وجود

... loading ...

وجود

ملتان او ر سجادہ نشینی

منگل 07 نومبر 2017 ملتان او ر سجادہ نشینی

حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی ؒ کے سالانہ عرس کے موقع پر درگاہ کے سجادہ نشین شاہ محمود قریشی کے بھائی، سابق گورنر پنجاب مخدوم سجاد حسین قریشی کے صاحبزادے مرید حسین قریشی نے اپنے بھا ئی کو درگاہ کی بجائے ’’عمرانیات‘‘ کا سجادہ نشین قرار دے دیا ۔ درگاہ کے احاطے میں جب سجادہ نشین کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا تو تقریب کے شرکاء خصوصاً مریدین پر سکتہ طاری تھا ۔ شاہ محمود قریشی سمیت تما م شرکائے تقریب بڑے ضبط اور حوصلے کے ساتھ مخدوم زادہ کی گفتگو سُن رہے تھے ۔ مرید حسین قریشی کا اندازِ خطاب اپنے بھائی شاہ محمود سے کوئی زیادہ مختلف نہیں تھا ۔ وہ کہ رہے تھے کہ
میرے سینے میں دل رکھا میرے منہ میں زباں رکھ دی
جہاں رکھنے کی جو بھی چیز تھی قدرت نے وہاں رکھ دی
مخدوم مرید حسین قریشی کے تیور عرس کے آغاز سے قبل ہی آنے والے طوفان کا پیش خیمہ بن رہے تھے ۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی میں ہیں ان کی پارٹی کو آصف علی زرداری نے کامیابی سے کوسوں دور کر دیا ہے ۔ رہی سہی کسر عمران خان نے نکال دی ہے ۔درگاہ حضرت غوث بہاؤ الدین زکریا ملتانی ؒ کے عقیدت مند سندھ بھر میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ دو ہفتے قبل شاہ محمود قریشی نے سندھ کا ایک تفصیلی دورہ کیا تھا جہاں ان کے مریدین نے ان کی خوب پذیرائی کی تھی ۔ پنجاب اور سندھ کے سنگھم پر واقع اوباڑو میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے اپنے بھائی کی جانب سے اپنی ذات پر کیے جانے والے حملے کو آصف علی زرداری کے ذمہ لگا دیا ہے ۔
درگارہ حضرت بہاؤ االدین زکریا ؒ اور حضرت شاہ رکن عالم ؒ کی درگاہ کے ان مخدوم زادوں کے درمیان یہ چپقلش نئی نہیں ہے۔ سابق سجادہ نشین مخدوم سجاد حسین قریشی کے انتقال کے بعد ان دونوں بھائیوں کے درمیان تعلقات ایسے ہی رہے ہیں جیسے پاکستان تحریک انصاف میںشاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے معاملات ہیں ۔
ملتان میں مختلف درگاہوں کے سجادہ نشین سیاست میں بھی سرگرم عمل ہیں۔ ان سجادہ نشینوں کے درمیاں جہاں سیاسی رقابت کا سلسلہ موجود ہے وہاں ان میں سے اکثر خانگی اختلافات کا شکار بھی ہیں ۔ سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی ملتان کی معروف درگاہ حضرت موسیٰ پاک ؒ کے سجادہ نشین ہیں ۔ ان کے بیٹے سید عبد القادر گیلانی کی شادی سندھ کے پیر پگاڑہ خاندان میں ہوئی ہے، ان کی سُسرالی گدی کی وجاہت کے اثرات ان کی شخصیت پر نمایاں ہیں، یہی وجہ ہے سید یوسف رضا گیلانی بھی اپنے ا س بیٹے کے سامنے کم ہی ’’ دم مارتے ‘‘ ہیں ۔سُنا ہے کہ اس مرتبہ عبد القادری گیلانی نے کہا ہے میں اپنے سابق حلقے ( سید یوسف رضا گیلانی کے حلقہ ) سے انتخابات میں حصہ لوں گا ۔ بڑے گیلانی صاحب جہاں سے چاہیں الیکشن لڑیں یہ حلقہ میرا ہے ۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ عبد القادر گیلانی اپنی مہم کا باقاعدہ آغاز بھی کر چُکے ہیں ۔
کہا جاتا ہے کہ ملتان میں یوسف رضا گیلانی اور شاہ محمود قریشی کے درمیان سیاسی رقابت ہمیشہ سے موجود رہی ہے ،دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی ہر وقت کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ وزارت عظمیٰ کے دور میں یوسف رضا گیلانی کی ملتان کی رہائش ہر وقت سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنی رہتی تھی ۔ ایسا منظر دیکھنے کی خواہش شاہ محمود قریشی کو بھی ہے ۔ پہلے پہل پارٹی میں ملتان سے جاوید ہاشمی سے ان کی رقابت رہی ۔ جاوید ہاشمی مکافات عمل کا شکار ہوئے تو سرد جنگ کے اس میدان میں جہانگیر خان ترین ایک مضبوط شہسوارکے طور پر موجود پائے گئے ۔ شاہ محمود قریشی کچھ سال پہلے اُس وقت گیلانیوں کے سیاسی قلعہ کی فتح کے نزدیک پہنچ گئے تھے جب انہوںنے یوسف رضا گیلانی کے دست راست اور جنوبی پنجاب میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے با اعتماد ساتھی ملک احمد حُسین ڈیہر کو تحریک انصاف میں شامل کر لیا تھا ۔ ملک احمد حُسین ڈیہر این اے151 کے سب سے زیادہ مضبوط اُمید وار قرار دیے جا رہے ہیں ۔ ملتان میں یہ شاہ محمود قریشی کی ایک بہت بڑی کامیابی تھی ۔ یاد رہے کہ ملک احمد حسین ڈیہڑ کے حلقے میں2013 ء کے عام انتخابات میں موجودہ وفاقی وزیر زراعت سکندر بوسن نے عمران خان کو ٹکٹ واپس کرکے ان کی پارٹی کے لیئے مشکلات پیدا کردی تھیں۔ لیکن اب شاہ محمود قریشی نے ملک احمد حُسین ڈیہڑ کی صورت میں ایک مضبوط مدمقابل ڈھونڈلیا ہے ۔ مبصرین اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر ملتان میں شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کے درمیان معاملات ٹھہراؤ میں رہے اور ٹکٹوں کی تقسیم میرٹ اورتکنیکی معاملات کو مدِ نظر رکھ کر کی گئی تو ملتان ڈویژن میں پاکستان تحریک انصاف کی کامیابی کو کوئی نہیں روک سکتا ۔ تاہم اس وقت دنوں قائدین کے درمیان موجود ماحول برقرار رہا تو نتائج پی ٹی آئی کے لیئے تکلیف دہ بھی ہو سکتے ہیں ۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان جنوبی پنجاب کے کامیاب جلسوں کے بعد صوفیاء کی دھرتی سندگ میں داخل ہو چُکے ہیں ۔ شاہ عبد الطیف بھٹائی ؒ اور لعل شہباز قلندر ؒ کی اس دھرتی میں صوفیاء اور بزرگان دین کا بہت احترام ہے یہ تقدس وادی سندھ کی تہذیب کا حصہ ہے ۔ اس کی وجہ سے یہاںکی سیاست ہمیشہ گدی نشینوں کی دسترس میں رہی ہے ماضی کی طرح آئندہ عام انتخابات میں بھی ان سجادہ نشینوں کا کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ سندھ اور ملتان کے سجادہ نشینوں کے ذکر نے لاہور کے قبرستان میانی صاحب میں آسودہ خاک شہید پاک طینت غازی علم دین شہید ؒکے خاندان کے ایک فرد کی باتیں یاد آ گئیں ہیں
’’کامران رشید لاہور کے اک گمنام شہری ہیں وہ غازعلم دین شہید ؒ کے بھائی محمد دین کے پوتے ہیں ان سے پوچھنے والوں نے پوچھا ’’ غازی علم دین ؒ کے لوگ کبھی سامنے نہیں آئے حالانکہ ملعون راجپال کا خاندان آج بھی ان نام کیش کروارہا ہے ۔ ؟ کامران رشید کا جواب تھا کہ ’’ غازی علم دین شہید ؒ کا خاندان آپ بھی ہیں اور میں بھی ہوں ، جو حُب رسول ﷺ رکھتا ہے وہ غازی علم دین شہید ؒ کا خاندان ہے ۔ہمیں غازی صاحب نے اپنی وصیت میں منع فرمایا تھا کہ آپ میری وجہ سے نہیں بلکہ اپنے اعمال کی وجہ سے بخشے جائیں گے ۔ کامران رشید کے بقول میرے دادا، میرے والد ، حتیٰ کہ میری پھوپھو صاحبہ بھی ابھی زندہ ہیں ۔میری پھوپھوصاحبہ ایک سال تک غازی علم دین شہید کی گود میں کھیلی ہیں ۔ ہم نے اپنے دادا سے یہ سنا تھا کہ ’’ غازی صاحب کی خواہش ہے کہ آپ میرے نام کو کبھی استعمال نہ کریں چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ہم نے آج تک کسی کو اپنی تصویر تک نہیں دی ۔ میرے دادا محمد دین ، میرے والد رشید احمد سمیت خاندان کے کسی فرد کی تصویر کبھی شائع نہیں ہوئی ۔ یہ غازی صاحب کا فلسفہ تھا ناموس رسالتﷺ پر اپنی جان قربان کردو یہ عظیم سعادت ہے ۔کامران رشید کے بقول غازی کے مزار کی دیکھ بھال وہ خود کرتے ہیں ۔ محکمہ اوقاف نے قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ہم نے عدالت کے ذریعے دفاع کیا کیونکہ غازی شہید کی وصیت کے مطابق ان کے مزار پر چندہ اکٹھا کرنے کی سختی سے ممانعت ہے ۔لوگ 31 ۔ اکتوبر کو ان کا عرس مناتے ہیں مگر ہم22 جمادی الثانی کو غازی صاحب کا یوم شہادت سمجھتے ہیں اور اُس روز مزار پر حاضری دیتے ہیںاور فاتحہ خوانی کرتے ہیں ‘‘۔غازی علم دین شہید ؒ کے خانوادے کی یہ باتیں دینی اور سیاسی سجادہ نشینوں سمیت ہم سب کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر