... loading ...
پاکستان کا گلاسٹرا سیاسی نظام آخری ہچکیاں لے رہا ہے نااہلی اور ناکارہ حکمران اور سیاستدان گزشتہ 70 سال سے ملک میں سیوریج کا نظام تک درست نہیں کرسکے۔ کراچی کچرے اور گندگی کا ڈھیر بن چکا ہے۔ حالیہ بارشوں نے حکمرانوں کے دعووں کی قلعی کھول دی ہے۔ میئر کراچی اپنے انتخاب کے بعد سات ماہ تک تو جیل میں بند رہے۔ اب کہتے ہیں کہ ان کے پاس مالیاتی اور بلدیاتی اختیارات نہیں ہیں‘ سب کچھ سندھ حکومت نے چھین کر قبضہ کرلیا ہے۔ عروس البلاد اور روشنیوں کا شہر کہلانے والا کراچی بدبو مار رہا ہے۔ مچھروں کی افزائش کے لیے بہترین چراگاہ بن گیا ہے۔ ڈینگی اور چکن گونیا جیسے امراض نے وبائی شکل اختیار کرلی ہے۔ سندھ فتح کرنے والے انگریز فاتح سرچارلس نیئپر نے کراچی کو’’مشرق کا موتی‘‘ قرار دیا تھا۔ آزادی کے بعد دیسی حکمرانوں کی نااہلی‘ کرپشن ‘قبضہ گیری اور بد عنوانیوں سے یہ چمکتا موتی ناکارہ پتھر بن گیا ہے۔
دبئی کی ترقی کا راز یہ بھی ہے کہ یہاں سیوریج ‘صفائی اور ٹریفک کا نظام مثالی ہے۔ رات گئے بھی گاڑیاں چلانے والے ٹریفک سگنل کا اس وقت بھی پورا خیال رکھتے ہیں جب سڑک دور دور تک بالکل خالی پڑی ہوتی ہے۔ پاکستان میں یہ دونوں شعبے تباہی کا شکار ہیں ۔کسی دانا نے کہا تھا کہ کسی قوم کا مزاج جاننا ہوتو وہاں کا ٹریفک اور سیوریج کا نظام دیکھ لو پاکستان میں یہ دونوں شعبے برباد ہوچکے ہیں۔ دبئی میں جگہ جگہ مردوں اور مستورات کے لیے ’’واش روم‘‘ کی سہولت موجود ہے۔ پاکستان میں یہ شے عنقا ہے۔ بالخصوص خواتین تو اس معاملے میں بالکل ہی محروم ہیں‘ بڑے بڑے بازاروں اور مارکیٹوں میں انہیں یہ سہولت دسیتاب نہیں ہے۔ حکومتوں نے غیر ملکی مالیاتی اداروں سے قرضوں پر قرضے حاصل کئے۔ موجود وزیر خزانہ اسحاق ڈار تو آئی ایم ایف سے قرضے کی ہر نئی قسط پر پھولے نہیں سماتے تھے اور اسے اپنا کارنامہ گنواتے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے غریب قوم پر 38 ارب ڈالر قرضے کا مزید بوجھ چڑھا دیا۔ غیر ملکی قرضوں پر کمیشن تو حکمرانوں نے کھایا اور ادا پوری قوم کرے گی۔ ہر پاکستانی ایک لاکھ روپے کا مقروض ہوچکا ہے 2008 کے پرویز مشرف دور کے اختتام تک جو قرضہ 36 ارب ڈالر تھا وہ 83 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس خطیر قرضے کے باوجود ملک اور بالخصوص کراچی میں سیوریج کا نظام تک درست نہیں کیا گیا ہے چاروں طرف پھیلی اس گندگی نے ذہنوں کو بھی پرا گندہ کردیا ہے۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوگئی۔ لاہور کے حلقہ 120 کے ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان چور اور ڈاکو کا شور مچاکر تھک گئے‘ 29 ہزار ووٹوں کو مسترد کرنے کا معاملہ بھی آیا لیکن ووٹرز نے اسحاق ڈار کی سمدھن بیگم کلثوم نواز کو منتخب کرلیا۔ شخصیت پرستی کے سحر میں مبتلا قوم کے لیے برے بھلے کی تفریق مشکل ہوگئی ہے۔ شہروں اور دیہاتوں میں پھیلی گندگی سیاست میں گھس آئی ہے۔ کسی صحافی نے چین کے صدر سے پوچھا کہ آپ کی ترقی کا کیا راز ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے تین سال کے دوران 300 کرپٹ وزیروں کو پھانسی دی ہے۔ یہی راز ہے۔
پاکستان کے دو سابق صدور ایک دوسرے کو قاتل قرار دے رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف کرپشن کے الزام میں نااہل ہوچکے ہیں۔ قومی احتساب بیورو اور عدالتیں ان کا تعاقب کررہی ہیں ۔ سیاستدان ایک دوسرے کو چور‘ ڈاکو اور قاتل قرار دے رہے ہیں۔ سابق صدر پاکستانی جنرل(ر) پرویز مشرف اقتدار سے علیحدگی کے بعد دس سال تو خاموش رہے‘ پھر اچانک انہیں خیال آیا کہ بے نظیر بھٹو اور ان کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کو آصف علی زرداری نے قتل کرایا ہے۔اس کے لیے انہوں نے ایک بڑی خوبصورت سے کہانی بھی پیش کی۔ پہلے ان کا ویڈیو بیان وائرل ہوا۔ پھر پاکستانی میڈیا کے ہاتھ لگ گیا۔ انہوں نے بے نظیر بھٹو کی شہادت میں طالبان لیڈر بیت اﷲ محمود کا ہاتھ بتایا جنہوں نے کابل میں بیٹھ کر اپنے آدمیوں سے یہ واردات کرائی۔ ان5 افراد کو گزشتہ دنوں جیل سے رہا کردیا گیا ہے۔ پرویز مشرف کے ذہن میں قتل کا سلسلہ کابل سے جوڑتے وقت شاید پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کا قتل بھی تھا۔ جن کے قتل کے لیے کابل سے کرائے کا قاتل سید اکبر درآمد کیا گیا تھا۔ اتفاق ہے کہ قتل کی یہ واردات بھی راولپنڈی میں انجام پائی۔ لیاقت علی خان بھی جلسہ عام سے خطاب کررہے تھے کہ دوران تقریر سید اکبر نے گولی چلادی اس کے گولی چلاتے ہی اس کے ساتھ بیٹھے سیکورٹی افسر نے سید اکبر کو گولی مارکر ہلاک کردیا جو ڈی آئی جی اس ہائی پروفائل قتل کی تحقیقات پر مامور ہوا اس کا جہاز تحقیقاتی رپورٹ سمیت راولپنڈی سے کراچی آتے ہوئے حادثہ کا شکار ہوگیا۔ یوں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کا قتل تاریخ کے قبرستان میںدفن ہوگیا۔
سابق صدر پرویز مشرف نے بھی اپنی کہانی میں دونام جوڑے ہیں‘ ایک خالد شہنشاہ جو کراچی کا گینگسٹر تھا۔ بے نظیر بھٹو کے قتل کے وقت ان کی جیپ میں سوار تھا اور بعدازاں پر اسرار طور پر مارا گیا ۔دوسرا نام بلال شیخ کا ہے جو گرومندر کراچی سے گزرتے ہوئے ہلاک کردیا گیا ۔پرویز مشرف نے اپنی کہانی میں جو تانے بانے بنے ہیں۔ ان کی بنیاد پر آصف علی زرداری کو ذمہ دار ٹھرایا ہے لیکن دوسرے ہی دن آصف علی زرداری اور ان کو صاحبزادی آصفہ بھٹو نے اپنے ٹوئیٹ کے ذریعے انہیں آڑے ہاتھوں لیا ان کا اشارہ ملنا تھا کہ چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی اور پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار کھوڑو سے لے کر دیگر رہنماؤں تک سب نے پرویز مشرف کی سمت منہ کرکے ’’قاتل قاتل‘‘ کا شور مچانا شروع کردیا۔ پرویز مشرف کی پارٹی ابھی بہت چھوٹی اور نو زائیدہ ہے۔ ان کے پاس پیپلز پارٹی جتنے منہ اور زبانیں نہیں ہیں لہٰذا پروپیگنڈے کی جنگ میں وہ کمزور پڑرہے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے ان کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں تین درخواستیں دائر کی ہیں اور انہیں بے نظیر بھٹو کے قتل میں پھانسی دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کی خوش قسمتی ہے کہ مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے وقت وہ فوج میں بریگیڈیئر تھے سیاست میں نہیں تھے ورنہ یہ الزام بھی ان کے سر آسکتا تھا۔الزامات کی سیاست میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ایک دوسرے پر خوب کیچڑ اچھالی جاسکتی ہے۔ پاکستان میں تو سیاستدانوں کا یہ محبوب مشخلہ ہے۔
ایم کیو ایم کے بانی قائد الطاف حسین کو سیاست سے الگ کرکے لندن بیٹھنے پر مجبور کردیا گیا تو وہ پاکستان اور اس کے اداروں ہی کے خلاف ہوگئے۔ سوشل میڈیا پر ان کی پاکستان مخالف تقاریر عام ہیں۔ یہ ساری صورتحال ہمیں تباہی کی سمت لے جارہی ہے۔ بے نظیر بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کل تھے آج نہیں ہیں لیکن پاکستان کے 22 کروڑ عوام ایک زندہ حقیقت ہیں۔ انہیں روٹی‘ کپڑا‘ مکان‘ روزگار‘ سکون‘ تحفظ‘ سلامتی اور تعلیم درکار ہے۔ پرویز مشررف اور آصف علی زرداری ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے رہیں لیکن جانے والے چلے گئے اور لوٹ کر واپس نہیں آئیں گے۔ پاکستان کے عوام آج کے دن موجود ہیں۔ ان کے لیے ملک کو ایک اچھا اور کار آمد نظام مملکت درکار ہے جس سے ان کی ترقی وخوشحالی کی راہیں کھل سکیں۔ ایک عدالتی کمیشن تشکیل دیا جائے جو تمام معاملات کی تفتیش اور تحقیقات کرے اور آپس میں دست وگریباں سیاستدانوں کو گھر بٹھا دے اور ملک میں ایک اچھے نظام کی بنیاد رکھ دے۔ فوج کی طاقت سے یہ معاملہ حل ہوسکتا ہے پاکستان میں صنعتی اور زرعی ترقی کے بانی صدر جنرل ایوب خان مرحوم نے پرا وڈا اور ایبڈو کے ذریعے باہم برسرپیکار سیاستدانوں کو گھر بٹھایا تھا اور دس سال بعد 1970 میں عام انتخابات ہوئے تو ان میں سے کوئی بھی کامیاب نہیں ہوا تھا۔ ملک میں ایک مرتبہ پھر ایسے ہی سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔ 2018 کے انتخابات قریب ہیں۔ لٹیرے سیاستدان للچائی ہوئی نظروں سے پاکستان کے با قیماندہ وسائل بھی لوٹنے کے چکر میں ہیں۔ کیا اقتدار کی میوزیکل چیئر کا کھیل اسی طرح سے جاری رہے گا؟