... loading ...
آئین فرانس کے جمہوریت پسندوں نے جب جنرل ڈیگال کے صدر مملکت بننے پر اعتراض کیا تو انہوں نے بڑا کلاسیکل جواب دیا تھا ۔ انہوں نے فرانسیسی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا’’آپ کے ملک میں ہمیشہ ایک فوج ہوگی۔ اگر آپ کی نہیں تو دشمن کی ہوگی‘‘ فرانس کے عوام پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کا مزہ چکھ چکے تھے۔انہیں فوج کی اہمیت کا اندازہ تھا۔ لہٰذا انہوں نے جنرل ڈیگال کی بات تسلیم کرلی تھی۔
پاکستان میں گزشتہ چند برسوں سے فوج کے خلاف پروپیگنڈے کا طوفان برپا ہے۔ وزیر خارجہ احسن اقبال نے حال ہی میں فوج کے حوالے سے وہی زبان استعمال کی ہے جو اس سے قبل ن لیگ کے وفاقی وزیر خواجہ آصف سمیت بعض وفاقی وزرا ء‘مریم نواز اور خود نواز شریف بھی استعمال کرتے رہے ہیں۔ احسن اقبال نے کہا ہے کہ فوجی ترجمان میجر جنرل آصف غفور معیشت پر تبصرہ نہ کریں۔غیر ذمہ دارانہ بیانات پاکستان کی عالمی ساکھ متاثر کرسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی ساکھ تو سب سے زیادہ خراب خود سیاستدانوں نے کی ہے۔ 1958 کے مارشل لاء سے قبل پاکستان میں سیاسی انار کی تاریخ کا ایک بدنما باب ہے ۔ بھارتی وزیراعظم جواھر لعل نہرو کا کہنا تھا کہ میرے دھوتی بدلنے سے قبل پاکستان کا وزیراعظم تبدیل ہوجاتا ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ایوب خان نے پاکستان کی معیشت کو مضبوط اور مستحکم کیا۔ صنعتوں کا جال بچھادیا۔ پاکستان صنعتی ترقیاتی کارپوریشن (پی آئی ڈی سی) نے پورے ملک میں 55 سے زائد بڑے صنعتی یونٹ قائم کئے ۔آج پی آئی ڈی سی صرف نام کے طور پر کراچی میں ایک بلڈ نگ تک محدود رہ گئی ہے جسے‘‘پی آئی ڈی سی ہاؤس ‘‘کہا جاتا ہے۔اور حکمران اسے لوٹ کر کھاگئے ہیں۔اس کے 90 فیصد حصے میں پی پی ایل (پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ) کے دفاتر قائم ہیں۔ اس کمپنی کے کرایہ سے پی آئی ڈی سی کے بچے کھچے ملازمین کی تنخواہیں ادا ہوجاتی ہیں اور اس عظیم ادارے کا صنعتی ترقی میں کردار بالکل ختم ہوچکا ہے۔
ایوب دور میں پاکستان اسٹیل جیسے دیوہیکل پلانٹ کی داغ بیل ڈالی گئی۔ یہ ادارہ قرضوں اور ہوشر با اخراجات کی دلدل میں دھنس چکا ہے۔ ایوب خان کے دور کی قومی ایر لائن(پی آئی اے) اور آج کی بوسیدہ قعر مذلت اور قرضوں واخراجات کے بھنور میں ڈوبی ہوئی پی آئی اے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ماضی کی پی آئی اے کی لاجواب پرواز تھی اور آج اس کے پرکاٹ دیے گئے ہیں کہ یہ اڑان کے قابل ہی نہ رہے اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے جاگیردار اور وڈیرے ایوب دور کے صنعتی گروپوں کو ہڑپ کرگئے اور صنعتی ترقی کا پہیہ روک دیا۔ جرنیلی دور ختم ہوا تو بھٹو دور شروع ہوگیا ۔شیخ مجیب الرحمٰن اور ذوالفقار علی بھٹو کی اقتدار پر قبضے کی جنگ میں پاکستان دو ٹکڑے ہوا اور 90 ہزار فوج اور سویلین شہریوں کو دشمن کا جنگی قیدی بننا پڑا۔ 1972 ء سے پاکستان میں نیا سویلین دور شروع ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سارے بینک‘ کارخانے‘ اسکول حتیٰ کہ کپاس اور چاول چھڑنے کے چھوٹے چھوٹے یونٹ بھی قومیا لیے۔ ان اداروں کے مالکان کو پیچھے دھکیل کر ان میں نااہل اور سفارشی اہلکار بٹھا دیے گئے جو مال غینمت سمجھ کر ان اداروں کو ہڑپ کرگئے۔ بد انتظامی اور بد عنوانی نے اچھے بھلے بینکوں اور صنعتی یونٹوں کو تباھی کے دہانے پر پہنچادیا۔ ایوب دور کے پاکستان میں صنعتی ترقی کی رفتار سپر سانک تھی۔ عالمی بینک کے میزانیے میں پاکستان دنیا بھر میں چوتھے نمبر پر شمار ہوتا تھا جو یورپ کے کئی ملکوں سے زیادہ تیز رفتار تھی۔دوسرے فوجی دور میں صدر جنرل ضیاء الحق روس کے خلاف امریکاکی جنگ میں الجھ گئے اور اپنے اقتدار کو طول دینے کی کوششوں میں اس صنعتی ترقی کا راستا بھول گئے جس کی بنیاد ایوب خان نے رکھی تھی۔ جنرل پرویز مشرف کے تیسرے فوجی دور میں پاکستان ایک مرتبہ پھر ترقی کے راستے پر چل پڑا۔ انہوں نے کراچی کے دو میئرز نعمت اﷲ خان اور مصطفیٰ کمال کے ذریعے ملک کے اس سب سے بڑے شہر میں سڑکوں ‘انڈر پاس اور بائی پاس تعمیر کرنے پر خصوصی توجہ دی‘ پل بنائے اور حیدرآباد سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں بھی ترقیاتی کام کرائے۔ ٹیکس فری صنعتی زون قائم کیے ۔سب سے بڑھ کر یہ کہ امریکا اور عالمی ساھوکاروں‘ مالیاتی اداروں کے دباؤ کے باوجود ڈالر کو 60 روپے سے آگے بڑھنے نہیں دیا‘ ان کی فاش غلطی 2002 کے عام انتخابات تھے جن میں وڈیروں کی ایک بڑی تعداد پھر اسمبلیوں میں پہنچ گئی۔ انہوں نے جمہوریت کی آر میں خوب دھول اڑائی اور بالآخر 2008 میں جنرل پرویز مشرف کو اقتدار چھوڑنا پڑا ۔ان تینوں فوجی ادوار میں جنرل ایوب خان کا دور اقتدار فقیدالمثال تھا جس میں دنیا انگشت بدنداں تھی اور پاکستانی معیشت کی رفتار مثالی تھی۔
پاک فوج کے موجودہ سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی چند روز قبل کراچی آمد اور پاکستان فیڈریشن آف چیمبرز اینڈ انڈسٹریز کے پروگرام میں ان کا خطاب نہایت فکر انگیز ہے۔ آرمی چیف نے کہا کہ دشمن نے کراچی کے حالات خراب کرکے معاشی عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن سیکورٹی فورسز نے اس حکمت عملی کو ناکام بنادیا۔ انشاء اﷲ کراچی پر امن رہے گا۔ اگر نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد جاری رہا تو اس کا نتیجہ سیاسی ومعاشی استحکام کی صورت میں نکلے گا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے جہاں حکومت کی بعض اقتصادیات اور جی ڈی پی کی شرح نموکا میں اضافے کی تعریف کی وہاں اس سمت بھی توجہ مبذول کرائی کہ پاکستان پر قرضے آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔ روس اپنی کمزور معیشت کی وجہ سے ٹوٹا تھا۔ یہی صورتحال سب سے زیادہ پریشان کن ہے۔ گزشتہ ساڑھے 4 سال کے دوران حکومت قرضوں پر چلتی رہی ہے۔ جس کی وجہ سے قرضوں کا حجم 84 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے جو جنرل پرویز مشرف کے دور تک 36 ارب ڈالر تھا۔ ان میں سے بیشتر قرضے حکمرانوں کی جیبوں اور تجوریوں میں منتقل ہوکر سفر کرتے ہوئے بیرون ملک پہنچ گئے۔اس رقم سے جائیدادیں خریدی گئیں ‘کاروبار سیٹ ہوئے‘ عیاشی اور مہنگے علاج پر خرچ ہوئے اور 20 کروڑ عوام ایک لاکھ روپیہ فی کس کے حساب سے مقروض ہوگئے گزشتہ 75 سال کے دوران دو سلطنتیں ٹوٹ کر ریزہ ریزہ‘ ہوئی ہیں۔ اس میں ایک سوویت یونین (روس) اور دوسری برطانیا ہے۔ 1945 میں دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی تو برطانیا معاشی اور فوجی لحاظ سے ٹوٹ پھوٹ چکا تھا۔ جس برطانوی سلطنت کی پوری دنیا میں دھاک تھی اور جس میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا وہ چند جزائر تک محدود رہ گئی، یہی حال سوویت یونین کا ہوا۔ اسے افغان جنگ کھا گئی۔ معیشت ایسی برباد ہوئی کہ ایک بوری روبل (روسی سکہ) میں ایک ڈبل روٹی آتی تھی۔ اس کے زیر تسلط یورپی اور ایشیائی ریاستیں اس کے قبضے سے نکل گئیں اور ایک عظیم سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے روس کی مثال دے کر ایسے ہی خطرات سے خبردار کیا ہے۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے بھی پاکستان کی معیشت اور اقتصادیات کے حوالے سے نشاندہی کی ہے۔ اس پر وزیر خارجہ احسن اقبال کا بگڑنا افسوسناک ہی نہیں تعجب خیز بھی ہے۔ اگر موازنہ ہی کرنا ہے تو فوج کے زیر انتظام چلنے والے صنعتی اور مالیاتی اداروں کی برق رفتار ترقی اور حکومتی اداروں کی زبوں حالی دیکھ لیں۔ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے 7 گھنٹے طویل اسپیشل کورکمانڈر کانفرنس کا اعلامیہ جاری نہ ہونے پر کہا تھا کہ’’خاموشی کی بھی ایک زبان ہوتی ہے‘‘ ۔یہ بیان جاری ہوتے ہی نااہل وزیراعظم میاں نواز شریف فوراً سے پیشتر لندن روانہ ہوگئے تھے۔ انہوں نے ایک بار پھر وزیر خارجہ احسن اقبال کا بیان میڈیا میں آنے کے بعد کہا ہے کہ جمہوریت کو پاک فوج سے نہیں بلکہ جمہوری تقاضے پورے نہ ہونے اور عوام کی امنگیں پوری نہ کرنے سے ہوگا۔ ملک نے ترقی کرنی ہے تو اس میں ہر طرح کا استحکام ضروری ہے۔ ان کے اس کلام میں بڑا پیغام پنہاں ہے۔ ٭٭٭٭٭