وجود

... loading ...

وجود

بھارت کے ریگستان میں نخلستان زین آباد

اتوار 22 اکتوبر 2017 بھارت کے ریگستان میں نخلستان زین آباد

سلمیٰ حسین
سندھ کے مشہور شہر تھرپارکر سے متصل بھارتی ریاست زین آباد 1919 میں قائم کیاگیا تھا۔کچھ مغربی بھارت کا ریگستانی علاقہ ہے جس کی سرحد پاکستان کے صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر سے ملتی ہے۔ زین آباد اسی ریگستان میں ایک چھوٹی سی ریاست رہی ہے۔زین آباد کی جھیل پورے بھارت بلکہ برصغیر میں مشہور رہی ہے اس نہر میں دیسی اور بدیسی دونوں قسم کے پرندے پائے جاتے ہیں ۔
1919 میں زین خان نے اپنے بزرگوار کے وطن ڈاس ڈا کو خیرباد کہا اور احمد نگر کے سلطان کی دی ہوئی جاگیر اور 12 ہزاری منصب کے ساتھ کالادا گاؤں میں بودوباش اختیار کی۔ اپنے نام کی مناسبت سے جگہ کا نام زین آباد رکھا اور ایک چھوٹی سی ریاست کی شکل دی۔سالہا پہلے زین خان کے والد جھالا قبائلیوں کے ہاتھ ہلاک ہوئے اور ان کی ماں جاڈے جی نے اپنے بیٹے زین کو بہادری کی تعلیم دی اور باپ کے قاتلوں کو جہنم رسید کرنے کا قول لیا۔یہی وہ آگ تھی جس نے زین خان کو ایک جنگجو او بہادر انسان بنایا۔ جھالا قبائلیوں سے بدلہ لینے کے بعد وہ احمد آباد پہنچے اور احمد شاہ کی فوج میں شامل ہوئے۔ خطرناک ڈاکو رتن راج کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد زین خان کی بہادری کے چرچے ہر خاص وعام کی زبان پر تھے۔پھر سلطان کے فوجی معرکوں میں بہادری کے مظاہرے کے عوض 12ہزاری کا منصب اور کالادا کی جاگیر حاصل کی۔
زین خان ایک روشن دماغ سردار تھا۔ زین آباد کا ریگستانی علاقہ پانی کی قلت کے سبب نہ آگے بڑھ سکتا تھا اور نہ ہی لوگوں کی پیاس بجھا سکتا تھا۔ اس نے آس پاس کی زمینوں میں پائپ لائن بچھا کر پانی لانے کا منصوبہ بنایا لیکن گردو نواح کے راجاؤں نے زین خان کا ساتھ نہیں دیا۔زین خان کا 1923 میں انتقال ہو گیا لیکن اس قلیل عرصے میں انھوں نے زین آباد کو ترقی دینے کی کوشش کی اور ان کی ان کوششوں کے نتیجے میں اس چھوٹی سی ریاست نے قرب وجوار کے علاقوں میں امتیازی حیثیت حاصل کرلی جس کی وجہ سے قریبی گاؤں کے پیشہ ور لوگ ریاست زین آباد میں آکر بسنے لگے۔ زین خان کی موت نے ان کی اہلیہ پر شدید اثرات مرتب کیے اور چند ہی مہینوں میں وہ بھی2 لڑکوں کو چھوڑ کر اس جہاں سے کوچ کر گئیں ۔ عزیز خان اور حمید خان کی پرورش کی ذمہ داری انگریز ایجنٹ پر آ پڑی اور اس نے دونوں لڑکوں کو تعلیم و تربیت کے لیے ا سکاٹ لینڈ روانہ کر دیا اور جاگیر کا انتظام اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔
عزیز خان کی واپسی تک انگریز نے جاگیر کا نظم و نسق ایماندری سے چلایا۔ عزیز خان کا وقت ریاستی کاموں اور شکار میں صرف ہوتا تھا۔ زین آباد کے پاس کے علاقوں میں بہترین شکار دستیاب تھا۔ لیکن عزیز خان بہت جلد اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ اس وقت ان کے بیٹے شبیر خان کی عمر صرف 3 سال تھی۔ عزیز خان کی بیگم زبیدہ نے بچے کی پرورش کے ساتھ جاگیر کے انتظامات کو بھی اپنے ہاتھ میں لے لیا جو بیشتر لوگوں کی ناراضی کا سبب بنا اور وہ شبیر خان کے جان کے درپے ہو گئے۔ ان کی رہائش زیادہ تر بمبئی میں رہی۔
زین آباد ایک بنجر علاقہ ہے جہاں کپاس اور زیرے کی کاشت کے علاوہ کسی اور کاشت کا امکان لاحاصل تھا۔ جوار اور باجرہ کچھ حد تک ضروریات کو پورا کرتا تھا۔ زین آباد میں جھینگے کثیر تعداد میں پائے جاتے تھے اس لیے زین آباد کا ریاستی دسترخوان ہمیشہ جھینگوں کے مختلف پکوانوں سے سجا رہتا تھا۔ جھینگے کی بریانی، مسالہ جھینگا، جھینگا کری وغیرہ۔
زیرہ کا بگھار تقریباً تمام طرح کے کھانے کا لازمی جزو تھا۔ زین آباد میں نمک بنانے کا کام وسیع پیمانے پر شروع ہوا اور شبیر خاں کی مدد سے ترقی کرتا گیا۔ مزدوروں کی آنکھوں کی حفاظت کے لیے کالے چشمے اور پیروں کی حفاظت کے لیے جوتے کا انتظام تھا۔ اس زمانے میں تھر ریگستان سے آٹھ ماہ میں 150 لا کھ ٹن نمک حاصل ہوتا تھا۔زین آباد کے کھانوں میں جھینگے کی کثرت ہوتی ہے
شبیر خان انسان دوست ہونے کے ساتھ جانوروں سے بھی محبت کرتے تھے۔ ریگستان کے اطراف میں جنگلی جانور کثیر تعداد میں پائے جاتے تھے اور شکاریوں کا شکار ہو جاتے تھے۔ شبیر خاں نے جانوروں کے لیے پناہ گاہ بنائی اور جنگلی گدھوں کی حفاظت کا بھی انتظام کیااورزین آباد میں گدھوں کو جنگلی گدھوں کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔
شبیر خان کے اکلوتے بیٹے دھن راج اپنے باپ سے اس معاملے میں دو قدم آگے نکلے۔ انھوں نے امریکہ کے چڑیا گھر سے چیتوں کی دیکھ بھال کی تربیت حاصل کی اور زین آباد لوٹ کر پناہ گاہ کو وسعت دی۔
زین آباد ملکی اور غیر ملکی چڑیوں کی بھی آماجگاہ ہے۔ ان کی چہچہاہٹ
سے زین آباد واقعی آباد ہے۔ زین آباد کا سفر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ وہاں روایتی کھانوں کا لطف اٹھایا جاسکتا ہے اور اب دھن راج نے سیاحت کے انتظامات پر بھی کافی توجہ دی ہے اور ریگستان میں خیموں کا میلہ لگا دیا ہے۔ اگرچہ زین آباد آج بھارت کاہی حصہ ہے اور بھارت کے پسماندہ ترین علاقے میں واقع ہے لیکن ریگستان میں واقع یہ ریاست آج بھی نخلستان کے نام سے جانی جاتی ہے اوردور دور سے لوگ پرندوں کے شکارکے لیے اس ریاست کارخ کرتے ہیں اور حسب منشا اور استطاعت شکار لے کر واپس جاتے ہیں ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر