وجود

... loading ...

وجود

مہنگائی کا شد ید د ھماکا

منگل 24 اکتوبر 2017 مہنگائی کا شد ید د ھماکا

731 در آمدی اشیاء پر80%تک ریگولیٹری ڈیوٹی کے اعلان کی ہر فرد شدید مذمت کر رہا ہے ،غریب دشمن حکومت کا منی بجٹ سال میں کئی بار آتا ہے، یہ بجٹ اب کی بار تو سرکاری ملازمین کسانوں مزدوروں اور عام غرباء پسے ہوئے طبقات پر بم دھماکہ سے کم نہیں ہے ،غریب عوام تو پہلے ہی روزمرہ کی اشیائے ضروریہ کی مہنگائی کے قبرستان میں زندہ دفن ہونے پر مجبور تھے اور بیوی بچوں سمیت خود کشیاں اور خود سوزیاں کی جارہی تھیں کہ اب یہ قیامت آن پڑی ہے ،نااہل شریفوں اور ناکام اور کرپٹ وزیر خزانہ کی سزا غریب عوام کو دینا قرین انصاف نہیں ہے 25ارب کے نئے ٹیکس لگا نا انتہائی ظلم اور عوام پر مہنگائی کا ڈرون حملہ کرنے کی طرح ہے۔
ریگولیٹری ڈیوٹی کے ذریعے لوگوں کے کندھوں پر مزید بہت بڑا بوجھ ڈالنا حکومتی معاشی ناکامیوں کا تسلسل ہے اگر اس کو واپس نہیں لیا جاتا تو افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی آڑ میں اسمگلنگ بھی مزید بڑھے گی اور لا محالہ اس کا سارا بوجھ بھی بے سہاراغریب پاکستانیوں پر ہی پڑے گا۔کہ یہاں تو اسی ریٹ پر چیزیں بکیں گی ،مگر سرمایہ دار ،اور نودولتیے سودخور تو خوب کمائیاں کریں گے۔ اس طرح ہماری قرضوں میں جکڑی معیشت کا مزید بھٹہ بیٹھ جائے گا اور ایسا عمل سراسر ملک دشمنی کے مترادف ہے اب جبکہ انتخابات میں چھ ہی ماہ باقی ہیں تو ایسے ٹیکسوں کا فائدہ حکومتی جماعت ،اس کے ہم جولیوں ،اور ہم نوالہ ،ہم پیالہ سرمایہ داروں کو تو مالی طور پر بہت ہوگا مگر سیاسی طور پر حکمرانوں کے سیاسی تابوت میں آخری کیل ٹھوکنے کی طرز پر ہو گاگو کہ اشیائے تعیش کی در آمد کو روکنا اور ان پر پابندی لگانا ضروری ہے مگر اس کی آڑ میں ضروری خام مال تو متاثر نہیں ہو نا چاہیے کیونکہ ہمارا صنعتی شعبہ ہی ان سے صنعتی اشیاء کا مال تیار کرکے بیرون ملک بھجواتا ہے خام مال پر پابندی یا اس پر ڈھیروں ریگولیٹری ڈیوٹی سے لامحالہ صنعتی پیداوار کی کمی ہو گی اور ہماری مصنوعات کی قیمتیں بڑھیں گی اور برآمد میں بھی شدید کمی ہو گی بیرون ممالک ہمارا مہنگا مال بک ہی نہیں سکے گا،ا س لیے صنعتی خام مال پرریگولیٹری ڈیوٹی عاید کرنا سخت کم فہمی اور بے عقلی ہے۔
غیر ضروری عیاشیانہ اشیاء کی در آمد پر تومکمل پابندی عاید کرڈالی جاتی تو بہتر ہوتا مگر 731 درآمدی اشیاء پر ڈیوٹی بڑھانا کسی صورت بھی ایسے مسائل کا حل نہ ہے چاہیے تو یہ تھا کہ جس ملک سے بھی تجارتی کاروبار کریں اس سے معاہدہ بھی کیا جائے کہ در آمدات کے برابر ہماری برآمدات بھی وہ خریدیں تاکہ ہمارا ٹرید بیلنس بہتر اور متوازن ہوتا رہے درآمدات میں تو اضافہ کا رجحان ہے مگر بر آمدات میں مسلسل کمی ہوتی جارہی ہے اس طرح ہمارے زرِ مبادلہ پر انتہائی برا اثر پڑ رہا ہے۔
اسٹیٹ بنک کے مطابق 2سال میں روپے کی گردش میں اوسطاً 25فیصد اضافہ ریکارڈ ہو اہے جب کہ قبل ازیں11سال میں روپے کی گردش 14فیصد تھی ٹیکسوں کے نفاذ سے بنکوںمیں لین دین میںبہر حال کمی ہورہی ہے اور لو گ کھاتوں میں رقوم رکھنا ہی نہیں چاہتے بنکوں میں ڈیپازٹ کی کمی کی وجہ سے اسٹیٹ بنک کو بھی بینکنگ سیکٹر کو رقوم فراہم کرکے سہارا دینا پڑتا ہے۔اسٹیٹ بنک کی سفارش پر ود ہولڈنگ ٹیکس کا مکمل خاتمہ کیا جانا چاہیے وگرنہ بینکنگ سسٹم بھی دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ جائے گا۔ویسے تو دنیا کے پلید ترین اور غیر اسلامی سودی سسٹم کا ہی مکمل خاتمہ ہماری معیشت کو سنبھالنے کا بہترین ذریعہ ہے مگر چونکہ مرکز اور صوبوں میں حکمرانی بنچوں پر ظالم جاگیردار کرپٹ وڈیرے ڈھیروں منافع کمانے والے صنعتکار اور نودولتیے سود خور افراد ہی نوے فیصد سے زائد براجمان ہیں اس لیے سابقہ شریفوں کی حکمرانی کے دور میں لیا گیاسپریم کورٹ سے سودی نظام کو برقرار رکھنے کا اسٹے آرڈرواپس لیے جانے کا امکان نظر نہیں آتا۔
اب چونکہ نئے انتخابات سے قبل سرمایہ کی چھینا جھپٹی کا غلیظ عمل شروع ہو چکا ہے سبھی قسم کے ممبران اسمبلی آئندہ منتخب ہونے کے لیے ڈھیروں سرمایہ اور مال و دولت جمع کرنے پر تلے ہوئے ہیںتاکہ آئندہ پھر ووٹوں کی خریداری کرکے منتخب ہوسکیں اس لیے بجٹ کے چار ماہ بعدہی منی بجٹ کے ذریعے کھانے پینے سمیت سینکڑوںاشیاء پر ٹیکس عاید کرنے سے مہنگائی کا جو طوفان آئے گا وہ غربت میں بستے ہوئے نچلے طبقات کو سانس لینا تو درکنار موت کے قریب کر ڈالے گا موجودہ حکمرانوں کی 2013 کی انتخابی مہم میں لگائے گئے نعرے اور وعدے کہ اگر ہم اقتدار میں آگئے تو قیمتیں 1999کی سطح پر لے آئیں گے ۔کیا ان سابق نعروںپر رتی برابر بھی عمل ہوا ؟ہرگز نہیں ۔
مگر اب سرکاری اعلانات کے مطابق پولٹری مصنوعات دودھ‘ مکھن‘ کریم ‘مچھلی‘ گندم مکئی دہی پنیر شہد سبزیاں پھل خشک میوہ جات منرل واٹر آئس کریم پالتو جانوروں کی خوراک ان سب پر ٹیکس لگا کر ان کی قیمتیں بڑھانا ظلم ہی نہیں بیہودہ حرکت بھی ہے بجلی کی گھریلو مصنوعات اور اسٹیل کی قیمتوں کو بڑھانا بھی احمقانہ حرکت ہے حکمران طبقات کے ہی تمام چینی کے کارخانے ہیں برآمدات پر وہ سبسڈی کے ذریعے اربوں کماتے ہیں پھر بھی عوام کی پہنچ سے چینی دور ہے اور دیہاتی لوگ بدستور گڑ شکر استعمال کرتے ہیں نئی گاڑیوں پر تو ٹیکس بڑھا دیا مگر پرانی گاڑیاں تو سستی ہونی چاہیے تھیں ایسا بھی نہ ہوسکا۔گندم پڑی خراب ہورہی ہے گوداموں اور کھلے آسمان تلے بنائے گئے گندم سینٹرز پر تو گندم کی حالت انتہائی خراب ہے اس کی سابقہ کھپت دو کروڑ تیس لاکھ ٹن تھی مگر پیداوراڑھائی کروڑ ٹن سے زائد رہی اس کو بھی بروقت برآمد نہ کرنا حکمرانوں کی کوتاہی ہے قرضوں میں ڈوبتی معیشت تباہ و بربادہورہی ہے صدر مملکت تک چیخ اٹھے ہیں ۔اتنے کھربوں روپوں کا قرضہ کسی ہسپتال تعلیم صاف پانی کی فراہمی اور غربت بیروزگاری کے خاتمے کے لیے نہ لگ سکاچار سال سے اللے تللے کاموں میںہی رقوم لگا کر ملک سخت قرضوں میں جکڑا جا چکا ہے۔قسطوں کی واپسی ایک بڑا مشکل مرحلہ ہوگی۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر