... loading ...
علم وعمل سے ناطہ ٹوٹنے کی وجہ سے جس طرح ہمارے معاشرے سے قناعت روداری برداشت کا جنازہ اُٹھا ہے۔ اس نے معاشرے کو بے چین کر رکھا ہے۔ ہر آنے والا دن افراتفری تشدد و نفسانفسی کے محور میں دھکیل رہا ہے۔ جس طرح کے د ین کو ماننے والوں کا یہ ملک ہے ۔یہاں تو ہر سو دیانت امانت رواداری اخلاص کا دور دوراں ہونا چاہیے تھا، لیکن روحانی اقدار سے دوری نے سیمِ و زر کا غلام اس سو سائٹی کو بنا رکھ چھوڑا ہے ۔حلال روزی کمانے والا اللہ پاک کا دوست ہے لیکن موجودہ حالات میں صر ف ایک ہی مقصد دکھائی دیتا ہے کہ جتنی ہوسکے لوٹ مار کرلو بھلے اس سے قبر بھاری ہوتی جارہی ہو۔ جس طر ح کا رویہ معاشرے میں نفوذ پذیر ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی روایات دیانت داری و رشتوں کی پاسداری خلوص یہ سب کچھ عہدِ رفتہ کہ یادیں ہیںجس طرح کا رویہ معاشرے میں دیکھنے کو مل رہا ہے ایسا دیکھائی دیتا ہے کہ وحیشیوں اور جنگلی درندوں نے بھی استغفار کی ہوگی کہ ہم کو ان انسانوں کے شر سے بچایا جائے جو اس وقت کسی کو بھی بخش نہیں رہے ۔
دولت کا حصول معاشرے میں اتنا زہر پھیلاتا جارہا ہے کہ حلال حرام کی تمیز کرنے کا وقت ہی نہیں بچا معاشرے کے اس انداز میں زوال پذیر ہونے سے دینِ اسلام کی اساس پر عمل نہ کرنے سے مادر پدر آزاد معاشرہ وجود میں آتا جارہا ہے جہاں نہ رشتوں کا تقدس اور نہ ہی روایات کی پاسداری ۔ مادیت کے اس طرح جکڑنے سے جس طرح کی بے چینی اس وقت پاکستان میں پنپ رہی ہے اس کے نتائج و عواقب کا تصور خوفناک دیکھائی دیتا ہے۔ ہر وہ جرم جو کہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 164 165, 165-A 161,162,163,کے تحت قابل سزا ہو تو ایسا جرم cognizablتصور کیا جائے گا کرپشن کی روک تھام کے لیے ایکٹ 1947 کے سیکشن 4(۱) 161 سیکشن 4 کے مطابق اگر کسی سرکاری ملازم نے اپنے جائز مشا ہرے کے علاوہ کوئی رقم قبول کی ہے یا کسی اور کے لیے قبول کی ہے تو اِس امر کو جرم تصور کیا جائے گا۔
پی ایل ڈی 2008 کراچی 173 کے مطابق جرم کو ثابت کرنے کا بار ملزم پر کم اور پراسیکیوشن پر زیادہ ہے۔ پراسیکیوشن کو ثابت کرنا ہے کہ بغیر کسی شک و شبے کے الزام درست ہے۔ اور ملزم نے اپنے ڈ یفینس میں بھر پور سچائی ثابت کرنا ہے۔ ملزم کے لیے ہر کیس میں شواہد ضروری نہیں ہیں ۔ سیکشن 5 کے تحت کریمنل مس کنڈکٹ کے زمرے میں ایک سرکاری ملازم کا وہ ایکٹ آتا ہے۔ (a) کہ اْس سرکاری ملازم نے اپنی تنخواہ کے علاوہ کوئی اور رقم قبول کی ہو یا لینے کی کوشش کی ہو۔ (b) سیکشن 5 کے مطابق اگر کسی شخص سے کوئی قیمتی شئے وصول کی ہو یا حصول کرنے کی کوشش کی ہو جو اِس بات ہو کہ جس نے وہ سرکاری معاملات میں کچھ فوائد لینا چاہتا ہے۔ (c)- سیکشن 5 کے مطابق اگر کوئی سر کاری جائیداد یا شئے کو غلط طریقے سے یا فراڈ کے ذریعے اْس چیز کو اپنے پاس رکھنے کے ضمن میں بددیانتی ہو۔ (d)-اگر کوئی سرکاری ملازم کرپشن کے ذریعے یا غیر قانونی طریقے سے یا اپنی سرکاری حیثیت کا ناجائز فائدہ اْٹھاتا ہے ۔ (e) سیکشن 5 کے تحت اگر کوئی سرکاری ملازم یا اْس کے زیر کفالت افراد میں سے کوئی بھی وہ کسی سرکاری جائیداد کو ذاتی استعما ل کے لیے غیر قانونی طور پر استعمال کرے۔ pcr L.J 250 2001کے مطابق سیکشن 5 اینٹی کرپشن ایکٹ کے تحت جرم ppc کے سیکشن 961 کے تحت جرم علیحدہ اور مختلف تصور ہو گا۔ اور اگر دونوں جرم ایک ہی دفعہ ہوئے ہوں تو دونوں کا ٹرائل اکٹھا ہو سکتا ہے اور ایسا سیکشن 233سے239 کے تحت ہو گا۔ 1996 Pcr. LJ. 303 کے مطابق صرف رقم کی ریکوری ہی نہیں جب تک یہ ظاہر نہ ہو کہ متزکرہ رقم غیر قانونی کام کے لیے حصول کی ہے۔ NLR 1988 Cr (Lah)63 کے مطابق صرف رقم کی ریکوری ہونا جرم ثابت کرنے کے لیے کا فی نہیں بلکہ پراسیکیوشن کو بھی ثابت کرنا ہے کہ ملزم نے غیر قانونی طور پر رقم کی ڈیمانڈ کی تھی اور اِس بات کے شواہد ہونے چاہئے کہ شکائیت کنندہ اور ملزم کی اِس حوالے سے گفتگو ہوئی تھی۔ 2004 YLR 983 کے مطابق زمیں پہ پڑی ہوئی رقم ملی ۔ کسی نے بھی ملزم کو رقم زمیں پر گرا تا ہوئے نہیں دیکھا اور نہ ہی شکائیت کنندہ سے رقم ملزم کے پاس گئی ۔ آئی او اور مجسٹریٹ نے کوئی گفتگو نہیں سنی۔ ملزم کو رہا کردیا گیا۔ PLD 1996 Lah. 454 کے تحت رول 8, 6, 3 پنجاب اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ رولز کے تحت 1985 کے تحت اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ ہی صرف کریمنل کیس رجسٹرڈ کر سکتی ہے مقامی پولیس کو اختیار نہیں ہے کہ کیس کو رجسٹر کرے اور اِس طرح کے کیسوں کی تفتیش کرے۔
جب بھی اپنے معاشرے کی موجودہ اقدار کے متعلق دھیان جاتا ہے تو ہر طرف قحط الرجال کی کیفیت نظر آتی ہے۔ ہماری پاک سر زمین پر تقسیم در تقسیم کا عمل اِس تیزی سے جاری ہے کہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ خدانخواستہ پوری قوم نے خود ہر معاملے میں ایک دوسرے سے سے الگ تھلگ کر رکھا ہے معاشرہ تو مِل جُل کر رہنے کا نام ہے لیکن ہمارے ہاں کچھ ا یسی ہوا چلی ہے کہ اٹھارہ کروڑ عوام نے اپنی اپنی علحیدہ علحیدہ سمت بنا رکھی ہے اور اِس سمت کی بھی کوئی سمت نظر نہیں آتی، مذہب، فرقہ، ذات برادری، پیشہ، علاقہ،زبان، کے کانون میں اُس قوم نے خود کو تقسیم کر رکھا ہے جو کہ اِس مشن کی وارث ہے کہ پوری دناے کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ پوری دُنا تو دور کی بات ہے یہاں تو حالت یہ ہے کہ ایک 796096 مربع کلو میٹر ملک پاکستان میں بھی یہ صورتحال نہیں ہے۔ یہ بات درست ہے کہ دنیا بھر کی طاغوتی طاقتیں مسلمانوں کے خلاف نبرد آزماء ہیں اور امریکا پوری دنیا کا ٹھیکے دار بن کر افغانستان، عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا رہا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی اور ڈرون حملوں نے پاکستانی قوم کو ادھیڑ کر رکھ دیا ہے۔ لیکن اِس ساری صورتحال میں ہم بحثیت ایک قوم کیا کر رہے ہیں۔ سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اتحاد کی غرورت ہے ایسی لیڈر شپ کی غرورت ہے جو کہ قوم کو اِس دلدل سے نکال سکے۔ امریکہ کہ ہمارے معاملات میں حد سے زیادہ نفوس پذیری نے ہماری معیشت اور سماجیات کو روند ڈالاہے۔کرپشن کے ناسور کو ختم کرنے کے لیے ضرورت اِس امر کی ہے کہ جھوٹی شان و شوکت کے کلچر کو ختم کرنے کے لیے ایک بھرپور مہم چلائی جائے اور سادگی پر زور دیا جائے۔ قوم کو احساس دلایا جائے کہ ملٹی نیشنلز کمپنیوں نے اپنی پروکٹ کو فروکت کرنے کے لیے ہمارے معاشرے کو تہس نہس کردیا ہے۔ میڈیا کی یلغار نے امن سکون قناعت نام کی کوئی چیز معاشرے میں نہیں چھوڑی۔ پراسیکیوشن اگر درست سمت ہو تو پھر کریپشن کے خاتمے کی کوئی صورت بن سکتی ہے لیکن اینٹی کرپشن والوں کی کرپشن کیسے تھمے گی۔ ہر شاخ پہ اُلو بیٹھا ہے انجامِ گلستان کیا ہوگا۔