... loading ...
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ ویسے تو بڑے سرگرم رہتے ہیں لیکن ان کی قابلیت، ذہانت اور محنت اس وقت رائیگاں چلی جاتی ہے جب ان کے پیروں میں پارٹی قیادت کی زنجیر ڈالی جاتی ہے تب وہ کسی کے سامنے احتجاج تک نہیں کرسکتے ہیں ‘صرف اپنی بے بسی کا رونا روتے ہیں۔ مرادعلی شاہ پچھلے ڈیڑھ برس سے سندھ کے وزیراعلیٰ ہیں لیکن ان ڈیڑھ برسوں میں ان کودرجنوں امتحانات کاسامنا کرنا پڑااور ایسے اقدامات اٹھانا اور فیصلے کرنا پڑے جو ان کی سوچ، فطرت اور پالیسی کے برعکس تھے ۔ نہ چاہتے ہوئے بھی انھوں بعض ایسے فیصلے کیے جس سے ان کے ضمیر کو پریشانی ہوئی۔ لیکن ان کو بھی شاباش ہو کہ انہوں نے چوں تک نہیں کی۔
انہوں نے کچھ عرصے قبل اعلان کیاتھا کہ 2018ء کا الیکشن ان کا آخری الیکشن ہوگا ۔لیکن اب لگتا ہے کہ شاید ایسا ہو کہ وہ 2018ء کے الیکشن میں حصہ بھی نہ لے سکیں ۔آئندہ الیکشن میں مرادعلی شاہ کے حصہ نہ لینے کی وجہ صاف ظاہربھی ہے۔کیونکہ انھیں بطوروزیراعلی وہ سب کام کرنا پڑرہے ہیں جو ان کی فطرت کے خلاف ہیں۔ وہ بھلا کب تک کٹھ پتلی بنے رہیں گے وہ بار بار پارٹی قیادت کے سامنے کہتے ہیں کہ ان کو آزادانہ کام کرنے دیا جائے ان کے کام میں رکاوٹیں نہ ڈالی جائے اور ان سے نتائج لیے جائیں وہ کہتے ہیں کہ مجھے ہر قدم پر روکا جاتا ہے اور مجھے کام نہیں کرنے دیا جاتا۔ آخر اس کا کیا حل ہے؟۔
وزیراعلیٰ سندھ کے لئے دو امتحان ایسے تھے کہ وہ ان سے ذہنی طورپر گزرنے کے لئے قطعی تیار نہ تھے پہلا امتحان درگاہ لال شہباز قلندر پر خودکش حملہ تھا جس میں 90 افراد شہید اور 300 زخمی ہوئے تھے ۔دھماکہ کے بعد مرادعلی شاہ باوجود لاکھ کوشش کے صبح چار بجے سے پہلے فارغ نہ ہوسکے ( اس کی وجہ سے بھی اخبارات کے ذریعے ہرخاص وعام پوری طرح آگا ہ ہے)اس لیے وزیراعلی سندھ صبح ہی سیہون پہنچ سکے ۔اس صورت حال نے انھیں خاصہ بد دل کیا۔ اس کے بعد سیہون میں جب میڈیانے ان پرسوالات بوچھاڑکی توکوئی تسلی بخش جواب تک نہ دے سکے۔یہ قصہ توپرانا ہوگیا۔حالیہ دنوں میں تانیہ خاص خیلی قتل کی صورت ایک نیاامتحان وزیراعلی سندھ کے ابھرکرسامنے آیاہے۔
تانیا خاصخیلی کو ایک جرائم پیشہ شخص خان محمد نوحانی عرف خانو نوحانی نے صرف اس وجہ سے قتل کردیا کہ تانیا نے اس شادی شدہ شخص سے شادی کرنے سے قطعی انکار کردیا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ خانو حانی پہلے سے شادی شدہ اورتانیا سے 20 سال بڑا تھا اور دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ خاندانی طورپر جرائم پیشہ تھا۔ تانیا کو لاوارث سمجھ کر قتل کیا گیا ان کی نعش تین چار گھنٹے تک پڑی رہی ۔خانو نوحانی اس وجہ سے بے فکر تھا کیونکہ وہ رکن سندھ اسمبلی سید غلام شاہ کا خاص آدمی تھا اور ان کا رکن قومی اسمبلی ملک اسد سکندر سے بھی یارانہ تھا اس وجہ سے وہ قتل کرنے کے بعد سکون سے کراچی، حیدرآباد، جامشورو میں رہنے لگا۔ جب سوشل میڈیا نے دبائو ڈالا، میڈیا نے روزانہ اس ایشو کو اٹھایا تو حکومت سندھ مجبور ہوگئی اور پولیس کو یہ حکم دیا کہ ملزم کو گرفتار کیا جائے۔ایس ایس پی جامشورو عرفان بہادر نے جب وزیراعلیٰ سندھ اور آئی جی سندھ پولیس کے احکامات پر چھاپے مارے تو خانو نوحانی کے قریبی رشتہ دار پکڑلیے اور پھر سخت دبائو کے بعد بالآخر خانو نوحانی کو بھی پکڑلیا گیا۔ یوں اس پورے واقعے ملوث ملزمان پکڑے جاچکے ۔
لیکن بات یہیں پرختم نہیں ہوتی ‘ خانو نوحانی کی گرفتار ی کیا ہوئی بھونچال آگیا۔ سید غلام شاہ سید پہلے تانیا خاصخیلی کے ورثاء کے پاس گئے جہاں ان سے لوگ عقیدت سے ملے ان کے پائوں پڑگئے ان کے ہاتھ چومتے رہے ان کا جوتا اپنے ہاتھوں سے اتارا۔ ان کو چارپائی پر بٹھایا اور خود زمین پر بیٹھ گئے ملک اسد سکندر بھی ’’تعزیت‘‘ کے لئے گئے یہ وہ پیغام تھا جو ورثاء کو دیا گیا کہ وہ خاموش رہیں اس کے عوض ان کو چند لاکھ روپے مل جائیں گے یوں خانو نوحانی کی جان بخشی ہوجائے گی اور سوشل میڈیا یا پھر پرنٹ الیکٹرانک میڈیا ہاتھ ملتا رہ جائے گا۔ اس وقت تو خانو نوحانی کی تفتیش ہورہی ہے لیکن اندرون خانہ ورثاء سے کہا جارہا ہے کہ وہ چند لاکھ روپے لے کر خاموش ہوجائیں شاید وزیراعلیٰ بھی خاموش رہ جائیں اور تانیا کا خون رائیگاں جائے۔