... loading ...
عوامی جمہوریہ چین میں مزدور کسان انقلاب کے بانی کا مریڈ مائوزے تنگ نے کہا تھا ’’میری قوم ایک عرصہ سے مغرب کی غلام تھی ۔ افیون ہماری کاشت تھی ‘ جہالت کے انبار تھے ۔ پھر میں نے ان جاہلوں کو پڑھانے کی کوشش کی تو انہوں نے علم کو جھٹلا دیا ۔ میں نے ووٹ کا حق ہمیشہ کے لیے ان سے چھین لیا اور صرف علم والوں کو اختیار دے دیا چنانچہ اسی گھسی پٹی جمہوریت سے میں نے چین میں انقلاب برپا کردیا ۔ آپ کی تو الہامی کتاب کہتی ہے کہ علم رکھنے والے اور نہ رکھنے والے برابر نہیں ہوسکتے ۔ پھر آپ کے آئین میں غیر تعلیم یافتہ لوگوں کو اس فیصلے کا حق کیوں دیا ہوا ہے ‘‘ مجھے اس گھڑی مائوزے تنگ کا یہ قول بے حد یاد آیا جب چند روز قبل سندھ کے سابق وزیر شرجیل میمن کو جیل سے سندھ اسمبلی کے اجلاس میں لایا گیا تو قانون ساز ادارے کے اکثر ارکان ان پر پھول نچھاور کررہے تھے ۔ یہ شاندار استقبال سندھ کو سوئٹزر لینڈ یا دبئی بنانے پر نہیں تھا بلکہ شرجیل میمن پر اپنی وزارت کے دور میں 5 ارب 77 کروڑ روپے کی کرپشن کا الزام ہے اور ان کے خلاف احتساب عدالت میں مقدمہ چل رہا ہے ۔ انہیں عدالت میں پیشی کے موقع پر 6 گھنٹے کی آنکھ مچولی کے بعد گرفتار کیا گیا تھا ۔ سندھ اسمبلی کے اجلاس میں ان کا استقبال ’’ہیرو‘‘ کے طور پر کیا گیا ۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اجلاس سے خطاب کے دوران عدلیہ پر تبصرہ سے گریز کرتے ہوئے صرف نیب کو ہدف تنقید بنایا ان کا کہنا تھا کہ شرجیل میمن ملک سے باہر تھے ۔ وہ واپس آئے اور انہوں نے ضمانت کے لیے عدالت سے رجوع کیا ۔ ان کو بتایا گیا کہ متعلقہ عدالت نے اعتراض کیا ہے نیب کے اوپر نیب عدالت نہیں ہے نیب ایک ادارہ ہے اور ایک صوبائی اسمبلی کا ممبر جو کہ ایک آئینی ادارے کا رکن ہے اس کے ساتھ نیب دہرا رویہ اختیار کررہا ہے یہ اس کے اعتراضات ہیں ۔ عدالت کے اعتراضات نہیں ہیں ۔ ایک ڈکٹیٹر نے قانون بنایا ہے ۔ میں نے اس وقت بھی کہا تھا کہ ہاں مجھے ذمہ داری دی ہے کہ اس صوبے کے لوگوں کے لیے قانون بنایا جائے ۔ شرجیل میمن نے عدالت میں اپنے آپ کو سرنڈر کیا اور ہر فورم پر اپنے کیس لڑے ہیں اور ضمانت منسوخ ہونے کے بعد عدالت سے بھاگے نہیں مگر اس ہائوس کے ایک معزز ممبر کو بڑی ویڈیوز میں کورٹ سے بھاگتے ہوئے دکھایا گیا ۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ شرجیل میمن بھاگا نہیں بلکہ اس نے وضاحت پیش کی ۔ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کو ایک درخواست دی ۔ چیف جسٹس صاحب نے درخواست نہیں مانی اور انہیں عدالت کے احاطے سے گرفتار کیا گیا ۔ اسمبلی میں کچھ دوست موجود ہیں اور وہ گواہ ہیں کہ پہلے کسی ممبر کو احاطے سے گرفتار کیا گیا تھا تو ہم نے شور مچایا تھا وہ پیپلز پارٹی کا ممبر نہیں تھا میں نے عدالت میں مقدمہ دائر کیا تھا کہ اسمبلی کے احاطے سے کیسے گرفتار کیا گیا ۔ ہم نے ہمت کی مجھے ہائی کورٹ کا بے حد احترام ہے مگر ہائی کورٹ کی تذلیل ہوئی ہے کیونکہ اس کے احاطے سے ایک معزز ممبر کو گرفتار کیا گیا ہے بعد میں وہ لوگ آرڈر دکھاتے ہیں کہ ہم نے شاہراہ عراق پر واقع مسجد خضرا سے گرفتار کیا ہے جو کہ سراسر غلط اور جھوٹ ہے ۔ میں نہایت احترام سے سندھ ہائی کورٹ سے کہتا ہوں کہ کم از کم اس پر ایکشن تو لیں، شرجیل میمن کو نہ چھوڑیں مگر جھوٹ بولنے والوں کے خلاف ایکشن تو لیں ۔ کورٹ میں شرجیل میمن کی کرپشن کے ساتھ ساتھ بہت سارے کیسز ہیں مگر آپ کیا یہاں پر بھی کورٹ لگانا چاہتے ہیں ۔ ایسے نہیں ہوتا ہے ۔ انکوائری ہو گی اور ان کیٹرنگ کے ٹھیکوں کی بھی انکوائری ہوگی اور اب میں کروں گا انکوائری اور بتائوں گا کہ کس طرح سے یہ ٹھیکے لیے گئے اور کیا کیا ہوا اب میں پیچھے نہیں ہٹوں گا ۔ ہاں سندھ میں کرپشن ہے کیا پاکستان میں کرپشن نہیں ہے ۔ یہ تو قائد اعظم محمد علی جناح نے 11 اگست 1947ء کو کہا تھا کہ اس ملک کا دوسرا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے جبکہ پہلا مسئلہ امن وامان ہے ۔ اس وقت تو پیپلز پارٹی بھی نہیں تھی ۔ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ اس کا حل بھی ہم نکالیں گے اور اس کو ہم دوسروں پر نہیں چھوڑیں گے اگر ہم نے جو بھی اچھی اور بری باتیں کی ہیں اس کے جج عوام ہیں ۔
سندھ اسمبلی میں وزیر اعلیٰ کے اس جذباتی خطاب کی باز گشت ابھی فضائوں میں بر قرار تھی کہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب احمد علی شیخ نے فوراً ہی سخت نوٹس لیا اور چیف سیکریٹری سندھ کو حکم دیا کہ کرپشن میں ملوث سارے افسران کو عہدوں سے فارغ کردیا جائے ۔ سندھ حکومت عدالتوں سے کھیلنا بند کردے ۔ نیب کو کارروائی سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ سندھ ہائی کورٹ اور وزیر اعلیٰ کے درمیان آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ کے حوالے سے بھی سرد جنگ جاری ہے ۔ عدالت اس ایماندار افسر کی پشت پر کھڑی ہے اور سندھ حکومت اسے ہٹانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے ۔ ایک دور کی کوڑی یہ لائی گئی ہے کہ سندھ حکومت کے پاس گریڈ 22 کا پولیس افسر سردار عبدالمجید دستی موجود ہے لہٰذا گریڈ 21 کے افسر اے ڈی خواجہ کی انہیں ضرورت نہیں ہے ۔ اب صوبائی حکومت اس مسئلہ پر اور سندھ ہائی کورٹ کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔ وزیر اعلیٰ کرپشن میں گرفتار شرجیل میمن کے کیس میں کہتے ہیں کہ وہ عدلیہ کا بہت احترام کرتے ہیں لیکن اے ڈی خواجہ کے سلسلے میں عدالتی حکم ماننے کو تیار نہیں ہیں یہ کھلا تضاد کیوں ہے ؟ کیا اس سوال کا جواب ان کے پاس موجود ہے کہ اربوں روپے کی کرپشن میں گرفتار شرجیل میمن کا سندھ اسمبلی میں ہیرو کی حیثیت سے استقبال کیوں کیا گیا ۔ ہم اس عمل سے دیگر سرکاری افسروں اور عوام کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں ؟ فنکشنل مسلم لیگ کی رکن سندھ اسمبلی نصرت سحر عباسی نے شرجیل میمن کا شاندار استقبال دیکھ کر طنزیہ کہا ’’بہاروں پھول برسائو ‘ میرا چور آیا ہے ‘‘ ۔ انہوں نے یہ دعا بھی کرائی کہ صوبے سے کرپشن کا خاتمہ ہو جائے اور کرپٹ لوگوں کا استقبال نہ ہو ۔ ایوان میں غلط مثال قائم نہ کی جائے ۔
سندھ اسمبلی کے ایوان نے ایک اور غلط مثال یہ قائم کی شرجیل میمن کی گرفتاری پر نیب کے خلاف کثرت رائے سے ایک قرار داد منظور کی گئی ۔ رکن اسمبلی خورشید جونیجو کی پیش کردہ اس قرار داد کا متن یہ تھا کہ ہمارے ارکان اسمبلی اور وزراء کو بلا وجہ تنگ کیا جارہا ہے ۔ نیب کو کارروائیوں سے روکا جائے ۔ متحدہ قومی موومنٹ، فنکشنل اور تحریک انصاف نے اس قرار داد کی مخالفت کی پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی خرم شیرزمان نے کہا کہ شرجیل میمن قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہہ دیں کہ انہوں نے کرپشن نہیں کی ہے ۔ شرجیل میمن ہمارے نظام حکمرانی کا ایک کردار ہے ۔ آٹے کی چکی میں پتھر پیس کر سیمنٹ نہیں بن سکتی مشینری کی تبدیلی کے بغیر اصلاحات کا تصور پتھریلی زمین پر فصل اگانے کے مترادف ہے ۔ 1979ء کے ایران کی طرح پورے نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر جراحی کی جائے یا پھر اسی نظام میں کاسمیٹیک تبدیلی لائی جائے ۔ پاکستان میں بدعنوان حکمران طبقہ اور اشرافیہ عموماً قومی دولت لوٹ کر بیرون ملک منتقل کردیتے ہیں ۔ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت اس فن میں خاص مہارت کی حامل ہے ۔ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ لندن فلیٹس سمیت اربوں روپے کی بیرون ملک جائیدادوں کے مالک اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دونوں بیٹوں حسن اور حسین نواز کے نام پر ان کے اپنے شہر لاہور میں کوئی جائیداد نہیں ہے ۔ یہ سنی سنائی نہیں بلکہ لاہور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے ) کی رپورٹ ہے ۔ بیرون ملک وسیع و عریض جائیدادوں اور بینک بیلنس کا حساب کتاب رکھنے کے لیے وفاقی وزیر خزانہ کے دو بیٹے دبئی اور میاں نواز شریف کی 1997ء والی حکومت کے فرنٹ مین اور سابق سربراہ احتساب بیورو سیف الرحمان کو پاکستان واپسی کی فرصت نہیں ہے ۔ کم و بیش ایسی ہی صورتحال پیپلز پارٹی کے روح رواں آصف علی زرداری اور ان کے خاندان کی ہے ۔ عمران خان کے بقول میاں نواز شریف کے 300 ارب اور آصف زرداری کے 200 ارب روپے بیرون ملک بینکوں میں جمع ہیں جنہیں وہ واپس لانے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ ادھر پاکستان اور اس کے عوام غربت و افلاس ‘ بیروزگاری اور مسائل کی دلدل میں دھنسے کراہ رہے ہیں ۔ کراچی اور حیدر آباد میں 6639 فیکٹریاں چل رہی ہیں جبکہ 3397فیکٹریاں بند ہیں اگرچہ حکمران اشرافیہ کی بیرون ملک رقم واپس آجائے تو یہ بند کارخانے چل سکتے ہیں عوام کو روزگار مل سکتا ہے۔ رواں فیکٹریوں میں 421518ملازمین مستقل اور 228201عارضی ملازمین کام کرتے ہیں ۔ اگر بند فیکٹریاں فعال ہو جائیں تو مزید لاکھوں عوام کو روزگار مل سکتا ہے ۔ اس کرپشن زدہ جمہوریت میں بھی بے روزگاری کا خاتمہ ہوسکتا ہے حکومت کوئی ایسا نظام قائم کرسکتی ہے جس میں کرپشن ‘ بدعنوانیوں اور رشوت سے کمایا ہوا پیسہ بیرون ملک جانے کی بجائے ملک میں ہی استعمال ہو ۔ بند کارخانے کھل جائیں ‘ نئے کارخانے لگیں ‘ انرجی سیکٹر میں سرمایہ کاری ہو ‘ تعلیم صحت اور زراعت کے شعبوں میں یہ پیسہ استعمال کیا جائے حکومت بھی اس سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرے تو اس کرپشن زدہ جمہوریت میں بھی ترقی و خوشحالی کے گلاب کھل سکتے ہیں ۔