... loading ...
حکومت نے ایک بار پھر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کردیا ہے ۔ جس سے ملک میں مہنگائی کے نئے طوفان کے آنے کاامکان مزید بڑھ گیا ہے۔پیڑولیم کی قیمتوں میں اس اضافے سے صرف ٹرانسپورٹ کاشعبہ ہی متاثر نہیں ہوگا بلکہ پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے ملک میں تمام اشیائے صرف کی قیمتوں اور خدمات کی اجرتوں میں اضافہ ہونا لازمی ہے۔ پیٹرول کی قیمت میں فی لیٹر دو ڈھائی روپے کا یہ اضافہ ملک کے 2 سے5 فیصد متمول گھرانوں کے لیے تو معمولی بات ہوگی اور ان گھرانوں میں شایداس اضافے کا نوٹس بھی نہ لیاجائے لیکن پیٹرول اورمٹی کے تیل کی قیمتوں میں یہ اضافہ ملک کے ہر گھر کے بجٹ کو بری طرح متاثر کرے گا اور بڑی تگ ودو کے بعد اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنے والے اس ملک کے 90 فیصد غریب لوگوں کو یاتو جسم وجان کاناطہ برقرار رکھنے کے لیے پہلے سے زیادہ محنت کرنا پڑے گی یا پھر ہفتہ میں ایک آدھ دن فاقہ کرنا پڑے گا۔
اسٹیٹ بینک اور آئی بی اے کی جانب سے کئے گئے ایک حالیہ سروے کی رپورٹ کے مطابق عوام کی اکثریت ذہنی طورپر اس حقیقت کو قبول کرچکی ہے کہ اگلے 6 ماہ ان کے لیے زیادہ کٹھن ثابت ہوں گے کیونکہ اس دوران مہنگائی کی شرح میں کم وبیش 6 فیصد تک اضافے کاخدشہ ہے۔اس سروے جس کو کنزیومر کنفیڈنس انڈیکس کانام دیاجاتا ہے کی اہمیت کااندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ اسٹیٹ بینک اس سروے کی بنیادپر ہی ہر دوماہ بعد بینکوں میں سود کی شرح کاتعین کرتاہے،اس سروے رپورٹ کی اہمیت کااندازہ اس طرح لگایاجاسکتاہے کہ گزشتہ روز اسٹیٹ بینک کی مالیاتی پالیسی کمیٹی نے ملک میں نئی شرح سود کااعلان کرتے ہوئے بتایا کہ اگرچہ اسٹیٹ بینک اور آئی بی اے کے اشتراک سے کئے گئے سروے سے ظاہرہوتاہے کہ عوام اگلے 6 ماہ کے دوران مہنگائی میں اضافے کی توقع رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود مہنگائی کی یہ شرح 6 فیصد سے کم رہے گی۔
جولائی اور اگست کے دوران کنزیومر پرائس انڈیکس کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی دو ماہ یعنی جولائی اور اگست کے دوران مہنگائی کی شرح میں 3.2 فیصد کااضافہ ہواتھا جبکہ گزشتہ سال اسی مدت کے دوران مہنگائی میں اضافے کی شرح 3.8 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی اس طرح ہمارے ماہرین اس کو اپنی کامیابی قرار دیتے ہیں کہ وہ مہنگائی میں اضافے کو گزشتہ سال کی نسب کچھ کم کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔افراط زر چونکہ اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے اہم کردار ادا کرتے ہیں اس لیے ماہرین معاشیات کاخیال ہے کہ اگلے 6 ماہ کے دوران مہنگائی میں کمی ہونے کاکوئی امکان نظر نہیں آتا اور اس کے برعکس قیمتوں میں اضافہ ممکن ہے۔
گزشتہ سال کنزیومر کنفیڈنس انڈیکس کی شرح 165.43 پوائنٹس ریکارڈ کی گئی تھی جس میں تیزی سے اضافہ ہواہے جبکہ جولائی 2017 میں کئے گئے سروے کی رپورٹ میں اس کی شرح 173.81 پوائنٹ بتائی گئی ہے۔کنزیومر کنفیڈنس انڈیکس متوقع اقتصادی صورت حال کی بنیادپر تیار کیاجاتاہے جس میں اگلے 6ماہ کے دوران اقتصادی صورت حال کے بارے میں گھرانوں کی توقعات اور گزشتہ 6 ماہ کی اقتصادی صورت حال کے تناظر میں رواں اقتصادی صورت حال یعنی سی ای سی انڈیکس کاجائزہ لیاجاتاہے۔کنزیومر کنفیڈنس انڈیکس اور رواں اقتصادی صورت حال دونوں کاموازنہ کیاجائے تو یہ ظاہر ہوتاہے کہ دونوں ہی سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اگلے 6 ماہ کے دوران شرح نمو میں اضافہ ہوگا ۔
ٍاس سروے سے یہ بھی ظاہرہوتاہے کہ اس ملک کے عوام رواں اور مستقبل کی اقتصادی صورت حال کے بارے میں کیاسوچتے ہیں،اور افراط زر ،شرح سود اور بیروزگاری کی صورت حال کے حوالے سے ان کے خیالات یاسوچ کیاہے اورخود اپنی آمدنی میں اضافے یا کمی کے بارے میں ان کے اندازے یا توقعات کیاہیں۔
کنزیومر کنفیڈنس سروے میںپورے پاکستان میں مختلف علاقوںمیں ٹیلی فون کے ذریعے مختلف علاقوں کے عوام سے ان کی رائے حاصل کی جاتی ہے،اس سروے کاآغاز جنوری2012 میں کیا گیاتھا اور ہر دوماہ کے وقفے سے یہ سروے کرایاجاتاہے۔حالیہ سروے اسٹیٹ بینک پاکستان اور آئی بی اے کے اشتراک اور تعاون سے مکمل کیاگیاہے۔
اطلاعات کے مطابق اس سروے کے دوران ملک کے مختلف علاقوں اور شہروںکے 1773 گھرانوں کی رائے معلوم کی گئی جس کے بعد اس کو مرتب کیاگیا اس سروے میں 33 فیصد ان لوگوں کو شامل کیاگیا تھا مارچ میں کئے گئے سروے کے دوران جن کی رائے لی گئی تھی جبکہ 67 فیصد نئے لوگوں کوسروے میں شامل کیاگیاتھا ،اس سروے رپورٹ سے مندرجہ حقائق اخذ کئے گئے ۔جس کی بنیاد پر اسٹیٹ بینک نے اپنی پالیسی کی دیوار کھڑی کی ہے۔
اسٹیٹ بینک نے اپنی دوماہی رپورٹ میں مہنگائی اور افراط زر کی شرح میں اضافے کے امکانات تو ظاہرکردئے ہیں لیکن ان کے اثرات زائل کرنے اور ان کی وجہ سے عام آدمی کو پیش آنے والی مشکلات میں کمی کرنے کے اقدامات تجویز کرنے سے گریز کیاگیاہے اور یہ کام وزارت خزانہ کے ماہرین کے لیے چھوڑ دیاہے جن کی جانب سے ابھی تک اس حوالے سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیاہے ۔شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ وزیر خزانہ خود اس وقت احتساب کے گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں اور انھیں یہ یقین ہوچلا ہو کہ اب ان کابچ نکلنا ممکن نہیں ہے اور اگر ان پر فرد جرم عاید کئے جانے کے بعد انھیں سزا سنادی جاتی ہے تو وزارت خزانہ سے ان کاکوئی تعلق ہی نہیں رہے اس لیے کسی ایسے محکمے کی پالیسی سازی میں دماغ کھپانے کاکیا فائدہ جس سے ان کاتعلق ہی ٹوٹنے والا ہو۔ تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ وزارت خزانہ کے دیگر اعلیٰ افسران اور ماہرین معاشیات عوام کو افرط زر کی شرح میں ممکنہ اضافے سے بچنے کے لیے کیا ترکیب بتاتے ہیں یا ان کوریلیف فراہم کرنے کے لیے کیاطریقہ کار اختیار کرتے ہیں۔