وجود

... loading ...

وجود

افغانستان!ماضی،حال مستقبل

بدھ 20 ستمبر 2017 افغانستان!ماضی،حال مستقبل

(گزشتہ سے پیوستہ)
اس وقت دنیا دو بلاکوں کے اندر تقسیم تھی۔ امریکا نے بھی اس جنگ میں اشتراکیوں کو شکست سے دو چار کرنے کے لیے تین سال بعد شرکت کی۔مسلمان علماءنے اس جنگ کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیاکے مسلمان اس جہاد میں شریک ہونے کے لیے افغانستان میں آنے لگے ۔دنیا کے مسلمان ملکوں کے لوگوں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق اس جہاد میں حصہ لیا۔مگر یہ تاریخی جنگ افغانیوں نے خود لڑی۔ لاکھوں شہید ہوئے اور اپاہچ اورمعذور بھی۔ لاکھوں نے پڑوسی ملک پاکستان اور دنیا میں مہاجرت کی زندگی اختیار کی۔ بلا آ خر روس کو شکست ہوئی ۔افغانی اب تک حالت جنگ میں ہیں مگر زندہ ہیں ۔تاریخ گواہ ہے کہ افغان کبھی بھی محکوم نہیں رہے۔ کیونکہ کہسار باقی افغان باقی ۔اس فتح میں کلیدی کردار جہاد فی سبیل اللہ ، مسلمانوں کے اتحاد اور اسٹنگر میزائل نے ادا کیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمانا کے اگر میں ایک گروہ کو دوسرے گروہ سے شکست نہ دیتا رہوں تو یہ دنیا ظلم سے بھر جائے گی۔
اس جنگ میں بہت سے معجزے وقوع پزیر ہوئے۔ راقم کو ایک واقعہ یاد ہے روس کا ایک حاضر سروس جنرل جس کی اسٹوری فوٹو کے ساتھ ایک کراچی کے اخبار نے شائع کی تھی۔ وہ تاشقند کی مسجد میں اذان دے رہا ہے ۔اس سے پوچھا گیا یہ کس طرح ہوا ،آپ حاضر سروس جنرل ہیں آپ کا کورٹ مارشل ہو سکتا ہے۔ اس نے کہا پرواہ نہیں ۔ اس نے اپنے بیان میں کہا کہ میں ایک متعصب عیسائی روسی جنرل تھا۔ میں نے افغانستان میں حرکت کرنے والی کوئی چیز نہ چھوڑی تھی سب پر بم گراتا تھا ۔ایک دفعہ چند افغان مسلمان قیدی میرے سامنے پیش کیے گئے ۔میں نے سوچا جس طرح عام قیدی ہوتے ہیں اس طرح یہ بھی ہونگے۔ لیکن میں حیران رہ گیا کہ وہ بے خطر مجھے اسلام کی تبلیغ کرنے لگے ۔میرے اندر سے ایک ا نسان جاگ اٹھا اور میں ایمان لے آیا۔
دنیا نے افغانوں کے خون کی وجہ سے سفید ریچھ سے نجات حاصل کی۔ اس جنگ کے نتیجے میں مشرقی یورپ کی کئی ریاستیں آزاد ہوئیں ۔ دیواربرلن ٹوٹی اور وہ علاقے جو ترک مسلمانوں سے چھینے گئے تھے ،چھ اسلامی ریاستوں قازقستان ، کرغیزستان،اُزبکستان،ترکمانستان، آزربائیجان ، اور تاجکستان کی شکل میں آزاد ہوئیں ۔پھردنیا کے چالیس ملکوں کے نیٹو اتحادی ،امریکااور پاکستانی لاجسٹک سپورٹ کے ساتھ افغانستان پر حملہ ہوئے۔ ظلم کی داستان شروع ہو گئی ہے بلگرام اور گوانتا موبے جیل کے قید ی ان ظلموں کی داستا نیں سنا رہے ہیں ۔ پاکستان کے سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے ایک فون کال پر امریکا کے سارے مطا لبات مان لیے ۔جبکہ امریکی خود اپنی کتابوں میں لکھ رہے ہیں کہ ہم تو سمجھ رہے تھے تین چار مطالبات مانے جائیں گے مگر پاکستانی کمانڈو جنرل نے سارے کے سارے مطالبات مان لیے۔ امریکا نے تمام افغانستان کو نیست ونابود کر دیا ہے۔ اب پھرامریکا نے بھارت، شمالی اتحاد اور قوم پرست افغانیوں کو ملا کر پاکستان دشمن اشرف غنی حکومت پر قائم کر دی ہے۔ افغانستان سے پھر پہلے کی طرح پاکستان پر دہشت گرد حملے ہو رہے ہیں ۔
ا مریکا افغانستان سے فرار کے راستے تلاش کر رہا ہے اور اب امریکا اپنی جنگ کو پاکستان میں لے آیا ہے۔پہلے روس اب امریکا پاکستان کو دھمکی دے رہا ہے۔ڈو مور کی رٹ لگا کر افغان طالبان سے لڑنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔ اگر40 ملکوں کی نیٹو اتحادی فوجیں افغان طالبان سے نہیں لڑ سکیں اور ا یک ایک کرکے افغانستان سے نکل گئیں تو پاکستان کی فوج افغان طالبان سے کیوں لڑے۔ افغان طالبان اپنے ملک پر قابض امریکی فوج سے لڑ رہے جو ان کا حق ہے۔پاکستان غیرجانبدارر ہے۔افغان طالبان جانیں اور امریکا جانیں ۔پاکستان کی مجبوریوں کے باوجودافغان طالبان پاکستان کے دوست تھے اور اب بھی ہیں ۔ دو دن پہلے افغانستان کے علمائے اتحاد نے پاکستان کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ امریکا کی افغان جنگ کی وجہ سے ہمارے ملک کو اربوں ڈالر کانقصان پہنچ چکا ہے ڈرون حملے ہوئے۔ خودکش حملے ہو رہے ہیں ۔ نیٹو کنٹینرز کی وجہ سے ہماری سڑکیں تباہ ہو رہی ہیں ،غیر ملکی جاسوس ہمارے ملک میں انسانیت دشمن کاروائیاں کر تے رہے۔ بلیک واٹر دہشت گرد تنظیم ملک دشمن کاروائیاں کر رہی ہے۔ پاکستان کے دفاعی اداروں ، ایئر پورٹ، مساجد،امام بارگاہیں ، بزرگوں کے مزار ات، ہمارے بازار، کرکٹ میچ کے مہمان،ہمارے سیاسی لیڈر اور ان کے بچے، ہمارے مذہبی رہنما،ہماری بچیوں کے اسکول، کیاکچھ ہے جو تباہ نہ ہو گیا ہو؟ اس پر بھی صلیبی امریکا خوش نہیں ہے ڈو مور ڈومور کی رٹ لگا رہے ہیں ۔
ہمارے سپہ سالار نے امریکی صدر ٹرمپ کی دھمکی کا صحیح جواب دیا ہے کہ دنیا ہماری قربانیوں کو تسلیم کرے اور اب پاکستان نہیں دنیا ڈو مور کرے۔ ہم افغان جنگ کو پاکستان میں نہیں لا سکتے۔یہ سب کچھ کیوں ہے ؟ اس لیے ہے کہ ہم اللہ کے فرمان کہ یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے دوست ہرگز نہیں ہو سکتے جب تک مسلمان ان جیسے نہ ہو جائیں ۔اس لیے ہماری درد مندانہ گزارش ہے کہ امریکا سے دوستی ختم کریں ، گزشتہ حکومت کی پارلیمنٹ کی قرارداد ا ور دفاعی کمیٹی کی سفار شات اور آل پارٹیزکانفرنس کے اعلامیہ پر عمل کریں اور اپنی خارجہ پالیسی تبدیل کریں ۔
اگرجہادافغان کے ثمرات کی بات کی جائے تو(1)اس سے چھ اسلامی ریاستیں ، قازقستان ، کرغیزستان،اُزبکستان، ترکمانستان، آذر بائیجان اورتاجکستان آزاد ہوئیں ۔(2)مشرقی یورپ آزاد ہوا۔ دیوار برلن پا ش پاش ہوئی۔ جرمنوں نے دیوار برلن کا ایک ٹکڑا جہاد کے پشتیبا ن جنرل حمید گل خان صاحب کو تحفے کے طور پر بھیجاجو آزاد دنیا کی طرف سے پاکستان کا اعزاز ہے۔ (3) روس جس نے پاکستان توڑنے میں اپنی ایٹمی گن بوٹ سے پاکستان کی بحری ناکا بندی کر کے بھارت کا ساتھ دیا اس کا بدلہ ہماری بہادر فوج نے روس کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے میں حصہ لے کر چکا دیا۔(4)جہاد افغانستان سے تحریک آزادیِ کشمیر نے زور پکڑا۔ (5) پوری اسلامی دنیا میں امریکی پٹھو حکمرانوں کے خلاف اسلامی نظام حکومت کے لیے جدو جہد تیز ہوئی۔ ( یہ علیحدہ بات ہے کہ امریکا نے جہادی تحریکوں میں اپنے ٹاؤٹ ڈال کر ان کو بدنام کیا) ۔ (6) ہماری بہادر فوج نے روس کے بانی ایڈورڈ کابلوچستان کے راستے مسلم دنیا کے خلیج کے علاقے تک پہنچنے کے خواب کو چکنا چور کیا۔
قوم پرست افغان حکومت نہ ماضی میں پاکستان دوست تھی نہ اس وقت حال میں قوم پرست اشرف غنی افغان حکومت پاکستان کی دوست ہے نہ مستقبل کی قوم پرست حکومت پاکستان کی دوست ہو سکتی ہے۔ہاں طالبان کی اسلامی حکومت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی دوست تھی اور انشاءاللہ مستقبل کی طالبان کی اسلامی حکومت ہی پاکستا ن کی دوست ہو گی۔ پاکستان کو امریکی بھارتی چالوں سے خبردار ہو کر افغان طالبان کے خلاف کسی بھی مہم جوئی کا حصہ نہیں بننا چاہیے ۔
( ختم شد)


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر