وجود

... loading ...

وجود

سر سید کی کہانی

جمعرات 05 اکتوبر 2017 سر سید کی کہانی

(حصہ اول)
آج سے دو سو سال پہلے سات اکتوبر سنہ 1817 دہلی کے ایک معزز گھرانے میں ایک بچہ پیدا ہوا۔ والدین نے اس بچے کا نام سید احمد رکھا۔ آپ کے والد میر متقی اور والدہ بڑی نیک سیرت باہمت ،بااخلاق اور حوصلہ مند خاتون تھیں ۔ آپ کی تعلیم وتربیت میں والدہ کا ہی سب سے بڑا حصہ ہے۔ انہوں نے آپ کو ایمانداری اور سچائی کی زندگی پر چلنے کا راستہ سکھایا۔ اسی راستے پر چل کر سید احمد نے سر سید احمد خان تک کا سفر طے کیا۔ سر سید نے مسلمانان برصغیر کے لئے جدید تعلیم کی شاہراہ تعمیر کی۔ سر سید کی علی گڑھ تحریک کو دو قومی نظریے کا پیش رو کہا جاتا ہے جس کی بنیاد پر14اگست1947کو پاکستان کے نام سے مسلمانوں کا علیحدہ ملک قائم ہوا۔ مولانا الطاف حسین حالی نے سر سید کی کہانی خود سر سید سے سن کر لکھی ہے۔ یہ کتاب نئی نسل کو مسلمانان برصغیر کے محسن اعظم سے براہ راست ملاقات کا شرف فراہم کرتی ہے۔ سر سید اپنی زندگی کے بارے میں کیا بتاتے ہیں یہ ہم، سر سید کی کہانی سر سید کی زبانی، کے اقتباسات کی مدد سے جانتے ہیں ۔۔
بچپن کے حالات۔۔ سر سید کے والد میر متقی، ایک نہایت آزاد منش آدمی تھے۔ خصوصاً جب سے شاہ غلام علی صاحب کے مرید ہو گئے تھے ان کی طبیعت میں اور بھی زیادہ بے تعلقی پیدا ہو گئی تھی۔ اس لئے اولاد کی تعلیم و تربیت کا مدار زیادہ تر بلکہ بالکل سر سید کی والدہ پر تھا۔ سر سید کہتے ہیں ، شاہ صاحب کو بھی ہم سب سے ایسی ہی محبت تھی جیسے حقیقی دادا کو اپنے پوتوں سے ہوتی ہے۔ شاہ صاحب نے شادی نہیں کی تھی وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ گو خدا تعالیٰ نے مجھے اولاد کے جھگڑوں سے آزاد رکھا ہے لیکن متقی کی اولاد کی محبت ایسی دے دی ہے کہ اس کے بچوں کی تکلیف یا بیماری مجھ کو بے چین کر دیتی ہے۔
اہل اللہ کی عظمت کا خیال بچپن سے سر سید کے دل میں بٹھایا گیا تھا۔ وہ اپنے والد کے ساتھ اکثر شاہ غلام علی صاحب کی خدمت میں بٹھائے جاتے تھے اور شاہ صاحب سے ان کی عقیدت کا رنگ اپنی آنکھ سے دیکھتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ، مرزا صاحب کے عرس میں شاہ صاحب ایک روپیہ ان کے مزار پر چڑھایا کرتے تھے اور اس روپیہ کے لینے کا حق میرے والد کے سوا اور کسی کو نہ تھا۔
ایک دفعہ عرس کی تاریخ سے کچھ پہلے ایک مرید نے شاہ صاحب سے اجازت لے لی کہ اب کی بار نذر کا روپیہ مجھے عنایت ہو۔ میرے والد کو بھی خبر ہو گئی۔ جب شاہ صاحب نے روپیہ چڑھانے کا ارادہ کیا تو والد نے عرض کی کہ حضرت میرے اور میری اولاد کے جیتے جی آپ نذر کا روپیہ لینے کی اوروں کو اجازت دیتے ہیں ؟ شاہ صاحب نے فرمایا، نہیں نہیں ! تمہارے سوا کوئی نہیں لے سکتا۔ میں اس وقت صغیر سن تھا، جب شاہ صاحب نے روپیہ چڑھایا، والد نے مجھ سے کہا، جاؤ روپیہ اٹھا لو! میں نے آگے بڑھ کر روپیہ اٹھا لیا۔۔
بسم اللہ کی تقریب۔۔ سر سید کہتے ہیں کہ، مجھ کو اپنی بسم اللہ کی تقریب بخوبی یاد ہے۔ سہ پہر کا وقت تھا اور آدمی کثرت سے جمع تھے، خصوصاً حضرت شاہ غلام علی صاحب بھی تشریف رکھتے تھے مجھ کو لا کر حضرت کے سامنے بٹھا دیا تھا۔ میں اس مجمعے کو دیکھ کر ہکا بکا سا ہو گیا، میرے سامنے تختی رکھی گئی اور غالباً شاہ صاحب ہی نے فرمایا کہ پڑھو، بسم اللہ الرحمن الرحیم، مگر میں کچھ نہ بولا اور حضرت صاحب کی طرف دیکھتا رہا۔ انہوں نے اٹھا کر مجھے اپنی گود میں بٹھا لیا اور فرمایا کہ ہمارے پاس بیٹھ کر پڑھیں گے، اور اول بسم اللہ پڑھ کر” اقراء ” کی اول کی آیتیں ” مالم یعلم ” تک پڑھیں ۔ میں بھی ان کے ساتھ ساتھ پڑھتا گیا۔ سر سید نے جب یہ ذکر کیا تو بطور فخر کے اپنا یہ فارسی شعر، جو خاص اسی موقع کے لئے انھوں نے کبھی کہا تھا، پڑھا، بہ مکتب رفتم و آموختم اسرار یزدانی زفیض نقش بند وقت و جان جان جانانی۔
مجلس ختم قرآن۔۔ بسم اللہ ختم ہونے کے بعد سر سید نے قرآن مجید پڑھنا شروع کیا۔ ان کے ننھیال میں قدیم سے کوئی نہ کوئی استانی نوکر رہتی تھی۔ سر سید نے استانی ہی سے، جو ایک اشراف گھر کی پردہ نشین بی بی تھی، سارا قرآن ناظرہ پڑھا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ میرا قرآن ختم ہونے پر ہدیہ کی مجلس جو زنانہ میں ہوئی تھی وہ اس قدر دلچسپ اور عجیب تھی کہ پھر کسی ایسی مجلس میں وہ کیفیت میں نے نہیں دیکھی۔۔۔ جاری ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر