... loading ...
سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق چیف جسٹس جناب جواد ایس خواجہ اور جسٹس اُمیر ہانی مسلم نے 2012 SCMR 656 لینڈ مارک فیصلہ دیا۔ اِس فیصلے کو جناب جسٹس جواد ایس خواجہ نے لکھا۔ یہ فیصلہ عدم پیروی کیس خارج کیے جانے کی بابت ہے۔ سپریم کورٹ میں درخواست گزار ثریا پروین نے ہائی کورٹ کے 18-10-2010 کے فیصلے کے خلاف اپیل کی۔ درخواست دہندہ کا ایک دعوی جو کہ سول جج صادق آباد نے 7-01-2004 کو خارج کیا تھا۔ پھر ایڈیشنل سیشن جج صادق آبادنے26-03-2005 کو اپیل اور ہائی کورٹ نے 18-10-2010 کو پٹیشن خارج کردی۔اِس کیس کی ہسٹری اُتار چڑھاؤ سے بھرپور ہے۔اِس لیے ضروری ہے کہ اِس کیس کے حوالے سے کچھ تفصیلات بیان کی جائیں جو کہ اِس پٹیشن کی بطور اپیل کے سپریم کورٹ کے حوالے سے ہیں ۔ فریقین کے درمیان مقدمہ سات کنال اور آٹھ مرلہ کا معاملہ ہے۔ جو کہ کھاتہ نمبر 22/18 اور جمہ بندی 1978-1979 کے مطابق چک نمبر 10/N.P تحصیل صادق آباد میں واقع ہے۔ ریسپاونڈنٹس کے مطابق پٹشینر / مدعیہ نے ایک پاور آف اٹارنی جو کہ رجسٹرڈ تھا محمد عبداللہ کے حق میں دیاجو کہ رسپاونڈنٹ نمبر 6 ہے ۔اِس پاور آف اٹارنی کی بدولت محمد عبداللہ نے 15-4-1982 کو ایک معائدہ بیع محمد حنیف کے حق میں کردیا۔ محمد حنیف ریسپاونڈنٹ نمبر1 کا خاوند اور رسپاونڈنٹ نمبر دو سے پانچ تک کا باپ تھا۔ 11-12-1982 کو درخواست گزار/ مدعیہ نے ایک دعویٰ سول جج صادق آباد کی عدالت میں کردیا کہ 15-4-1982 کو تیار ہونی والی سیل ڈیڈ منسوخ کی جائے۔اُس کا کیس یہ تھاکہ محمد عبداللہ کے حق میں جو پاور آف اٹارنی تھا وہ جعلی تھا۔ اِس لیے سیل ڈیڈ کو منسوخ کیا جائے۔محمد حنیف نے اِس دعوے کی مخالفت کی۔24-2-1987 کو پٹیشنر/ مدعیہ نے اپنے کونسل سید احسان احمد کو پیش کیا جبکہ مدعا علیہ محمد حنیف اِن پرسن پیش ہوا۔ اِنھوں نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ اِس کو پنچایت کے ذریعے سے حل کرنا چاہیتے ہیں ۔ فریقین نے اپنے اپنے مصالحت کار مقرر کردئیے اور یوں سرپینچ بھی مقرر کر دیا گیا۔اِن تینوں نے کیس کا مصالحتی فیصلہ کرنا تھا۔اِن تینوں مصالحت کاروں نے اپنا فیصلہ15-03-1988 کو سُنا دیا30-5-1989. کو تمام فریقین کی رضا مندی سے پہلے سے کیے گئے فیصلہ کو کو کینسل کردیا اور مصالحت کاروں کے پاس دُوبارہ فیصلہ کرنے کے لیے بھیج دیا۔بعدازا ں پنچایت کے سرپینچ مولانا عبدالغفور اور مصالحت کار سید خالد شہزاد جو کہ مدعیہ کا نمائندہ تھا ،نے اپنے نام پنچائت سے واپس لے لیے۔ ایک درخواست سرپینچ عدالت میں سرپینچ مقرر کرنے کے لیے دی گئی تاکہ پنچائیتی عمل ہوسکے اِس درخواست کو18-7-1990 کوخارج کردیا گیا۔اور عدالت نے اِس کیس کی پروسیڈنگ خود کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور کیس کو مدعیہ کی شہادت ریکارڈ کرنے کے لیے فکسڈ کر دیا۔ اِس فیصلے سے خود کو متاثر سمجھتے ہوئے محمد حنیف مرحوم نے جو مدعا علیہ ہے نے ایک اپیل دائر کردی۔اِس اپیل کو 20-5-1996 کو منظور کرلیا گیا۔ یہاں پر پٹیشنرجو کہ اِس کیس کی مدعیہ ہیں کا ایک طویل مرحلہ شروع ہوا۔ ۔ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج نے اپیل منظور کرتے ہوئے کیس ریمانڈ کردیا اور یہ فیصلہ کردیا کہ سیکشن آٹھ آربیٹریشن ایکٹ کے تحت اِس کیس کو دیکھاجائے۔ فریقین کو ٹرائل کورٹ میں 26-5-1996 کو پیش ہونے کا حکم دیا گیا۔ تاہم ایڈیشنل جج صاحب کے اہلمد نے رپورٹ کی کہ سردار احمد خان کی کورٹ جو کہ ٹرائل کورٹ تھی وہ بغیر کسی ریپلیسمنٹ کیے ختم ہوگئی ہے۔ اِس پر مشل مقدمہ ڈسٹرکٹ جج رحیم یار خان کو بھیجی گئی کہ اِس پر مناسب حکم کیا جائے۔ 26-5-1996 کو ڈسٹرکٹ جج نے انتظامی حکم کے ذریعہ سے سول جج امام علی شاہ صادق آباد کو کیس بھیج دیا۔ اور فریقین کو 2-6-1996 کو متعلقہ عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔ مورخہ 2-6-1996 کو سول جج صاحب نے یہ حکم پاس کیا ” 2-6-1996 مثل ہذا منتقل ہو کر موصول ہوئے ہے جو کہ درج رجسٹر ہووے۔منجانب فریقین کوئی حاضر عدالت نہ آیا ہے حالانکہ متعددبار پکار دلائی گئی ہے۔ اِن حالات میں دعویٰ ہذابوجہ عدم پیروی خارج کیا جاتا ہے۔
مثل داخل دفتر ہووے ۔حکم سُنایا گیا۔اِس موقع پر یہ پوائنٹ نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج کی جانب سے مثل ڈسٹرکٹ جج کو بھیجنے اور 26-5- 1996 کو ڈسٹرکٹ جج کی جانب سے سول جج امام شاہ کو مثل بھیجنے اور 2-6-1996 کو ٹرائل کورٹ میں پٹیشن کا عدم پیروی خارج ہونے تک کے تمام مرحلوں میں تمام احکامات جو پاس ہوئے وہ دونوں فریقین کی عدم موجودگی میں ہوئے اور پٹیشنر/ مدعیہ کو نوٹس کیے بغیر ہوئے۔۔ کافی عرصہ بعد یہ بات سامنے آئی کہ مدعیہ / پٹیشنر نے مثل ڈھونڈنے کی کوششیں کیں ۔ مدعیہ/ پٹیشنر نے فائل کی گمشدگی کے لیے ڈسٹڑکٹ جج صاحب کودرخواست دی۔ جس پر 3-01-2001 کو ایک انکوائری ہوئی جس میں پتہ چلا کہ مثل ڈی سی آفس رحیم یار خان کے محافظ خانہ میں موجود ہے۔ بعد ازاں مدعیہ/ پٹیشنر نے ایک درخواست اپنے دعوے کی بحالی کے لیے دی جو کہ ٹرائل کورٹ نے17-01-2004 کو شارٹ آرڈر کے ذریعہ سے خارج کردی کہ Limitation Act. کے شیڈوول 3 16 کے تحت ز ائد المیعاد ہے۔ 26-03-2005 کو ایڈشنل جج صاق آباد نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے فیصلے کو برقرار رکھا۔ بعدازاں رٹ پتیشن نمبر 2918/2010 میں لاہور ہائی کورٹ نے درخوات کو خارج کر دیا۔تینوں عدالتوں نے یہ فیصلہ دیا کہ Limitation Act کے آرٹیکل 163 کے تحت درخواست گزار کو دعویٰ خارج ہونے کے تیس دن کے اندر یا دعوعٰ اخراج کے علم ہونے کے تیس دن کے اندر عدالت میں آنا چاہیے تھا۔ مدعیہ / پٹیشنر کی جانب سے وصول شدہ تصدیق شدہ کاپیوں سے پتہ چلتا ہے کہ دخواست کے دائر کرنے سے آٹھ ماہ یا ایک سال پہلے مدیعہ کو کیس کے اخراج کاپتہ چلاتھا۔ یہ درخواست زائد المعیاد تھی۔ یہ شواہد ریکارڈ سے حاصل کیے گئے۔ اور اِس پر مدعلہیان کو کوئی اعتراض نہ ہے۔ کو نسل پٹیشنڑ نے بارہا اِس پر اعتراض کیا جو آرڈر ٹرائل کورٹ اور ڈسٹرکٹ کورٹ نے پاس کیے۔ سب سے پہلے کونسل نے 2-06-1996 کے متعلق کہا کہ یہ آرڈر پٹیشنر کو بغیر نوٹس دیے کیا گیا اور کیس خارج ہوا۔درست نہ ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ 2-6-1996 کو بھی تاریخ سُنائی نہ تھی۔ نوٹس ایشو کرنے کے بعد ہی فیصلہ سُنایا جاسکتاتھا۔ پٹیشنر کے کونسل کے دلائل میرٹ پر اُترتے ہیں ۔پٹیشنر کے کونسل نے محمد قاسم بنام موجو دین 1995SCMR 218 کا ریفرنس دیا جس میں قانونی نکتہ سپورٹ کرتا ہے کہ پتیشنر کو بغیر نوٹس کیے فیصلہ نہ ہوسکتا تھا۔ جبکہ کیس کو امام شاہ کی عدالت میں ایک انتظامی حکم کے زریعے بھیجا جاچکا تھا۔ یہ تمام حقائق اوپر بیان کردہ نکات کی تصدیق کرتے ہیں ۔ ۔ ایڈیشنل سیشن جج نے ٹرائل کورٹ کو حکم دیا تھا کہ وہ آربیٹریشن ایکٹ کے سیکشن آٹھ کے تحت اِس کیس کا فیصلہ کرئے۔ ٹرائل کورٹ کا یہ فرض تھا کہ وہ 20-5-1996 کو فریقین کو نوٹس کرتے۔پٹیشنر کے کونسل نے مزید دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اُس کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اُصے آربٹریشن کے عمل سے باہر کردیا جائے۔ ایسا صرف ٹرائل کورٹ کی وجہ سے ہوا ہوا۔ جبکہ ٹرائل کورٹ پر لازم تھا کہ وہ فریقین کو سُننے کے لیے 2-6-1996 کو نوٹس کرتی۔متزکرہ بالا اقعات کے مطابق یہ بات ظاہر ہوجاتی ہے کہ عدم پیروی کی وجہ سے دعویٰ کے اخراج کا ذمہ دار مدعیہ نہ تھا۔غلطی ٹرائل کورٹ کی تھی کہ اُص نے کسے ٹرانسفر کے پس منظر کے حقائق کو نہ سمجھا۔ زائد المعیاد ہونے کی بابت تو سوال تب پیدا ہوتا جب عدم پیروی ہونا دُرست ہوتا۔ اِس غلطی کو درست کرنا عدالت کی ذمہ داری تھی۔اِس موقع پر ریسپاونڈنٹس کے کونسل کی جانب سے لیمیٹیشن ایکٹ کے آرٹیکل ایک سو تریسٹھ کے تحت فیصلہ کرنا بنتا نہیں ہے۔ جس دن نپٹیشنر کا کیس عدم پیروی خارج ہوا وہ تو ہیرنگ کی تاریخ ہی نہ تھی۔عدالت نے بیان کردہ تفصیلات کے بعد اِس پٹیشن کو اپیل میں تبدیل کرنے کی اجازت دیتی ہے اور یہ کیس ڈسٹرکٹ جج کو بھیجا جارہا ہے۔ کہ وہ اِس کا فیصلہ ایک سال میں کرئے۔