... loading ...
مولانامحمدراشد
رسول اکرم ﷺکا ارشاد پاک ہے کہ میں نے جہنم کو دیکھا اس میں رہنے والی اکثر عورتیں تھیں تو خواتین میں سے بعض نے عرض کی ۔یارسول اﷲکس وجہ سے؟ آپ ﷺنے فرمایا۔ کثرت سے لعنت کرتی ہیں اورخاوندکی نافرمانی کرتی ہیں۔ یعنی جو انہیں زندگی گزارنے میں مدد دیتا ہے اس کے شکریے کے بجائے کفران کرتی ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضورﷺکی خدمت میں ایک جوان عورت نے آکر عرض کی: یارسول اﷲﷺمیں جوان ہوں مجھے نکاح کے پیغام آتے ہیں۔ میں شادی کو مکروہ سمجھتی ہوں۔ آپ مجھے بتائیں کہ بیوی پر خاوند کا کیا حق ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا اگر تو خاوند کی چوٹی سے ایڑی تک پیپ ہو اور تو اس پیپ کو چاٹ لے، تب بھی خاوند کا حق ادا نہیں کرپائے گی۔ اس نے پوچھا تو میں شادی نہ کروں؟ آپ ﷺنے فرمایا کہ تم شادی کرو کیونکہ اس میں بھلائی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ بنو خثعم کی ایک عورت حضورﷺکی خدمت میں آئی اور کہا میںغیر شادی شدہ ہوں اور شادی کرنا چاہتی ہوں، خاوند کے کیاحقوق ہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا: بیوی پر خاوند کا یہ حق ہے کہ جب وہ اس کا ارادہ کرے اگرچہ عورت اس وقت اونٹ کی پیٹھ پر ہی کیوں نہ ہو۔ تب بھی اسے نہ روکے اور خاوند کا یہ بھی حق ہے کہ بیوی شوہر کے گھر سے اس کی اجازت کے بغیر کوئی چیز نہ دے اگر اس نے بلا اجازت دے دیا تو گنہ گار ہوگی اور خاوند کو ثواب ملے گا بیوی پر یہ بھی لازم ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر نفلی روزے نہ رکھے۔ اگر اس نے ایسا کیا تو وہ بھوکی پیاسی رہی اور اس کا روزہ بھی قبول نہ ہوا اور اگر گھر سے خاوند کی اجازت کے بغیر باہر نکلی تو جب تک وہ واپس نہ آجائے یا توبہ نہ کرلے۔ فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔ حضورﷺخاوند کے حقوق کے متعلق فرماتے ہیں کہ اگر میں اﷲکی ذات کے علاوہ کسی اور کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے کیونکہ شوہر کے بیوی پر بہت حقوق ہیں۔ فرمان نبوی ﷺہے کہ عورت اس وقت رب تعالیٰ سے زیادہ قریب ہوتی ہے جب وہ گھر کے اندر ہو اور عورت کا گھر کے صحن میں نماز پڑھنا مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے۔
بہر حال عورت پر مرد کے بہت سارے حقوق ہیںاسی بنا پر شوہر کو عورت کا مجازی خدا قرار دیا گیا ہے ۔ حدیث میں ارشاد فر ماگیا ہے اگر اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے میں سجدہ کا حکم دیتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے بوجہ اس حق کے جو اللہ نے ان مردوں کا عورتوں پر لکھا ہے ( ابو داود ) اندازہ کیجئے کہ رسول اللہ ﷺنے مرد کا کتنا اونچا مقام ومرتبہ بتایا ہے کہ اللہ کے سوا کسی اور کو سجدہ کی اجازت ہوتی تو عورت کو حکم ہوتا کہ وہ مرد کو سجدہ کرے لہٰذا عورت کو چاہئے کہ وہ مرد کی عظمت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے ساتھ زندگی گزارے ۔
آج کی عورتوں نے یورپ وامریکاکی تقلید میں شوہر کی عظمت وحرمت کا پاس وخیال ہی چھوڑ دیا ہے اور مساوات مساوات کا کھو کھلا نعرہ لگا کر اسلام کی اس تعلیم کے خلاف چلنا شروع کر دیا ہے ۔ مگر یاد رکھو کہ اسلام سے زیادہ مساوات کا سبق دینے والا کوئی نہیں ہو سکتا ۔ مگر مساوات کا یہ مطلب لینا با لکل عقل وفطرت کے خلاف ہے کہ کسی کی عظمت وحرمت کا پاس ولحاظ نہ رکھا جائے ۔ کیا کوئی شخص تمام انسانوں کے بحیثیت انسان مساوی اور برابر ہونے کا یہ مطلب نکال سکتا ہے کہ کوئی بڑا اور چھوٹا نہیں باپ اور بیٹے کا ہر اعتبار سے ایک ہی مرتبہ ہے ، استاد و شاگرد میں کوئی تفاضل نہیںاور حاکم ورعایا سب ایک ہی مرتبہ کے ہیں ؟ ظاہر ہے کہ مساوات کا یہ معنی ہر گز قابل قبول نہ ہوگا ۔اسی طرح مرد اور عورت کی مساوات کا یہ مطلب نہیں ہے اور نہ ہو سکتا ہے کہ دونوں میں کسی بھی اعتبار سے کوئی فرق نہیں اور شوہر کوکسی بھی اعتبار سے تفوق نہیں ۔ غرض یہ کہ اسلام میں شوہر کو ایک عظمت وبلندی ومرتبہ حاصل ہے اور عورت پر لازم ہے کہ اس کا لحاظ رکھے۔
حضرت عائشہ ؓ فر ماتی ہیں کہ اے عورتو ! اگر تم کو معلوم ہو جائے کہ تمہارے مردوں کا تم پر کیا حق ہے تو تم اپنے شوہروں کے قدموں کی غبار ودھول کو اپنے گالوں سے صاف کر وگی ( الکبائر للذھبی ) ایک حدیث میں جس کو حاکم نے صحیح قرار دیا ہے اور احمد نسائی نے روایت کیا ہے اس میں آیا ہے کہ رسول اللہ ﷺسے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے پو چھا کہ عورت پر سب سے بڑا حق کس کا ہے ؟ آپ ﷺنے فرمایا کہ اس کے شوہر کا (فتح الباری ) بیوی پر شوہر کے اس قدر حقوق عائد ہوتے ہیں کہ ان کی ادائیگی کے بغیر اس کی عبادت وبندگی بھی ناقص رہے گی ــــ” رسول اللہ ﷺنے فر مایا کہ عورت جب تک اپنے شوہر کا حق ادا نہ کرے وہ اپنے رب کا حق بھی ادا نہیں کر نہیں کر سکتی ( ابن ماجہ کتاب النکاح )حضرت جابر ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے فر مایا کہ تین شخص ہیں جن کی نماز قبول ہوتی ہے نہ ان کی کوئی نیکی ( آسمان کی طرف) چڑھتی ہے ۔ایک وہ غلام جو بھاگ گیا ہو جب تک وہ اپنے آقا کی طرف لوٹ کر نہ آجائے اور اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں نہ دیدے ( اطاعت کرے ) دوسرے وہ عورت جس پر اس کا خاوند ناراض ہو ۔ تیسرے وہ شرابی جب تک کہ نشہ اس کا نہ اترے ( بیہقی ۔ مشکوۃ )اس روایت سے معلوم ہوا کہ شوہر کی نا راضی سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں اور اس عورت کی نماز اور نیکی کو رد فرمادیتے ہیں جو شوہر کو ناراض کر کے کرتی ہے ۔
مگر یاد رکھنا چاہئے کہ اس سے مراد وہ ناراضی ہے جو شرع کے موافق ہو اگر شوہر اس لیے ناراض ہوتا ہے کہ عورت اللہ کے حکموں پر چلتی ہے تو اس کی یہ ناراضی حدود شرع سے متجاوز ہو نے کی وجہ سے اس کا اعتبار نہ ہوگا ۔ ہاں نوافل ، مستحبات کے ادا کرنے میں عورت کو چاہئے کہ شوہر کی رضا کا لحاظ رکھے ۔ مثلاً نفل نماز پڑھنے یا نفل روزے رکھنے سے شوہر کے حقوق میں کوتاہی لازم آتی ہو تو عورت کو نفل نماز ونفل روزے کی اجازت نہ ہوگی مگر یہ کہ شوہر اجازت دیدے تو پھر درست ہوگا چنا نچہ حدیث میں ہے ۔
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فر مایاکہ عورت کے لیے حلال وجائز نہیں کہ وہ روزہ رکھے جبکہ اس کا شوہر موجود ہو مگر اس کی اجازت سے (رکھ سکتی ہے ) ( بخاری )
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ عورت رمضان کے سوا کوئی اور روزہ نہ رکھے جبکہ اس کا خاوند مو جود ہو مگر یہ کہ اس کی اجازت ہو ( تو پھر جائز ہے ) ( ابوداود)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین