... loading ...
پاکستان کی سیاست میں اگر کوئی چالاک اور تیز سیاستدان یا حکمران رہا ہے تو وہ پرویز مشرف ہے کیونکہ پرویز مشرف بیک وقت سچ اور جھوٹ بولنے کے عادی ہیں۔ آرمی چیف بننے سے قبل وہ جس طرح حکومت کو پیغامات دیتے تھے اس سے حکومت کے لیے یہ سوچنا آسان ہوگیا کہ وہ حکومت کے تابعدار بن کر رہیں گے۔ لیکن آرمی چیف بنتے ہی ان کے تیور ہی بدل گئے ۔اور انھوں نے اپنے ساتھیوں کو کسی نہ کسی طرح قائل کرکے اقتدارپرقبضہ ہی کرلیا۔اپنے دور اقتدار میں انھوں نے ایسی باتیں کیں جس پراعتبارکرناہرکسی کے لئے ممکن نہ تھا۔ لیکن ایک طبقہ ایساضرورتھاجوان کی تمام باتوں پریقین رکھتا تھا۔اسی دوران جب امریکا میں نائن الیون کاواقعہ پیش آیاتومشرف نے کمال چالاکی سے ایسا رویہ اختیارکیاکہ پاکستانی عوام اورامریکی قیادت دونوں کوخوش رکھا۔ ان کی تضادبیانی کایہ عالم ہوتاتھا کہ امریکیوں کے روبروایک موقف اختیار کرتے توپاکستانی عوام کے سامنے دوسراموقف رکھ کرانھیں مطمئن رکھنے کی کوشش کرتے ۔ اس طرح پرویزمشرف نے اپنے دورحکومت کے آٹھ سال پورے کرلیے۔
پرویزمشرف پاکستان پرمزید حکومت کرنے کاارادہ رکھتے تھے ۔لیکن سابق وزیراعظم بے نظیربھٹوکی وطن واپسی نے ان کے لیے صورت حال خاصی مشکل بنادی ۔ لیاقت باغ میں بم دھماکے کے دوران بے نظیر بھٹوکی شہادت نے توان کے اقتدارکے خاتمے پرمہرتصدیق ہی ثبت کردی اورانھیں عام انتخابات کرانا پڑے۔یہاں پرویز مشرف سے تھوڑی سی چوک ہوگئی اوربوکھلاہٹ میں شاید ساری چالاکی بھول گئے ۔ اگروہ چاہتے توبے نظیر بھٹوکے قتل کی تحقیقات اورامن وامان کی مخدوش صورت حال کوجوازبناکرعام انتخابات کوایک سال کے لیے ملتوی کرسکتے تھے ۔اس طرح 2008کے عام انتخابات کے نتیجے میں پیپلزپارٹی برسر اقتدار آئی اور پرویز مشرف کے اقتدارکاسورج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔اقتدارسے علیحدگی کے بعد سابق صدربیرون ملک چلے گئے۔ اور تھوڑے عرصے بعد جب وہ وطن واپس لوٹے توان کے لیے دنیا ہی بدل چکی تھی۔ وہ سیاستدان جوان کے دوراقتدارمیں ان کے آگے پیچھے گھوما کرتے تھے انھوں نے اپنی آنکھیں پھیرلیں ۔ عوام کی جانب سے بھی ان کاخاطرخواہ خیرمقدم نہیں کیاگیا جس سے مایوس ہوکروہ ایک بارپھربیرون ملک سدھارگئے۔
گزشتہ دنوں جب راولپنڈی کی خصوصی عدالت نے بینظیر بھٹو قتل کیس کافیصلہ سنایا اوران کے قتل کے الزام میں گرفتار پانچ ملزمان کو رہا کردیا ۔ دو پولیس افسران سعود عزیز اور خرم شہزاد کو سترہ سترہ سال قید کی سزادی اور پرویز مشرف کے لیے الگ کیس چلانے کا حکم دیا تو اس کے بعد خواب غفلت میں ڈوبی ہوئی پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت بھی ہوش میں آئی اورخصوصی عدالت کے فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ کی راولپنڈی بینچ میں چیلنج کرتے ہوئے پرویز مشرف کو سزائے موت دینے کی استدعاکرڈالی اورپی پی پی کی قیادت نے براہ راست پرویز مشرف کوبے نظیربھٹوکے قتل کاذمے دارقراردینا شروع کردیا۔ یہ صورت حال پرویز مشرف کے لیے پریشان کن تھی ۔ ان کا طیش میں آنا فطری عمل تھا۔ اس لیے انھوں نے بھی جوابی وار کرتے ہوئے میڈیاپرایک ویڈیوجاری کردی اوراس میں کہا کہ مرتضیٰ بھٹو اور بینظیر بھٹو کے قتل میں آصف علی زرداری ملوث ہیں دونوں کیسوں میں آصف زرداری کو گرفتار کیا جائے بھٹو خاندان کو تباہ برباد کرنے والا آصف زرداری ہی ہے۔
پرویز مشرف کا ویڈیو بیان کیا آیا کہ بھونچال آگیا۔پیپلزپارٹی کی قیادت میں کھلبلی مچ گئی۔ مرکزی قیادت سے لے کر تحصیل سطح تک اہم رہنماء احتجاج پر اُتر آئے ہیں اور ہر جگہ پرویز مشرف کے خلاف احتجاج کیا جارہاہے۔ اورمطالبہ کیاجارہاہے کہ پرویزمشرف کوبے نظیرکے قتل کے الزام میں گرفتار کیا جائے۔ اس حقیقت سے انکارممکن نہیں کہ پیپلزپارٹی کے اکثر رہنما چاہتے ہیں کہ بینظیر بھٹو قتل کیس کا فیصلہ حقیقی معنوں میں درست سمت میں کیا جائے او راس تحقیقات میں اگر کوئی اپنا بھی ملوث ثابت ہوتو اس کو سزا دی جائے۔ بینظیر بھٹو قتل کیس پاکستانی عوام کے لیے ایک ایسی پہیلی ہے جو دس 10سال گزرجانے کے باوجود بھی بوجھی نہیں جاررہی۔اس کی وجوہات صاف ظاہر ہیں ۔پی پی پی کی قیادت خود بھی اس کیس کے حل میں دلچسپی نہیں لے رہی ہے ۔حتیٰ کہ جو خط بینظیر بھٹو نے 18اکتوبر 2007ء کو وطن واپس آنے سے قبل پرویز مشرف کو لکھا تھا وہ بھی تحقیقاتی اداروں کو نہیں دیا جارہا یوں پاکستان پیپلزپارٹی پانچ سال تک وفاق میں حکومت کرتی رہی اور9سال سے سندھ میں حکومت کے مزے لوٹ رہی ہے۔ لیکن اس نے نہ تو سانحہ 18اکتوبر کی تحقیقات مکمل کی اور نہ ہی سانحہ لیاقت باغ کا کوئی نتیجہ نکلا۔ وفاقی حکومت بھی اس کیس میں اس لیے بھی دلچسپی نہیں لے رہی کیونکہ اس کو پتہ ہے کہ پی پی خود اس کیس سے دور ہے تو پھر نواز لیگ کیوں خود کو مصیبت میں پھنسائے؟مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ پرویز مشرف نے بینظیر بھٹو قتل کیس پر بات کرکے پی پی پی کی دُکھتی رَگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے جس پر وہ چیخ اُٹھے ہیں۔