وجود

... loading ...

وجود

مسئلہ پیرا شوٹرز ہیں

منگل 07 نومبر 2017 مسئلہ پیرا شوٹرز ہیں

جو کچھ ملک میں ہورہا ہے وہ اتنا سادہ نہیں کہ آسانی سے سمجھ آجائے۔ بات صرف نوازشریف کی کرپشن کی نہیں۔ بات آصف علی زرداری کو اقتدار کا خواب دکھانے کی بھی نہیں۔ بات عمران کو لارے میں لگا رکھنے کی بھی نہیں۔ بات ہے اپنی حاکمیت کو برقرار رکھنے کی۔ ملک میں گامے تیلی کی حکومت چل سکتی ہے۔ بلے نائی کی چل سکتی ہے۔ کیٹلے موچی کی حکومت چل سکتی ہے مگر اس کی حکومت نہیں چل سکتی جو خود اپنی مرضی اپنی پسند سے حکومت چلانا چاہے۔ کسی نہ کیا کہ اگر نوازشریف چور ہے تو آصف علی زرداری صاحب بھی چور ہیں۔ پھر آصف زرداری کی شامت ایسے کیوں نہیں آرہی جیسے نوازشریف صاحب کی آئی ہوئی ہے؟ ۔
حقیقت حال یہ ہے کہ جب جنرل پرویز مشرف کو شو ختم ہوا اس کے بعد آصف زرداری صاحب کے سہانے دور کا آغاز ہوگیا اور بین الاقوامی اخبارات نے شہ سرخیاں لگائیں کے مسٹر 10 پرسنٹ مسٹر 100 پرسنٹ بن گئے ہیں۔ اور موصوف نے پورے 5 سال مکمل کیے اور راوری چین کی چین سکھ میں سکھ لکھتا رہا۔ یا یوں کہہ لیں راوری سے لکھوایا جاتا رہا۔ بعض نافدین کا خیال ہے اور خود یوسف رضا گیلانی بھی فرماتے ہیں کہ اگر لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشا کو مدت ملازمت میں توسیع مل جاتی تو گیلانی شاید ناجاتے۔ مگر ماڑا مٹا سول وزیراعظم نے اکثر وہ کام کرجاتا ہے جو سول بالادستی کے لیے بطور نظیر پیش کیا جاسکتا ہے۔ ابھی کل ہی جاوید ہاشمی صاحب کسی ٹی وی پروگرام میں فرمارہے تھے کہ ملک کی تاریخ کے تمام بڑے سیاسی لیڈر ایک ہی فیکٹری کی پیداوار ہیں اور جو ان کو فیکٹری سے پیدا کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم نے تو ان کو لیڈر بنایا۔ اس موقع پر اینکر پرسن نے کہا کہ یہ کہاں ہوتا ہے کہ فیکٹری کا مال فیکٹری کے مالک کے سامنے کھڑا ہوجائے۔ جاوید ہاشمی صاحب نے کہا یہی تو مسئلہ ہے کہ اسی لیے تو فیکٹری والے ہر دو سال بعد نیا مال مارکیٹ میں ڈال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پرانا مال زہر ہے اس کے قریب بھی مت جانا۔ یہ بین الاقوامی اصول ہے کہ وہ ایجنٹ زیادہ برا لگتا ہے تو توبہ کرے اور صحیح راہ پر چلنا شروع کردے۔
بات کررہے تھے جنرل پرویز کے جانے کے بعد کی تو جب جنرل پرویز ملک سے رخصت ہوا اس کے بعد آصف زرداری صاحب کا اقتدار شروع ہوگیا۔ اس 5 سال میں کرپشن کی کالی ماتا نے جتنے ڈالروں کی بلی لیتی تھی وہ لیتی رہی۔ آصف صاحب وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ سے زیادہ وزارت خزانہ کی دیکھ بھال کرتے رہے لہٰذا سب موجھا ہی موجھا چلتا رہا۔ جن کے مزے پچھلے 9 سال سے لگے تھے ان کو 5 سال اور مل گئے۔ اندھے کو کیا چاہیے؟ دو آنکھیں وہ مل گئیں۔ آصف صاحب ٹرانسفر پوسٹنگ پکڑتے رہے اور باقی سارا ملک سکون آرام شانتی سے چلتا رہا۔ تین سال کی مدت ملازمت میں توسیع بھی دے دی گئی۔ آصف صاحب اور مزید 5 سال ملتے تو وہ مزید 6 سال توسیع دینے میں 1 منٹ آسراہ نہ کرتے اور ملک میں کچھ نہ ہوتا۔ دیکھا جائے تو اصولی طور پر ملک کو آصف زرداری کے دور حکومت نے بہت دکھ یے۔ میں جان بوجھ کر آصف زرداری کا دور حکومت لکھ رہا ہوں، پیپلزپارٹی کا دور حکومت نہیں۔ کیونکہ پیپلزپارٹی میں بے شمار مخلص، صاف، ہمدرد اور غریب لوگ موجود ہیں۔
اس دور حکومت میں کراچی میں روز لوگ مرتے تھے مرتے حرام ہے جوکسی کو جوش آیا ہو۔ یا کسی نے مارے شرم کے بیلٹ، ٹوپی اتار پھینکی ہوکہ میں نوکری کروں اور شہر میں لوگ مارے جاتے رہیں یہ کیسے گوارا کروں؟ مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ جمان لیا سول حکومت گندی تھی چور تھی، اور سول حکومت آڈر نہیں دیتی تھی کہ الطاف کو لگام ڈالو، تو پھر اب کراچی کے امن کا سہرا نوازشریف اور چوہدری نثار کے سرجانا چاہئے نا؟ اب پھر کراچی کے امن کا سہرا راحیل شریف صاحب کے سر کس کھاتے میں؟ چلو لے لو راحیل شریف صاحب کو دیتے ہیں کریڈٹ کے کراچی کا امن ان کی مرہون منت ہوا تو پھر ماضی میں جو بدامنی تھی وہ اشفاق کیانی کی وجہ سے تھی؟ غیب سے آواز آئی ہے نہیں نہیں وہ سول حکومت کی وجہ سے تھی۔ واہ بھائی واہ۔ کسی پرانے زمانے میں باپ نے بچے سے پوچھا بیٹا ایک روپے کا نوٹ لو گے یا آٹھ آنے کا سکہ۔ بچہ ہوشیار تھا کہنے لگا ابا روپے کے نوٹ میں آٹھ آنے لپیٹ کے دے دو۔ عقل یہ تقاضا کرتی ے کہ جب آصف زرداری صاحب نے بری حکومت کی اور ان کے دورِ حکومت کا اختتام ہوا اس وقت پیرا شوٹر عمران خان کو سندھ کو ٹارگٹ کرنا چاہئے تھا۔ مگر عمران خان نے پنجاب کا انتخاب کیا۔ پنجاب میں آصف زرداری صاحب کے دور میں بھی میاں شہباز شریف صاحب کی حکمرانی تھی ایسے میں عمران خان کا پنجاب کو ٹارگٹ کرنا سمجھ سے بالاتر تھا۔ مگر اکثر فرشتوں کے فیصلے عقل سے ماوراء ہی ہوتے ہیں لہٰذا عینی فرشتوں نے عمران کو پنجاب دیا۔
عمران خان بھی سادہ آدمی لگ گیا پنجاب کے پیچھے پیچھے پورے 4 سالوں میں عمران خان کے پنجاب اور سندھ کے دوروں کا ریکارڈ دیکھ لیں۔ آپ کے سامنے حقیقت آجائے گی۔ اگر عمران 2013 کے انتخاب سے قبل سندھ کو ہدف بناتے تو سندھ سے عمران کو عمومااور کراچی سے خاصی کامیابی ملنی تھی مگر جنہوں نے عمران کو جہاز سے دھکا دیا تھا انہیں اس زمانے میں نہ الطاف سے کوئی شکایت تھی نہ آصف زرداری سے لہٰذا عمران نے وہی کیا جو اسے کرنا تھا۔ رہی بات نوازشریف صاحب کی تو وہ ہر دور میں وزارت خارجہ کی وجہ سے مشکل کا شکار ہوئے ہیں۔ انہوں نے جانے کے بعد وزارت خارجہ خواجہ آصف کو دی۔ اگر آپ نے ایشین سوسائٹی میں خواجہ آصف کا مکمل سیشن سنا ہوا تو آپ کو فخر ہوگا کہ آپ کا وزیر خارجہ خواجہ آصف جیسا دلیر اور نڈر انسان ہے۔ البتہ اگر آپ نے خواجہ آصف کے پورے خطاب میں سے وہ چند جملے پڑھے ہیں جو اخبارات نے آپ تک پہنچائے ہیں تو الگ بات ہے۔ اس وقت نوازشریف وہی کام کررہے ہیں جو کبھی پیپلزپارٹی کرتی تھی۔ مسئلہ صرف سینیٹ کے انتخابات کا ہے۔ ایسی آوازیں سنائی دے رہی ہیں کہ یا تو سینیٹ کے انتخابات نہیں ہونگے۔ اگر ہوگئے تو وقت پر الیکشن نہیں ہونگے۔ اگر الیکشن بھی وقت پر ہوگئے تو ن لیگ کو اکثریت نہیں لینے دینگے۔ اگر ن لیگ نے اکثریت بھی لے لی تو حکومت بننے نہیں دیں گے اگر حکومت بھی بن گئی تو حکومت چلنے نہیں دینگے۔ ہاں اس کے امکانات روشن ہیں کیونکہ جہاز فضاء میں 18 ہزار فٹ کی بلندی پر ہے اور کئی پیرا شوٹر دانت نکالے اپنی چڑیوں کو پیرا شوٹ بناکر گودنے کے لیے اشارے کے منتظر ہیں۔ اشارہ ہوا نہیں کہ وہ کودے نہیں۔ اس لیے مسئلہ ہیں تو صرف پیراشوٹر۔


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر