... loading ...
مفتی محمد وقاص رفیعؔ
اسلام کے مضبوط عقائد اور پاکیزہ تعلیمات میں عقل اور محبت کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے ۔ ان میں سے اگر کسی ایک چیز کو بھی نکال دیا جائے تو اس کی ساری خوبی اور اس کا سارا حسن ختم ہوکر رہ جاتا ہے۔عقائد و عبادات کا نظام اگر عقل سے آزاد ہوجائے تو ’’توہُّم پرستی‘‘ والا مذہب وجود میں آنے لگتا ہے اور عقل کو اگر آسمانی وحی پر مبنی عقائد و عبادات سے خالی کردیا جائے تو ایسی ’’مادیت پرستی‘‘ جنم لیتی ہے جو روحانیت کے حسن اور لطف سے بالکل نابلد ہوتی ہے اور نتیجہ دونوں صورتوں میں گمراہی اور محرومی ہی نکلتا ہے ۔ کہیں جسم کے جائز تقاضوں سے محرومی رہتی ہے تو کہیں روح کے حقیقی مطالبات سے محرومی اختیار کرنی پڑتی ہے۔
زمانۂ جاہلیت میں عرب کے اکثر و بیشتر لوگ علم و فضل سے ناواقف ، دور بینی اور شائستگی سے دور اور تہذیب و تمدن سے یکسر عاری اور تہی دامن تھے ۔ جہالت و ضلالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں نے ان میں بت پرستی رائج کردی تھی اور بت پرستی نے انہیں توہُّم پرست بنادیا تھا جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی صحیح ہستی کا اقرار ، جزاء و سزاء کا تصور اور نیک و بد اعمال پر اچھے اور برے نتیجے کامرتب ہونا ان کے نزدیک تمسخر اور استہزاء کی باتیں بن کر رہ گئی تھیں۔جہالت پرستی اور توہُّم پرستی نے ان کے عقائد و اعمال کو ایسا بگاڑ دیا تھا کہ عقل بھی اس پر خندہ زن تھی۔
شرک و بدعت اور کفر و ضلالت کے ان گھٹا ٹوپ اندھیروں میںاللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے اور آخری نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور آپ کے ذریعے سے ان کی جہالت کے اندھیروں کو ختم فرمایا ۔’’ توہُّم پرستی‘‘ کے بجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حقیقت شناسی کی تعلیم دی ، شرک کی جگہ توحید اور بت پرستی کی جگہ اللہ وحدہٗ لاشریک لہٗ کی نورانی تعلیمات عنایت فرمائیں اور عقائد و اعمال میں ان کے لئے ایسا واضح اور صاف راستہ متعین فرمایا جو ان کو جہنم کے اندھرے اور تاریکی سے نکال کر جنت کی روشنی کی طرف لے جائے۔
لیکن آج کل مسلمانوں میں اسلامی تعلیمات کی کمی اور یورپ و مغرب کی نت نئی تہذیب و ثقافت اور اس کا کلچر قبول کرنے کی وجہ سے ہمارے عام مسلمانوں میں کچھ ایسے خیالات نے جنم لے رکھا ہے کہ جن کا دین و شریعت اور مذہب اسلام سے دور کا بھی تعلق نہیں ، اسی جہالت کے نتیجے میں آج بھی زمانہ جاہلیت قبل از اسلام کے ساتھ ملتی جلتی مختلف توہُّم پرستیاں ’’ماہِ صفر ‘‘کے بارے میں بھی پائی جاتی ہیں ۔
چنانچہ بعض لوگوں اور خاص طور پر خواتین نے تو اس مہینے کا نام ہی ’’تیرہ تیزی‘‘ رکھ دیا ہے اور اس مہینے کو اپنے گمان میں’’ تیزی‘‘ کا مہینہ سمجھ لیا ہے ۔ اس کی حتمی اور قطعی وجہ تو معلوم نہیں ہوسکی کہ اس مہینے کو ’’تیرہ تیزی‘‘ کا مہینہ کیوں کہا جاتا ہے ؟ ممکن ہے کہ اس مہینہ کو ’’تیرہ تیزی‘‘ کا نام اس لئے دے دیا گیا ہو کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا مرضِ وفات جو اس مہینے میں شروع ہوا تھا وہ مشہور روایات کے مطابق تیرہ (13) دن تک مسلسل جاری رہا تھا ، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال مبارک ہوگیا تھا۔ اس سے جہلاء نے یہ سمجھ لیا ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان تیرہ (13) دنوں میں مرض کی شدت اور تیزی کی وجہ سے یہ مہینہ سب کے حق میں شدید ، بھاری اور تیز ہو گیا ہے ۔ اگر واقعتاً یہی بات ہے تو یہ سراسر’’ جہالت‘‘ اور’’ توہُّم پرستی‘‘ کا شاخسانہ ہے ، جس کی کوئی حقیقت نہیں اور ایسا عقیدہ رکھنا سخت گناہ ہے۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس مہینے کے ابتدائی تیرہ (13) روز خاص طور پر بہت زیادہ سخت اور تیز یا بھاری ہوتے ہیں ، اسی وجہ سے یہ لوگ صفر کے مہینہ کی پہلی تاریخ سے لے کر تیرہ (13) تاریخ تک کے دنوں کو خاص طور پر منحوس سمجھتے ہیں اور بعض جگہ اس مہینے کی تیرہ (13) تاریخ کو چنے اُبال کر یا چوری بناکر تقسیم کرتے ہیں تاکہ بلائیں ٹل جائیں۔اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان لوگوں کے ابتدائی تیرہ (13) دنوں سے متعلق اس غلط خیال کی وجہ سے ہی اس مہینہ کو ’’تیرہ تیزی‘‘ کا مہینہ کہا جاتا ہواوریہ بھی شریعت پر زیادتی ہے ۔
چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ : ’’ماہِ صفر‘‘ میں بیماری ، نحوست اور بھوت پریت وغیرہ کا کوئی نزول نہیں ہوتا ۔‘‘ ( مسلم)
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ ( اسلام میں نہ امراض کا ) تعدیہ ہے ، نہ ہامہ اور نہ صفر (کے مہینے کی نحوست) ہے۔‘‘ اس پر ایک دیہاتی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: ’’ یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )! اونٹوں کی ایک جماعت کا کیا معاملہ ہے جو ریت میں اس حال میں ہوتے ہیں کہ گویا وہ ہرن ہیں ( یعنی ہرن کی طرح بیماری سے صاف ستھرے ہیں) پھر ان کے ساتھ کوئی خارش زدہ اونٹ آملتا ہے جو اِن سب کو خارش زدہ کردیتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’(اچھا یہ بتاؤکہ ) پہلے اونٹ کو کس کے ذریعے سے خارش لگی؟۔‘‘(یہ سن کر وہ دیہاتی لاجواب ہوگیا ۔ )( بخاری ، مسلم و ابو داؤد)
اسی طرح بخاری شریف میں ہے کہ ’’ماہِ صفر‘‘ میں بیماری ، بدشگونی ، شیطانی گرفت اور نحوست کے اثرات کوئی چیز نہیں ہیں۔ اور مسلم شریف میں ہے کہ بیماری ، شیطانی گرفت ، ستاروں کی گردش اور نحوست کا ’’ماہِ صفر ‘‘ سے کوئی تعلق نہیں ۔ ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ ’’بھوت پریت کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔‘‘(مسلم)
ابن عطیہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد بیان کیا ہے کہ : ’’بیماری ، شیطانی گرفت اور نحوست دوسروں پر اثر انداز نہیں ہوتی اور یاد رہے کہ بیمار اونٹ دوسرے اونٹوں میں نہ جانے پائے ، صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: ’’ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !یہ کیوں؟ ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’بیمار اونٹ دوسرے اونٹوں کی تکلیف کا سبب بنتا ہے۔‘‘(مؤطا امام مالک)
در اصل زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا اعتقاد یہ تھا کہ متعدی مرض اور چھوت کی بیماری ہرحال میں دوسرے کو لگتی ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کوئی دخل نہیں ہے ۔ یعنی وہ بذات خود بیماری کے دوسرے کی طرف متعدی ہونے کو مؤثر بالذات سمجھتے تھے اور بعض بیماریوں میں طبعی طور پر لازمی خاصیت کے قائل تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باطل عقیدے کی اصلاح فرمائی۔(فیض القدیر)
آج کل بھی بعض لوگ مختلف بیماریوں مثلاً کوڑھ ، خارش ، چیچک ، خسرہ ، گندہ دہنی (پائیوریا) اور آشوب چشم وغیرہ کو اسی طرح (خود بخود بغیر حکم الٰہی کے لازمی طور پر ) متعدی سمجھتے ہیں جوکہ باطل اور غلط عقیدہ ہے ۔ خوب سمجھ لینا چاہیے کہ موت و زندگی ، بیماری و تندرستی اور مصیبت و راحت یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہے ۔ اگر ایک بیماری دس (10) آدمیوں کو لگتی ہے تو وہ اللہ کے حکم سے لگتی ہے ، بیماری میں ہرگز یہ طاقت نہیں کہ وہ بغیر حکم الٰہی کے کسی دوسرے کو لگ جائے ۔ چنانچہ تجربہ و مشاہدہ بتلاتا ہے کہ وبائی امراض میں سبھی مبتلا نہیں ہوتے ، بلکہ بہت سے لوگ وبائی بیماروں کے ساتھ رہتے ہوئے بھی ان سے محفوظ رہتے ہیں ۔
پس ثابت ہوا کہ کوئی بھی بیماری از خود کسی کو نہیں لگتی بلکہ جس وقت اور جب جس کو حق تعالیٰ شانہ چاہتے ہیں بیمار کردیتے ہیں اور جس کو نہیں چاہتے اسے بیمار نہیں کرتے۔البتہ اللہ تعالیٰ نے بعض بیماریوں کے ایسے جراثیم پیدا فرمائے ہیں کہ وہ جس کو پہنچتے ہیں اس میں وہ بیماری پیدا ہوجاتی ہے اور وہ متعدی امراض کہلاتے ہیں، جب کہ یہ عقیدہ ہوکہ یہ جراثیم از خود دوسرے کی طرف متعدی و منتقل نہیں ہوتے ، بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کے ارادے سے متعدی و منتقل ہوتے ہیں تو اس صورت میں ان سے احتیاط کرنے اور بچنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔بعض احادیث میں اسی نقطہ نظر کے پیش نظر بعض بیماریوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’بیماری کا تعدیہ ، اور ہامہ اور صفر کوئی چیز نہیں ہیں ، اور آپ مجذوم اور کوڑھ (Leprous) کے مریض سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے بھاگتے ہو۔‘‘(بخاری)
خلاصہ یہ کہ احتیاطی تدابیر اور اسباب کے درجے میں مؤثر بالذات اللہ تعالیٰ کی ذات کو سمجھتے ہوئے وبائی امراض سے حفاظت اور ان سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنے میں قطعاً کوئی حرج اور کوئی مضائقہ نہیں ہے۔