... loading ...
وارانسی، کاشی یا بنارس شہر کا ہندو مذہب میں بڑا مقام ہے جہاں زندگی روزانہ موت سے گلے ملتی نظر آتی ہے۔ہندو مذہب میں بنارس کی خاص اہمیت ہے اور ادب میں صبح بنارس کا ذکر کثرت سے ملتا ہے۔یہ شہر صدیوں سے دریائے گنگا کے کنارے آباد ہے اور یہاں دور دراز سے سیاحوں کی آمد کی سلسلہ صدیوں سے جاری ہے۔ہندو مذہب میں اس شہر اور اس دریا کا اہم مقام ہے۔ کہتے ہیں کہ یہاں غسل کرنے سے پاپ یعنی گناہ دھل جاتے ہیں ۔ اس لیے یہاں ا شنان کرنے والوں کا تانتا لگا رہتا ہے۔یہاں مندروں کی کثرت ہے اور لوگ اپنی عقیدت کے مطابق مختلف مندروں کا درشن کرتے ہیں ۔ یہاں آسماں سے مندروں کے کلس ملتے نظر آتے ہیں ۔ باہر سے آنے والے افراد سیاح بھی ہوتے ہیں اور عقیدت مند بھی۔بنارس میں دریائے گنگا کے گھاٹ پر چتاؤں کی آگ کبھی ٹھنڈی نہیں پڑتی، یہاں ہر روز سینکڑوں لاشوں کو نذر آتش کیا جاتا ہے۔ہندو مانتے ہیں کہ اگر وارانسی یعنی بنارس میں موت ہو تو پھر دوبارہ جنم نہیں لینا پڑتا اسی لیے بہت سے بوڑھے اپنے آخری ایام کاشی میں گزارنے کی تمنا رکھتے ہیں ۔ بنارس کی رنگین صبح کے بعد رات آرتی کے ساتھ ختم ہوتی ہے جہاں لوگ روزانہ بڑی تعداد میں جمع ہوتے ہیں ۔بنارس کا شمار انڈیا کے قدیم ترین شہروں میں کیا جاتا ہے۔بنارس ہندو تہذیب و ثقافت اور مذہب کا اہم مرکز ہے۔ اترپردیش کے مشرقی سرے پر واقع یہ شہر اپنے گھاٹوں اور مندروں کے حوالے سے بھی مشہور ہے۔ یہاں گنگا کے کنارے رہنے والے لوگ گزر بسر کے لیے دریا پر ہی انحصار کرتے ہیں ۔ کوئی کشتی چلاتا ہے، کوئی مچھلی پکڑتا ہے اور کوئی پانی میں سے سیدھا کیش ہی نکالتا ہے ! ہندو دریائے گنگا کو مقدس سمجھتے ہیں اور ٹرینوں میں سوار عقیدت مند دریا میں بطور نذرانہ پیسے پھینکتے ہیں اور بھرت اور پردیپ جیسے نہ جانے کتنے نوجوان اپنی جان خطرے میں ڈال کر یہ سکے گہرے پانی سے باہر نکالنے میں جٹ جاتے ہیں ۔
بنارس میں دریائے گنگا کے پرانے پل سے جب بھی کوئی ٹرین گزرتی ہے تو بھرت اور پردیپ کی آنکھوں میں چمک پیدا ہو جاتی ہے۔ان نوجوانوں کو جانا تو کہیں نہیں ، لیکن پھر بھی پورے دن انھیں ٹرینوں کا انتظار رہتا ہے۔ان سکوں سے ہی ان کے گھروں میں چولھا جلتا ہے۔روزانہ چار سو سے پانچ سو روپے نکال لینا ان نوجوانوں کے لیے کوئی بڑی بات نہیں لیکن یہ جان جوکھوں میں ڈالنے والا کام ہے، خود بھرت کے دادا اور چاچا نے انھی پانیوں میں غوطہ لگاتے ہوئے دم توڑا تھا۔بھرت کہتے ہیں کہ ‘پانی میں سے سکے نکالنا بہت خطرے کا کام ہے، کبھی پتھروں سے چوٹ لگ جاتی ہے، کبھی پانی کے اندر ہی دم ٹوٹ جاتا ہے۔۔۔میرے دادا اور چاچا پانی میں کودے تھے لیکن زندہ واپس نہیں آئے۔۔۔انھوں نے ہی مجھے تیرنا سکھایا تھا۔’
دریائے گنگا کے پرانے پل سے جب بھی کوئی ٹرین گزرتی ہے تو بھرت اور پردیپ کی آنکھوں میں چمک پیدا ہو جاتی ہے۔لیکن عقیدت مند پانی میں صرف سکے ہی نہیں پھینکتے، دریا کی تہہ میں بہت سے راز بھی دفن ہیں ، بھرت اور ان کے بھائی کو پستولیں اور خنجر بھی ملے ہیں ۔پردیپ کہتے ہیں کہ ‘کبھی پستول بھی ملتی ہے اور چاقو بھی، سونا چاندی بھی مل جاتا ہے۔ پھر ہم سنار سے جاکر چیک کراتے ہیں کہ سونے کا پانی تو نہیں چڑھا ہے۔ لیکن ہتھیار ہمیں مقامی تھانے میں جمع کرانے پڑتے ہیں ۔ لوگ کسی کو مار کر شاید ہتھیار یہاں پھینک دیتے ہیں ۔ان دونوں نے اسکول جانا تو بچپن میں ہی چھوڑ دیا تھا لیکن بھرت کو ڈانس کا شوق ہے۔ وقت بدل رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی ان نوجوانوں کی دلچسپیاں بھی۔یہ لوگ دریا میں پھینکے جانے والے پیسے چن کر اپنا گزر بسر کرتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ ‘ڈانس سے میری زندگی بدل گئی ہے، اب میں گھر میں پیسے دیتا ہوں ۔ اچھے اچھے لوگوں سے ملنے کا موقع ملتا ہے، اسٹیج پر شو کرنے کے لیے میں اپنے سر کے بل جاتا ہوں ، ہر شام پریکٹس کرتا ہوں ۔لیکن کیا کبھی ان کے ذہن میں یہ خیال بھی آتا ہے کہ خطرے کا یہ کام چھوڑ کر ڈانس پر ہی توجہ دیں ؟ ان کا سادہ سا جواب ہے کہ ‘پیسے نہیں ہوں گے تو ڈانس کیسے سیکھیں گے؟’بنارس میں کہتے ہیں کہ گنگا کسی کو مایوس نہیں کرتی، چاہے دین کی تلاش ہو یا دنیا کی۔
بھارت کا مشرقی شہر بنارس جسے ہندو مذہب کی مناسبت سے بڑی اہمیت کا حامل ہے،بنارس شہر کاایک یہ رخ ہے اور بنارس کادوسرا رخ یہ ہے کہ اس شہر کی ساڑیاں پوری دنیا میں مشہور ہیں اور دنیا کاکوئی دوسرا شہر اس کی ہمسری کا آج تک دعویٰ نہیں کرسکاہے ۔بنارسی ساڑیاں پوری دنیا میں مشہور ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ مہنگی ہونے کے باوجود انہیں پسند کیا جاتا ہے۔لیکن بہت کم لوگ اس حقیقت سے آشنا ہونگے کے بنارسی ساڑیوں کو اتنی خوبیوں سے مزین کرنے والے بنکر یا جولاہے معاشی بد حالی کا شکار ہیں ۔جس طرح بنارس اپنی مذہبی اہمیت کے باوجود پسماندگی کا شکار ہے،اسی طرح اس شہر میں ساڑی کی صنعت بھی زبوں حالی سے دو چار ہے اور حالت یہ ہے کہ اس وقت تاجر، جولاہے اور دھاگہ بنانے والے سبھی مشکل دور سے گزر رہے ہیں ۔
ساڑی کی صنعت کو قریب سے دیکھنے والے شہر کے تجربہ کار صحافی اور تجزیہ کار سلمان راغب کہتے ہیں کہ پروان چڑھ رہی صنعتیں عالمی تجارتی تنظیم کے نظام سے مربوط ہیں ، ’بنارس کی ساڑی مشہور تو ہے لیکن جدید تقاضوں کے مطابق اسے تجارت سے نہیں جوڑا گیا اور اسے بہتر بنانے اور مراعات کے دینے کے صرف اعلانات ہوتے رہے ہیں عمل نہیں ہوا‘۔وہ کہتے ہیں ،’دلی، کولکتہ اور ممبئی جیسے شہروں میں جو بنارسی ساڑی پچیس ہزار روپے میں بکتی ہے اس کا بنانے والا سال بھر میں مشکل سے اتنے پیسے کما پاتا ہے۔ حکومتیں بھی توجہ نہیں دیتیں لیکن جب تک یہ خلیج کم نہیں ہوتی اس وقت تک صنعت اور بنکر طبقے کی بہتری مشکل ہے‘۔
لوگوں کی عام شکایت یہ ہے کہ جب انتخابات آتے ہیں تو سیاسی جماعتیں جولاہوں اور ساڑی کی صنعت کی بہتری کے لیے بڑے بڑے وعدے کرتی ہیں لیکن الیکشن کے بعد کوئی انہیں نہیں پوچھتا۔بنارس کی ساڑی مشہور تو ہے لیکن جدید تقاضوں کے مطابق اسے تجارت سے نہیں جوڑا گیا اور اسے بہتر بنانے اور مراعات کے دینے کے صرف اعلانات ہوتے رہے ہیں عمل نہیں ہوا۔
بنارس میں روزنامہ جاگرن کے مدیر راگھویندر چڈھا مانتے ہیں کہ ساڑی سے جڑا طبقہ معاشی طور پر بہت پریشان ہے۔’وعدے سبھی جماعتوں نے کیے لیکن اس پر عمل نہیں ہوا اور گزشتہ دس برسوں میں جہاں ان کی کی معاشی حالت خراب ہوئی ہے وہیں یہ صنعت بھی زوال پذیر ہے۔ جوتھوڑی بہت مدد حکومت نے دی اسی برادری کے دلال اسے ہڑپ گئے اور غریبوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا‘۔شہر میں مدن پورہ کا علاقہ ساڑیوں کی تجارت کا مرکز ہے جہاں اس صنعت کے تئیں حکومتی بے توجہی کے متعلق سبھی شاکی ہیں ۔
تاجر ریحان سہیل کا کہنا ہے کہ ’اس سیکٹر کو عشروں سے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے اور اس وقت یہ معاشی بحران سے گزر رہی ہے اور اگر حکومت مدد کرے تو اسے بحال کرنے میں مدد ملے گی‘۔لیکن سب سے زیادہ نقصان ان کروڑوں غریب جولاہوں کا ہوا ہے جو یومیہ مزدوری پر ان قیمتی ساڑیوں کا دھاگہ بناتے اور اسے بنتے ہیں ۔ بنارس کے ایک بنکر عبدالمجید کہتے ہیں ،’ہمارا کاروبار برباد ہورہا ہے لوگ عاجز آچکے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ نئی نسل کے لوگ کام کے لیے شہر سے باہر جا رہے ہیں ‘۔ایک نوجوان بنکر شمشاد انصاری کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ جیسیغریبوں کے لیے نہ تو سیاسی جماعت ہے اور نہ ہی کوئی رہنما۔ ’الیکشن ہے تو آج کل سب ہماری بات کرتے ہیں ، سب فرضی وعدے ہیں کوئی کچھ نہیں کرے گا‘۔ساڑیوں کے تاجر علی حسن کا کہنا ہے کہ ریشم کا دھاگہ روز بروز مہنگا ہوتا جارہا ہے اور ساڑی باہر تو مہنگی بکتی ہے لیکن ’اس کا فائدہ یہاں اس کے کام کرنے والوں کو نہیں پہنچتا‘۔