وجود

... loading ...

وجود

سر سید کی کہانی

جمعه 06 اکتوبر 2017 سر سید کی کہانی

(حصہ :دوم )
گاؤں کی یاد۔۔ دلی سے سات کوس مغل پور ایک جاٹوں کا گاؤں ہے۔ وہاں سر سید کے والد کی کچھ زمین بطور معافی کے تھی۔ اگر کبھی فصل کے موقع پر ان کے والد مغل پور جاتے تو ان کو بھی اکثر اپنے ساتھ لے جاتے اور ایک ایک ہفتہ گاوں میں رہتے۔ سر سید کہتے ہیں کہ ،اس عمر میں گاؤں جا کر رہنا، جنگل میں پھرنا، عمدہ دودھ اور دہی اور تازہ تازہ گھی اور جاٹنیوں کے ہاتھ کی پکی ہوئی باجرے یا مکئی کی روٹیاں کھانا نہایت ہی مزہ دیتا تھا۔
خلعت کا حصول۔
سر سید کے والد کو اکبر شاہ کے زمانہ میں ہر سال تاریخ جلوس کے جشن پر پانچ پارچہ اور تین رقوم جواہر کا خلعت عطا ہوتا تھا مگر اخیر میں انہوں نے دربار کا جانا کم کر دیا تھا اور اپنا خلعت سر سید کو، باوجودیکہ ان کی عمر کم تھی، دلوانا شروع کر دیا تھا۔ سر سید کہتے ہیں کہ ایک بار خلعت ملنے کی تاریخ پر ایسا ہوا کہ والد بہت سویرے اْٹھ کر قلعہ چلے گئے اور میں بہت دن چڑھے اْٹھا۔ ہر چند بہت جلد گھوڑے پر سوار ہو کر وہاں پہنچا مگر پھر بھی دیر ہو گئی۔ جب لال پردہ کے قریب پہنچا تو قاعدہ کے موافق اول دربار میں جا کر آداب بجا لانے کا وقت نہیں رہا تھا۔ داروغہ نے کہا کہ بس اب خلعت پہن کر ایک ہی دفعہ دربار میں جانا۔ جب خلعت پہن کر میں نے دربار میں جانا چاہا تو دربار برخاست ہو چکا تھا اور بادشاہ تخت پر سے اْٹھ کر ہوادار پر سوار ہو چکے تھے۔ بادشاہ نے مجھے دیکھ کر والد سے، جو اس وقت ہوادار کے پاس ہی تھے، پوچھا کہ ” تمہارا بیٹا ہے؟” انہوں نے کہا، “حضور کا خانہ زاد ہے ” بادشاہ چپکے ہو رہے۔ لوگوں نے جانا بس اب محل میں چلے جائیں گے، مگر جب تسبیح خانہ میں پہنچے تو وہاں ٹھہر گئے۔ تسبیح خانہ میں بھی ایک چبوترہ بنا ہوا تھا جہاں کبھی کبھی دربار کیا کرتے تھے۔ اس چبوترہ پر بیٹھ گئے اور جواہر خانہ کے داروغہ کو کشتیِ جواہر حاضر کرنے کا حکم ہوا۔ میں بھی وہاں پہنچ گیا تھا۔ بادشاہ نے مجھے اپنے سامنے بلایا اور کمال عنایت سے میرے دونوں ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ ” دیر کیوں کی؟” حاضرین نے کہا، “عرض کرو کہ تقصیر ہوئی” مگر میں چپکا کھڑا رہا۔
جب حضور نے دوبارہ پوچھا تو میں نے عرض کیا کہ ” سو گیا تھا” بادشاہ مسکرائے اور فرمایا، “بہت سویرے اْٹھا کرو” اور ہاتھ چھوڑ دئیے۔ لوگوں نے کہا،آداب بجا لاؤ، میں آداب بجا لایا۔ بادشاہ نے جواہرات کی معمولی رقمیں اپنے ہاتھ سے پہنائیں ۔ میں نے نذر دی اور بادشاہ اْٹھ کر خاص ڈیوڑھی سے محل میں چلے گئے۔ تمام درباری میرے والد کو بادشاہ کی اس عنایت پر مبارک سلامت کہنے لگے اس زمانہ میں میری عمر آٹھ نو برس کی ہو گی۔
کھیل کْود اور شرارتیں ۔
بچپن میں سر سید پر نہ تو ایسی قید تھی کہ کھیلنے کودنے کی بالکل پابندی ہو اور نہ ایسی آزادی تھی کہ جہاں چاہیں اور جن کے ساتھ چاہیں کھیلتے کودتے پھریں ۔ ان کی بڑی خوش نصیبی یہ تھی کہ خود ان کے ماموں ، ان کی خالہ اور دیگر نزدیکی رشتے داروں کے چودہ پندرہ لڑکے ان کے ہم عمر تھے جو آپس میں کھیلنے کودنے کے لیے کافی تھے۔ خواجہ فرید کی حویلی جس میں وہ اور ان کے ہم عمر رہتے تھے، اس کا چوک اور اس کی چھتیں ہر موسم کی بھاگ دوڑ کے کھیلوں کے لیے کافی تھیں ۔ ابتداء میں وہ اکثر گیند بلّا، کبڈی، گیڑیاں ، آنکھ مچولی، چیل چلو وغیرہ کھیلتے تھے۔ اگرچہ گیڑیاں کھیلنے کو اشراف معیوب جانتے تھے مگر ان کے بزرگوں نے اجازت دے رکھی تھی کہ آپس میں سب بھائی مل کر گیڑیاں بھی کھیلو تو کچھ مضائقہ نہیں ۔ سر سید کہتے ہیں کہ، کھیل میں جب کچھ جھگڑا ہو جاتا تو بڑوں میں سے کوئی آ کر تصفیہ کر دیتا اور جس کی طرف سے چنید معلوم ہوتی اس کو برا بھلا کہتا اور شرمندہ کرتا کہ چنید کرنا بے ایمانی کی بات ہے، کبھی چنید مت کرو اور جو چنید کرے اس کو ہرگز اپنے ساتھ مت کھیلنے دو۔ سر سید کا کہنا ہے کہ باوجود اس قدر آزادی کے بچپن میں مجھے تنہا باہر جانے کی اجازت نہ تھی، جب میری والدہ نے اپنے رہنے کی جدا حویلی بنائی اور وہاں آ رہیں تو باوجودیکہ اس حویلی میں اور نانا صاحب کی حویلی میں صرف ایک سڑک درمیان تھی، جب کبھی میں ان کی حویلی میں جاتا تو ایک آدمی میرے ساتھ جاتا، اسی لیے بچپن میں مجھے گھر سے باہر جانے اور عام صحبتوں میں بیٹھنے یا آوارہ پھرنے کا بالکل اتفاق نہیں ہوا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر