وجود

... loading ...

وجود

حکومت نے آمدنی کے آسان ذرائع تلاش کرلیے ‘عوام کو بالواسطہ ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبادیا

هفته 30 ستمبر 2017 حکومت نے آمدنی کے آسان ذرائع تلاش کرلیے ‘عوام کو بالواسطہ ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبادیا

حکومت نے تاجروں ،صنعت کاروں اوربااثر وڈیروں اور زمینداروں سے ٹیکس وصولی میں ناکامی کے بعد آمدنی کے آسان ذرائع تلاش کرلیے ہیں اور اس طرح ضروریات زندگی کے 8 شعبوں کو ہدف بناکر عوام کو بالواسطہ ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبادیاہے۔ اس بات کاانکشاف ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس وصولی کے اعدادوشمار اور مختلف شعبوں سے وصول کئے جانے والے ٹیکسوں کی مجموعی مالیت کے گوشواروں پر نظر ڈالنے سے ہوا ، حکومت کے لیے من چاہا ٹیکس وصولی کا سب سے بڑا ذریعہ پیٹرولیم اور قدرتی گیس ہے۔
ایف بی آر کے ٹیکس وصولی کے ریکارڈ سے ظاہرہوتاہے کہ حکومت نے زبردستی اور من چاہا ٹیکس وصولی کے آسان اہداف کے طورپر ضروریات زندگی سے تعلق رکھنے والے جن 8شعبوں کاانتخاب کیا ہے یا جن 8شعبوں کوہدف بنایا ہے ان کے ذریعہ حکومت نے گزشتہ مالی سال کے دوران مجموعی طورپر ایک کھرب 10 روپے سے زیادہ رقم جمع کی ،اس طرح یہ کہاجاسکتاہے کہ وزیر خزانہ کی ایما پر ایف بی آر نے غریب عوام کی جیب پر ڈاکہ مار کر ایک کھرب 10 ارب روپے کی خطیر رقم جمع کرلی۔
ایف بی آر کے ریکارڈ کے مطابق بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے جمع کی جانے والی ایک کھرب 10 ارب روپے کی اس رقم میں سے 498 ارب90 کروڑ روپے صرف پیٹرولیم پر عاید ٹیکسوں اور ڈیوٹیز کی وصولی کے ذریعہ جمع کیاگیا۔یہ رقم ایف بی آر کی جانب سے پورے ملک سے سیلز ٹیکس، کسٹمز ڈیوٹیز اوروفاقی ایکسائز ٹیکس کی مد میں جمع کی جانے والی رقم کے ایک چوتھائی یعنی 25 فیصد کے مساوی ہے ۔ ایف بی آر کی جانب سے پورے ملک سے سیلز ٹیکس، کسٹمز ڈیوٹیز اوروفاقی ایکسائز ٹیکس کی مد میںایک کھرب 11 ارب روپے جمع کئے جو کہ ایف بی آر کی جانب سے 2016-17 کے دوران بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعہ جمع کی جانے والی مجموعی آمدنی یعنی 2 کھرب 10 ارب روپے کے 55.2فیصد کے مساوی ہے۔اس حوالے سے سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ گزشتہ مالی سال کے دوران مجموعی طورپر بالواسطہ ٹیکسوں کی مد میں جمع کی جانے والے2 کھرب 10 ارب روپے کی پاکستان کی مجموعی آمدنی کے 63.8 فیصد کے مساوی ہے۔یہ بالواسطہ ٹیکس دراصل معیشت کے فروغ یعنی بڑھوتری کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں اور ان کی وجہ سے پاکستان میں تیار کی جانے والی مصنوعات عالمی منڈی میں دیگر ممالک کی اشیا کے ساتھ مقابلے کی سکت کھوبیٹھتی ہیں۔
ایف بی آر کے ریکارڈ کے مطابق حکومت نے ٹیکس وصولی کے جو 8آسان اہداف تلاش کئے ہیں ان میں پیٹرولیم کے علاوہ گاڑیاں، آئرن اور اسٹیل۔میکانیکل آلات،سگریٹ، الیکٹریکل مشینری ، سیمنٹ اور مشروبات شامل ہیں ،ان 8 شعبوں سے وصول کئے جانے والے ٹیکسوں اور ڈیوٹیز کی رقم ملک میں ٹیکسوں کی مد میں وصول کی جانے والی مجموعی آمدنی 3کھرب 36 ارب 10 کروڑ کے ایک تہائی کے مساوی ہے۔
ایف بی آر کی جانب سے بالواسطہ ٹیکس وصولی کے ذریعہ ٹیکس وصولی کے اہداف کو پورا کرنے کے اس طریقہ کار سے ملک میں ٹیکسوں کے نظام میں موجود خامیوں اور ناانصافیوں کا پتہ چلتا ہے،اور یہ ظاہرہوتاہے کہ چند ایسے شعبے جو اپنی آمدنی چھپا نہیں سکتے پوری معیشت کا بوجھ برداشت کررہے ہیں۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اگرچہ مذکورہ بالا 8شعبے معیشت کابوجھ اٹھارہے ہیں اور ملک میں وصول کئے جانے والے مجموعی ٹیکس کا 55 فیصد حصہ ان شعبوں کے ذریعہ ہی آرہا ہے لیکن اس کے باوجود خود ان شعبوں میں ٹیکس وصولی میں بہت ساجھول اور خامیاں موجود ہیں جس کی وجہ سے ان شعبوں سے بھی اتنی رقم وصول نہیں کی جارہی ہے جتنی حاصل کی جاسکتی ہے۔مثال کے طورپر تمباکو کے شعبے میں ٹیکسوں کی چوری کی وجہ سے حکومت ہر سال کم وبیش 50 ارب روپے کی آمدنی سے محروم ہوجاتی ہے۔
پارلیمنٹ نے2016-17 کے دوران ایف بی آر کو3کھرب62 ارب10 کروڑ روپے ٹیکس وصولی کاہدف دیاتھا لیکن ایف بی آر یہ ہدف پورا کرنے میں ناکام رہا ہے اور صرف 3 کھرب 36 ارب10 کروڑ روپے جمع کرنے میں کامیاب ہوسکا۔اس طرح قومی خزانے کو متوقع آمدنی سے 259 ارب روپے کی کمی کاسامنا کرنا پڑا۔
مختلف شعبوں سے مطلوبہ ٹیکس وصولی میں ناکامی کی بنیادی وجوہات مناسب ڈاکومنٹیشن یعنی خریدوفروخت کے باقاعدہ ریکارڈ کا نہ ہونا، کرپشن اور ٹیکس چوری کے لیے اختیار کئے جانے والے مختلف حربے شامل ہیں جن میں سرفہرست رشوت اور کرپشن ہے۔موجودہ وزیر خزانہ نے ٹیکس جمع کرانے میں آسانی پیدا کرنے اور اس طرح ٹیکسوں کی آمدنی میں اضافہ کرنے کے لیے سنگل ا سٹیج اور سنگل ڈیجٹ ٹیکس کا نظام متعارف کرایا تھا لیکن اچانک یہ نظام ترک کردیاگیا۔ملک میں اس وقت ٹیکس وصولی کے مجموعی طورپر7طریقوں پر عمل کیاجاتاہے ان میں سے 4 طریقے سیلز ٹیکس، کسٹمز ڈیوٹی، انکم ٹیکس اوروفاقی ایکسائز ٹیکس براہ راست ٹیکس ہیں اس کے علاوہ ٹیکس وصولی کے 3بالواسطہ طریقوں پر بھی عمل کیا جاتاہے جن میں اوپر بیان کردہ طریقے شامل ہیں۔
پیٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس، کسٹم ڈیوٹی اوروفاقی ایکسائز ٹیکس کے نام جو ٹیکس عاید کئے گئے ہیں ان کے ذریعہ حکومت کو سالانہ کم وبیش ملک میں ٹیکس کی مد میں ہونے والی آمدنی کا 24.7 فیصد حصہ وصول ہوجاتاہے،گزشتہ سال حکومت کو ٹیکسوں کی مجموعی آمدنی میں سے پیٹرولیم مصنوعات کے ذریعہ ہونے والی آمدنی کا تناسب 14.8 فیصد تھا،اس طرح پیٹرولیم مصنوعات حکومت کی آمدنی کا سب سے بڑا اور آسان ذریعہ ہیں،حکومت کو گزشتہ مالی سال کے دوران پیٹرولیم مصنوعات کی فروخت سے صرف سیلز ٹیکس کی مد میں 225.8 ارب یعنی 225 ارب80 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی تھی جو کہ ملک بھر سے سیلز ٹیکس کی مد میں حاصل ہونے والی مجموعی آمدنی کے 36 فیصد کے مساوی تھا۔حکومت نے پیٹرولیم کی درآمد کے مرحلے میں 212 ارب روپے وصول کئے جو کہ برآمدی اشیا پر وصول کئے جانے والے سیلز ٹیکس کی کل رقم کے 30.5 فیصد کے مساوی تھے۔اس کے علاوہ حکومت نے اس شعبے سے کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں 61 ارب روپے وصول کئے جو کہ گزشتہ مالی سال کے دوران پورے ملک سے وصول کی جانے والی کسٹمز ڈیوٹی کی مجموعی رقم کے 12.3 فیصد کے مساوی تھی۔
حکومت نے گزشتہ مالی سال کے دوران ہر طرح کی گاڑیوں کی فروخت پر مجموعی طورپر 147.4 ارب روپے یعنی 147 ارب40کروڑ روپے وصول کئے جو کہ ملک بھر سے وصول کئے جانے والے بالواسطہ ٹیکسوں کے 7.3 فیصد کے مساوی تھے۔لوہا اورفولاد حکومت کے لیے ٹیکس وصولی کا تیسرا آسان ہدف ہے اس شعبے سے حکومت نے گزشتہ مالی سال کے دوران مجموعی طورپر بالواسطہ ٹیکسوں کی مد میں101 ارب روپے وصول کئے۔جوکہ ملک بھر سے وصول کئے جانے مجموعی بالواسطہ ٹیکسوں کے 5 فیصد کے مساوی ہے۔میکانیکل آلات پر حکومت نے گزشتہ مالی سال کے دوران بالواسطہ ٹیکسوں کی مد میں 98.5 ارب روپے یعنی ساڑھے98 ارب روپے جمع کئے جوکہ مجموعی بالواسطہ ٹیکسوں کے 4.9 فیصد کے مساوی تھے۔ملک میں سگریٹ کی فروخت سے حکومت کو بالواسطہ ٹیکسوں کی مد میں مجموعی طورپر 84.4 ارب روپے کی آمدنی ہوئی۔جوکہ حکومت کو بالواسطہ ٹیکسوں سے ہونے والی آمدنی کے4.2 فیصد کے مساوی تھی۔تمباکویا سگریٹ سازی اور فروخت کے شعبے سے حکومت کو سیلز ٹیکس کی مد میں بھی18 ارب اور وفاقی ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں66.4 ارب روپے یعنی66ارب 40 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی۔حکومت کوتمباکو کے شعبے سے حاصل ہونے والی یہ آمدنی اس سے پہلے سال کے مقابلے میں کم تھی جس سے ظاہر ہوتاہے کہ اس شعبے میں ٹیکسوں کی چوری کی شرح میں اضافہ ہواہے۔الیکٹریکل مشینری کے شعبے سے درآمدی مرحلے میں حکومت کو 76 ارب روپے کی آمدنی ہوئی جوکہ ملک کی مجموعی آمدنی کے 3.8 فیصد کے مساوی تھی اس کے ساتھ ہی حکومت کو اس شعبے سے سیلز ٹیکس کی مد میں بھی 50 ارب روپے اور کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں 26 ارب روپے کی آمدنی ہوئی۔سیمنٹ کے شعبے سے حکومت کو سیمنٹ کی فروخت سے 66.6 ارب یعنی 66 ارب 60 کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی جوکہ حکومت کی مجموعی آمدنی کے 3.3 فیصد کے مساوی ہے،جبکہ حکومت کو اس شعبے سے وفاقی ایکسائز ڈیوٹی کی مد مین 36.8 ارب روپے یعنی36 ارب80کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی۔مشروبات کے شعبے سے حکومت کو گزشتہ مالی سال کے دوران مجموعی طورپر 41.7بلین روپے یعنی 41ارب70کروڑ روپے کی آمدنی ہوئی جبکہ ایف بی آر نے اس شعبے سے سیلز ٹیکس کی مد میں 8.9 بلین روپے یعنی8 ارب 90 کروڑ روپے اوروفاقی ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں 22.5 بلین روپے یعنی 22 ارب 50 کروڑ روپے وصول کئے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر