... loading ...
معلوم نہیں یہ محض اتفاق تھا یا سوچی سمجھی ترکیب۔۔ ۔ ؟ کہ وزیر خارجہ خواجہ آصف واشنگٹن یاترا پر تھے اور یہاں اسلام آباد میں آئین میں موجودختم نبوت ﷺسے متعلق حلف نامے کی تبدیلی کے مسئلے نے سر اٹھا لیا تھااس کے بعد سوشل میڈیا پر وزیر خارجہ کی امریکا میں موجود احمدی جماعت کے سربراہ سے ملاقات کی تصویر بھی سامنے آئی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سوچا سمجھا منصوبہ تھا تاکہ مغرب کو پیغام دیا جائے کہ ہم تو ’’قادیانیوں کے معاملے میں نرم، ہاتھ رکھنا چاہتے ہیں لیکن پاکستانی عوام کی اکثریت اور بہت سے حلقے اس راستے کی رکاوٹ ہیں‘‘۔ اس میں شک نہیں کہ ختم نبوتﷺ، ڈان لیکس، کالعدم جماعتیں، ریاست کے اندر ریاست، یہ تمام جملے اور بیانیہ باہر سے آیا۔ یہ سب کچھ نون لیگ کی حکومت اپنے لیڈروں کی کرپشن پر پردہ ڈالنے اور احتساب کے معاملے میں رکاوٹ پیدا کرنے کے لیے کررہی ہے ان تمام معاملات میں زرداری گروپ اور الطاف حسین نواز شریف کی بیساکھیاں بنے ہوئے ہیں۔لیکن اس ساری بوکھلاہٹ میں حالات ایسی نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ حکومتی وزرا بدحواسی کا شکار ہوگئے ہیں ۔ وزیر خارجہ بھارت اور خطے کے دیگر حالات کو نظر انداز کرکے’’ اپنا گھر‘‘ پہلے ٹھیک کرنے کی باتیں کررہے ہیں۔ وزیر داخلہ احسن اقبال کا یہ حال ہے کہ وہ ابھی تک ذہنی طور پر وزیر داخلہ ہی نہیں بنے۔ شریف خاندان ہو یا زرداری خاندان اور ان کے ہم نواء سب کی آخری امید امریکا اور برطانیہ بن چکے ہیں کہ کسی طرح مغربی اسٹیبلشمنٹ پاکستانی اداروں پر دبائو ڈال کر موجودہ تعفن انگیز کرپٹ نظام چلنے دے لیکن ایسا ہوتا بھی نظر نہیں آرہا ، دوسری صورت میں اس سیاسی مافیا کی خواہش یہ ہے کہ کسی طرح ملک میں مارشل لاء لگ جائے تاکہ یہ سیاسی شہید بن کر کرپشن کے الزامات سے محفوظ رہ سکیں لیکن ان کی بدقسمتی یہ بھی نہیں ہورہا۔ ان کی یہ بھی خواہش ہے کہ ملک میں دیگر ایشو کھڑے کرکے ان کی کرپشن سے لوگوں کی توجہ ہٹائی جائے اس میں بھی یہ بری طرح ناکام رہے ہیں۔
دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ امریکا اور اس کے دجالی صہیونی اتحادیوں کو افغانستان میں دھول چاٹتے کئی برس ہوچکے ہیں لیکن ان کے مطلوبہ نتائج نہیں مل رہے جس کا ملبہ وہ پاکستان پر ڈالتے ہیں۔ اس بات کا انہیں ادراک ہے کہ پاکستان کی جانب سے دہشت گردوں کو دفاعی پوزیشن میں لاکھڑا کیا گیا ہے بلکہ ان کی بڑی تعداد پھر بھاگ کر افغانستان پہنچ چکی ہے ۔ امریکی بوکھلاہٹ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں کو ہوا دینے کی بہت کوشش کی لیکن وہ اس میں ناکام رہا، اس کے بعد پاکستان میں عراق اور شام کی طرز پر فرقہ ورانہ فسادات کرانے کی بھرپور کوشش کی گئی لیکن ایسا بھی نہیں ہوسکا۔بھارت کو افغانستان میں فری ہینڈ دیا گیا کہ وہ افغان سرزمین پر بیٹھ کر پاکستان خصوصا بلوچستان کے علاقے کو غیر مستحکم کرسکے لیکن بھارت کی چانکیائی سیاست کی ہانڈی بیچ چوراہے میں پھوٹ چکی ہے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستانی سیاسی مافیا اور بھارتی حکومت کے درمیان قربتیں بڑھانے کی کوشش کی گئی تاکہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو کمزور کرکے پاکستان کے معاملات میں کھلی من مانی کی جاسکے لیکن یہ چال بھی منہ پر پڑ گئی۔پاکستان کی سیاسی مافیا کو کھل کر کرپشن کرنے کے موقع فراہم کئے گئے جس کے لیے عالمی دجالی مالیاتی اداروں سے قرضوں کی بارش کی گئی تاکہ ملک اقتصادی طور پر دیوالیہ ہوجائے لیکن یہی سیاسی مافیا مکافات عمل کی زد میں آگئی۔ پاکستانی میڈیا کے بڑے حصے کو حکمرانوں کے ذریعے خرید کر امریکی اور بھارتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش عرصے سے جاری ہے لیکن ان کے بھیانک چہرے پر پڑی نقاب قوم کے سامنے الٹ چکی ہے۔
