... loading ...
(حصہ اول)
آج سے دو سو سال پہلے سات اکتوبر سنہ 1817 دہلی کے ایک معزز گھرانے میں ایک بچہ پیدا ہوا۔ والدین نے اس بچے کا نام سید احمد رکھا۔ آپ کے والد میر متقی اور والدہ بڑی نیک سیرت باہمت ،بااخلاق اور حوصلہ مند خاتون تھیں ۔ آپ کی تعلیم وتربیت میں والدہ کا ہی سب سے بڑا حصہ ہے۔ انہوں نے آپ کو ایمانداری اور سچائی کی زندگی پر چلنے کا راستہ سکھایا۔ اسی راستے پر چل کر سید احمد نے سر سید احمد خان تک کا سفر طے کیا۔ سر سید نے مسلمانان برصغیر کے لئے جدید تعلیم کی شاہراہ تعمیر کی۔ سر سید کی علی گڑھ تحریک کو دو قومی نظریے کا پیش رو کہا جاتا ہے جس کی بنیاد پر14اگست1947کو پاکستان کے نام سے مسلمانوں کا علیحدہ ملک قائم ہوا۔ مولانا الطاف حسین حالی نے سر سید کی کہانی خود سر سید سے سن کر لکھی ہے۔ یہ کتاب نئی نسل کو مسلمانان برصغیر کے محسن اعظم سے براہ راست ملاقات کا شرف فراہم کرتی ہے۔ سر سید اپنی زندگی کے بارے میں کیا بتاتے ہیں یہ ہم، سر سید کی کہانی سر سید کی زبانی، کے اقتباسات کی مدد سے جانتے ہیں ۔۔
بچپن کے حالات۔۔ سر سید کے والد میر متقی، ایک نہایت آزاد منش آدمی تھے۔ خصوصاً جب سے شاہ غلام علی صاحب کے مرید ہو گئے تھے ان کی طبیعت میں اور بھی زیادہ بے تعلقی پیدا ہو گئی تھی۔ اس لئے اولاد کی تعلیم و تربیت کا مدار زیادہ تر بلکہ بالکل سر سید کی والدہ پر تھا۔ سر سید کہتے ہیں ، شاہ صاحب کو بھی ہم سب سے ایسی ہی محبت تھی جیسے حقیقی دادا کو اپنے پوتوں سے ہوتی ہے۔ شاہ صاحب نے شادی نہیں کی تھی وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ گو خدا تعالیٰ نے مجھے اولاد کے جھگڑوں سے آزاد رکھا ہے لیکن متقی کی اولاد کی محبت ایسی دے دی ہے کہ اس کے بچوں کی تکلیف یا بیماری مجھ کو بے چین کر دیتی ہے۔
اہل اللہ کی عظمت کا خیال بچپن سے سر سید کے دل میں بٹھایا گیا تھا۔ وہ اپنے والد کے ساتھ اکثر شاہ غلام علی صاحب کی خدمت میں بٹھائے جاتے تھے اور شاہ صاحب سے ان کی عقیدت کا رنگ اپنی آنکھ سے دیکھتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ، مرزا صاحب کے عرس میں شاہ صاحب ایک روپیہ ان کے مزار پر چڑھایا کرتے تھے اور اس روپیہ کے لینے کا حق میرے والد کے سوا اور کسی کو نہ تھا۔
ایک دفعہ عرس کی تاریخ سے کچھ پہلے ایک مرید نے شاہ صاحب سے اجازت لے لی کہ اب کی بار نذر کا روپیہ مجھے عنایت ہو۔ میرے والد کو بھی خبر ہو گئی۔ جب شاہ صاحب نے روپیہ چڑھانے کا ارادہ کیا تو والد نے عرض کی کہ حضرت میرے اور میری اولاد کے جیتے جی آپ نذر کا روپیہ لینے کی اوروں کو اجازت دیتے ہیں ؟ شاہ صاحب نے فرمایا، نہیں نہیں ! تمہارے سوا کوئی نہیں لے سکتا۔ میں اس وقت صغیر سن تھا، جب شاہ صاحب نے روپیہ چڑھایا، والد نے مجھ سے کہا، جاؤ روپیہ اٹھا لو! میں نے آگے بڑھ کر روپیہ اٹھا لیا۔۔
بسم اللہ کی تقریب۔۔ سر سید کہتے ہیں کہ، مجھ کو اپنی بسم اللہ کی تقریب بخوبی یاد ہے۔ سہ پہر کا وقت تھا اور آدمی کثرت سے جمع تھے، خصوصاً حضرت شاہ غلام علی صاحب بھی تشریف رکھتے تھے مجھ کو لا کر حضرت کے سامنے بٹھا دیا تھا۔ میں اس مجمعے کو دیکھ کر ہکا بکا سا ہو گیا، میرے سامنے تختی رکھی گئی اور غالباً شاہ صاحب ہی نے فرمایا کہ پڑھو، بسم اللہ الرحمن الرحیم، مگر میں کچھ نہ بولا اور حضرت صاحب کی طرف دیکھتا رہا۔ انہوں نے اٹھا کر مجھے اپنی گود میں بٹھا لیا اور فرمایا کہ ہمارے پاس بیٹھ کر پڑھیں گے، اور اول بسم اللہ پڑھ کر” اقراء ” کی اول کی آیتیں ” مالم یعلم ” تک پڑھیں ۔ میں بھی ان کے ساتھ ساتھ پڑھتا گیا۔ سر سید نے جب یہ ذکر کیا تو بطور فخر کے اپنا یہ فارسی شعر، جو خاص اسی موقع کے لئے انھوں نے کبھی کہا تھا، پڑھا، بہ مکتب رفتم و آموختم اسرار یزدانی زفیض نقش بند وقت و جان جان جانانی۔
مجلس ختم قرآن۔۔ بسم اللہ ختم ہونے کے بعد سر سید نے قرآن مجید پڑھنا شروع کیا۔ ان کے ننھیال میں قدیم سے کوئی نہ کوئی استانی نوکر رہتی تھی۔ سر سید نے استانی ہی سے، جو ایک اشراف گھر کی پردہ نشین بی بی تھی، سارا قرآن ناظرہ پڑھا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ میرا قرآن ختم ہونے پر ہدیہ کی مجلس جو زنانہ میں ہوئی تھی وہ اس قدر دلچسپ اور عجیب تھی کہ پھر کسی ایسی مجلس میں وہ کیفیت میں نے نہیں دیکھی۔۔۔ جاری ہے۔