نے جلی ہوئی لکڑیوں سے قید خانے کی دیواروں پر ہی شعر لکھنا شروع کر دیے۔
کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لئے، دو گز زمین بھی نہ ملی کو ئے یار میں۔
ظفر واقعی بدنصیب تھا کہ ہندوستان کا بادشاہ ہوتے ہوئے بھی قبر کے لئے زمین اسے برما میں ملی لیکن اس کہانی کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ جس برما میں بہادر شاہ ظفر کو جلا وطن کیا گیا تھا اسی آزاد برما کے آخری بادشاہ، تھیبا مِن، کو انگریزوں نے برما سے جلا وطن کر کے3 ہزار کلومیٹر دور ہندوستان کے علاقے رتنا گری بھیج دیا تھا۔ تھیبا مِن برما کے کانبانگ خاندان کے آخری بادشاہ تھے۔ انگریزوں کے ساتھ جنگ میں شکست کے بعد 1885 میں برما پر انگریزی راج قائم ہو گیا۔ جس وقت برما انگریزوں کے قبضے میں آیا اس وقت بادشاہ تھیبا مِن نوجوان تھے اور ان کی عمر صرف 26 سال تھی۔ انگریزوں نے بادشاہ تھیبا اور ان کے خاندان کو ہندوستان جلا وطن کر دیا جس کے لئے ہندوستان میں ساحل سمندر پر آباد جزیرہ نما شہر رتنا گری کا انتخاب کیا گیا۔ اْس وقت رتنا گری کی آبادی محض چند ہزار تھی۔ شروع کے پانچ سال بادشاہ تھیبا اور ان کے خاندان یعنی ان کی ملکہ اور دو بیٹیوں کو دھرنگائوں میں بنے سر جیمز آٹرم کے بنگلے میں رکھا گیا۔ اس دوران بادشاہ تھیبا کے لیے ایک عمارت تعمیر کی گئی جو بعد میں تھیبا پیلس کے نام سے مشہور ہوئی۔ بادشاہ تھیبا کو شروع میں تقریباً ایک لاکھ روپے کی سالانہ پنشن ملتی تھی لیکن رفتہ رفتہ اسے کم کر دیا گیا۔پندرہ دسمبر1616کو 57 برس کی عمر میں جب بادشاہ تھیبا کی موت ہوئی تو ان کی سالانہ پنشن 25 ہزار روپے بھی نہیں رہ گئی تھی۔ موت کے بعد انہیں رہائشگاہ کے نزدیک عیسائیوں کے قبرستان کے پاس دفن کر دیا گیا۔ نہ کوئی مزار بنا نہ کوئی چراغ جلا۔۔ بادشاہ تھیبا کی موت کے کچھ دن تک ان کے خاندان کے لوگ وہیں رہے اور پھر یکے بعد دیگرے پورا خاندان بکھر گیا۔ برما پر صدیوں تک راج کرنے والے اس شاہی خاندان کا آج نشان بھی نہیں ملتا۔ اگر بادشاہ تھیبا بھی بہادر شاہ ظفر کی طرح شاعر ہوتے تو شاید یہ شعر کچھ اس طرح کہتے۔
کتنا ہے بدنصیب، تھیبا، دفن کے لئے۔۔ دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں۔