اخباری ذرائع کے مطابق رواں ماہ امریکی صدر ٹرمپ کے اعلی سفارتی اور عسکری مشیر پاکستان کا دورہ کریں گے یہ دورہ ایسے وقت ہونے جارہا ہے جب ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کی جانب سے دہشت گردوں کو پناہ دینے کے بیان کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات خاصے تنائو کا شکار ہیں اس قسم کی کشیدہ صورتحال کے بعد پہلے امریکی وزیر خارجہ پاکستان کا دورہ کریں گے اس کے بعد امریکی وزیر دفاع بھی اسلام آباد آئیں گے۔ذرائع کے مطابق اس دورے کا مقصد ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کو قبائلی علاقوں میں جہادی گروپوں کو کی حمایت کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کرنا ہے ٹرمپ انتظامیہ کا الزام ہے کہ پاکستانی ریاست ان گروپوں کی سرکوبی کی بجائے انہیں پناہ فراہم کرتی ہے جو بعد میں افغانستان میں داخل ہوکر امریکی مفادات پر حملے کرتے ہیں اس لیے ان گروپوں کی حمایت پاکستانی ریاست کی جانب سے ختم ہونی چاہئے۔درحقیقت یہ وہ الزامات ہے جو امریکی انتظامیہ افغانستان میں اٹھانے والی خفت مٹانے کے لیے پاکستان پر لگاتی آئی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اقتدار سنبھالتے ہی افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے خلاف جارحانہ انداز اپنایا ہوا تھا اس کے بعد امریکی وزیر دفاع میٹس نے کانگریس میں بیان دیا تھاکہ ’’پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی ایک اور کوشش کی جائے گی اور یہ اندازہ لگایا جائے گا کہ پاکستان کے ساتھ مل کر کام کیا جاسکتا ہے یا نہیں‘‘۔
ان تمام باتوں کے بعد امریکا کی ٹرمپ انتظامیہ پر جو بم پھٹا ہے وہ افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کا حالیہ بیان ہے جو انہوں نے ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کوانٹرویو دیتیہوئے دیا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ امریکا افغانستان میں داعش کو اسلحہ فراہم کرتا ہے، امریکا بتائے افغانستان میں داعش کیسے آئی؟ حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ امریکا کے داعش سے رابطے ہیں اور امریکی اڈوں سے داعش کو مدد فراہم کی جاتی ہے، ان کا کہنا تھا کہ پہلے افغانستان میں طالبان اور القاعدہ تھے اب سب سے زیادہ وجود داعش کا ہے اور امریکی انٹیلی جنس ایجنسی کی موجودگی میں ہی داعش افغانستان میں وارد ہوئی ہے۔افغانستان بھرسے داعش کو امریکی امداد ملنے کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں امریکا کو ان سوالوں کا جواب دینا ہوگا۔ اب اس بیان کو گھر کے بھیدی کا لنکا ڈھانا کہا جائے یا کچھ اور۔ اس تمام صورتحال کے بعد اب امریکی وزیر خارجہ ٹیلرسن اور وزیر دفاع جم میٹس کس منہ سے پاکستانی ریاست کو ٹرمپ کا ’’سخت پیغام‘‘ دیں گے۔ غالبا پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف کے اس بیان کہ ’’پہلے ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنا چاہئے‘‘ کا جواب بھی کرزئی کے اس حالیہ بیان میں پوشیدہ ہے۔
(جاری ہے)