وجود

... loading ...

وجود

فوج اور معیشت

پیر 16 اکتوبر 2017 فوج اور معیشت

آئین فرانس کے جمہوریت پسندوں نے جب جنرل ڈیگال کے صدر مملکت بننے پر اعتراض کیا تو انہوں نے بڑا کلاسیکل جواب دیا تھا ۔ انہوں نے فرانسیسی عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا’’آپ کے ملک میں ہمیشہ ایک فوج ہوگی۔ اگر آپ کی نہیں تو دشمن کی ہوگی‘‘ فرانس کے عوام پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کا مزہ چکھ چکے تھے۔انہیں فوج کی اہمیت کا اندازہ تھا۔ لہٰذا انہوں نے جنرل ڈیگال کی بات تسلیم کرلی تھی۔
پاکستان میں گزشتہ چند برسوں سے فوج کے خلاف پروپیگنڈے کا طوفان برپا ہے۔ وزیر خارجہ احسن اقبال نے حال ہی میں فوج کے حوالے سے وہی زبان استعمال کی ہے جو اس سے قبل ن لیگ کے وفاقی وزیر خواجہ آصف سمیت بعض وفاقی وزرا ء‘مریم نواز اور خود نواز شریف بھی استعمال کرتے رہے ہیں۔ احسن اقبال نے کہا ہے کہ فوجی ترجمان میجر جنرل آصف غفور معیشت پر تبصرہ نہ کریں۔غیر ذمہ دارانہ بیانات پاکستان کی عالمی ساکھ متاثر کرسکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی ساکھ تو سب سے زیادہ خراب خود سیاستدانوں نے کی ہے۔ 1958 کے مارشل لاء سے قبل پاکستان میں سیاسی انار کی تاریخ کا ایک بدنما باب ہے ۔ بھارتی وزیراعظم جواھر لعل نہرو کا کہنا تھا کہ میرے دھوتی بدلنے سے قبل پاکستان کا وزیراعظم تبدیل ہوجاتا ہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ایوب خان نے پاکستان کی معیشت کو مضبوط اور مستحکم کیا۔ صنعتوں کا جال بچھادیا۔ پاکستان صنعتی ترقیاتی کارپوریشن (پی آئی ڈی سی) نے پورے ملک میں 55 سے زائد بڑے صنعتی یونٹ قائم کئے ۔آج پی آئی ڈی سی صرف نام کے طور پر کراچی میں ایک بلڈ نگ تک محدود رہ گئی ہے جسے‘‘پی آئی ڈی سی ہاؤس ‘‘کہا جاتا ہے۔اور حکمران اسے لوٹ کر کھاگئے ہیں۔اس کے 90 فیصد حصے میں پی پی ایل (پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ) کے دفاتر قائم ہیں۔ اس کمپنی کے کرایہ سے پی آئی ڈی سی کے بچے کھچے ملازمین کی تنخواہیں ادا ہوجاتی ہیں اور اس عظیم ادارے کا صنعتی ترقی میں کردار بالکل ختم ہوچکا ہے۔
ایوب دور میں پاکستان اسٹیل جیسے دیوہیکل پلانٹ کی داغ بیل ڈالی گئی۔ یہ ادارہ قرضوں اور ہوشر با اخراجات کی دلدل میں دھنس چکا ہے۔ ایوب خان کے دور کی قومی ایر لائن(پی آئی اے) اور آج کی بوسیدہ قعر مذلت اور قرضوں واخراجات کے بھنور میں ڈوبی ہوئی پی آئی اے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ماضی کی پی آئی اے کی لاجواب پرواز تھی اور آج اس کے پرکاٹ دیے گئے ہیں کہ یہ اڑان کے قابل ہی نہ رہے اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے جاگیردار اور وڈیرے ایوب دور کے صنعتی گروپوں کو ہڑپ کرگئے اور صنعتی ترقی کا پہیہ روک دیا۔ جرنیلی دور ختم ہوا تو بھٹو دور شروع ہوگیا ۔شیخ مجیب الرحمٰن اور ذوالفقار علی بھٹو کی اقتدار پر قبضے کی جنگ میں پاکستان دو ٹکڑے ہوا اور 90 ہزار فوج اور سویلین شہریوں کو دشمن کا جنگی قیدی بننا پڑا۔ 1972 ء سے پاکستان میں نیا سویلین دور شروع ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سارے بینک‘ کارخانے‘ اسکول حتیٰ کہ کپاس اور چاول چھڑنے کے چھوٹے چھوٹے یونٹ بھی قومیا لیے۔ ان اداروں کے مالکان کو پیچھے دھکیل کر ان میں نااہل اور سفارشی اہلکار بٹھا دیے گئے جو مال غینمت سمجھ کر ان اداروں کو ہڑپ کرگئے۔ بد انتظامی اور بد عنوانی نے اچھے بھلے بینکوں اور صنعتی یونٹوں کو تباھی کے دہانے پر پہنچادیا۔ ایوب دور کے پاکستان میں صنعتی ترقی کی رفتار سپر سانک تھی۔ عالمی بینک کے میزانیے میں پاکستان دنیا بھر میں چوتھے نمبر پر شمار ہوتا تھا جو یورپ کے کئی ملکوں سے زیادہ تیز رفتار تھی۔دوسرے فوجی دور میں صدر جنرل ضیاء الحق روس کے خلاف امریکاکی جنگ میں الجھ گئے اور اپنے اقتدار کو طول دینے کی کوششوں میں اس صنعتی ترقی کا راستا بھول گئے جس کی بنیاد ایوب خان نے رکھی تھی۔ جنرل پرویز مشرف کے تیسرے فوجی دور میں پاکستان ایک مرتبہ پھر ترقی کے راستے پر چل پڑا۔ انہوں نے کراچی کے دو میئرز نعمت اﷲ خان اور مصطفیٰ کمال کے ذریعے ملک کے اس سب سے بڑے شہر میں سڑکوں ‘انڈر پاس اور بائی پاس تعمیر کرنے پر خصوصی توجہ دی‘ پل بنائے اور حیدرآباد سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں بھی ترقیاتی کام کرائے۔ ٹیکس فری صنعتی زون قائم کیے ۔سب سے بڑھ کر یہ کہ امریکا اور عالمی ساھوکاروں‘ مالیاتی اداروں کے دباؤ کے باوجود ڈالر کو 60 روپے سے آگے بڑھنے نہیں دیا‘ ان کی فاش غلطی 2002 کے عام انتخابات تھے جن میں وڈیروں کی ایک بڑی تعداد پھر اسمبلیوں میں پہنچ گئی۔ انہوں نے جمہوریت کی آر میں خوب دھول اڑائی اور بالآخر 2008 میں جنرل پرویز مشرف کو اقتدار چھوڑنا پڑا ۔ان تینوں فوجی ادوار میں جنرل ایوب خان کا دور اقتدار فقیدالمثال تھا جس میں دنیا انگشت بدنداں تھی اور پاکستانی معیشت کی رفتار مثالی تھی۔
پاک فوج کے موجودہ سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی چند روز قبل کراچی آمد اور پاکستان فیڈریشن آف چیمبرز اینڈ انڈسٹریز کے پروگرام میں ان کا خطاب نہایت فکر انگیز ہے۔ آرمی چیف نے کہا کہ دشمن نے کراچی کے حالات خراب کرکے معاشی عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن سیکورٹی فورسز نے اس حکمت عملی کو ناکام بنادیا۔ انشاء اﷲ کراچی پر امن رہے گا۔ اگر نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد جاری رہا تو اس کا نتیجہ سیاسی ومعاشی استحکام کی صورت میں نکلے گا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے جہاں حکومت کی بعض اقتصادیات اور جی ڈی پی کی شرح نموکا میں اضافے کی تعریف کی وہاں اس سمت بھی توجہ مبذول کرائی کہ پاکستان پر قرضے آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔ روس اپنی کمزور معیشت کی وجہ سے ٹوٹا تھا۔ یہی صورتحال سب سے زیادہ پریشان کن ہے۔ گزشتہ ساڑھے 4 سال کے دوران حکومت قرضوں پر چلتی رہی ہے۔ جس کی وجہ سے قرضوں کا حجم 84 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے جو جنرل پرویز مشرف کے دور تک 36 ارب ڈالر تھا۔ ان میں سے بیشتر قرضے حکمرانوں کی جیبوں اور تجوریوں میں منتقل ہوکر سفر کرتے ہوئے بیرون ملک پہنچ گئے۔اس رقم سے جائیدادیں خریدی گئیں ‘کاروبار سیٹ ہوئے‘ عیاشی اور مہنگے علاج پر خرچ ہوئے اور 20 کروڑ عوام ایک لاکھ روپیہ فی کس کے حساب سے مقروض ہوگئے گزشتہ 75 سال کے دوران دو سلطنتیں ٹوٹ کر ریزہ ریزہ‘ ہوئی ہیں۔ اس میں ایک سوویت یونین (روس) اور دوسری برطانیا ہے۔ 1945 میں دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی تو برطانیا معاشی اور فوجی لحاظ سے ٹوٹ پھوٹ چکا تھا۔ جس برطانوی سلطنت کی پوری دنیا میں دھاک تھی اور جس میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا وہ چند جزائر تک محدود رہ گئی، یہی حال سوویت یونین کا ہوا۔ اسے افغان جنگ کھا گئی۔ معیشت ایسی برباد ہوئی کہ ایک بوری روبل (روسی سکہ) میں ایک ڈبل روٹی آتی تھی۔ اس کے زیر تسلط یورپی اور ایشیائی ریاستیں اس کے قبضے سے نکل گئیں اور ایک عظیم سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے روس کی مثال دے کر ایسے ہی خطرات سے خبردار کیا ہے۔ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے بھی پاکستان کی معیشت اور اقتصادیات کے حوالے سے نشاندہی کی ہے۔ اس پر وزیر خارجہ احسن اقبال کا بگڑنا افسوسناک ہی نہیں تعجب خیز بھی ہے۔ اگر موازنہ ہی کرنا ہے تو فوج کے زیر انتظام چلنے والے صنعتی اور مالیاتی اداروں کی برق رفتار ترقی اور حکومتی اداروں کی زبوں حالی دیکھ لیں۔ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے 7 گھنٹے طویل اسپیشل کورکمانڈر کانفرنس کا اعلامیہ جاری نہ ہونے پر کہا تھا کہ’’خاموشی کی بھی ایک زبان ہوتی ہے‘‘ ۔یہ بیان جاری ہوتے ہی نااہل وزیراعظم میاں نواز شریف فوراً سے پیشتر لندن روانہ ہوگئے تھے۔ انہوں نے ایک بار پھر وزیر خارجہ احسن اقبال کا بیان میڈیا میں آنے کے بعد کہا ہے کہ جمہوریت کو پاک فوج سے نہیں بلکہ جمہوری تقاضے پورے نہ ہونے اور عوام کی امنگیں پوری نہ کرنے سے ہوگا۔ ملک نے ترقی کرنی ہے تو اس میں ہر طرح کا استحکام ضروری ہے۔ ان کے اس کلام میں بڑا پیغام پنہاں ہے۔ ٭٭٭٭٭

 


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر