... loading ...
کچھ عرصہ قبل تک بہت کم لوگ قاہرہ کے نواح میں واقع وسیع نخلستان سیوا کے بارے میں کچھ جانتے تھے اور مصر کی سیر کے لیے نکلنے والے سیاح عام طور پر قاہرہ اور مصرکے دیگر مشہور شہروں تک ہی محدود رہتے تھے ،سیوا قاہرہ کے شمال مغربی علاقے میں لیبیا کی سرحد کے قریب واقع ہے اور اسے مصر کے لیے قدرت کا تحفہ قرار دیاجاتا ہے، اس شہر کی تاریخی عمارتیں اور علاقے میں واقع روایتی مکان دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں ، اور انھیں دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ اس علاقے کو بجا طور پر مصر کا پوشیدہ خزانہ کہا جاتا ہے، کچھ عرصہ قبل ٹور آپریٹرز نے سیوا کی کچھ انداز میں تشہیر شروع کی کہ قاہرہ آنے والے غیر ملکی سیوا کی سیر کئے بغیر اپنے تفریحی دورے کو نامکمل تصور کرنے لگے۔اس طرح اب قاہرہ کے نواح میں واقع یہ علاقہ بھی اب سیاحوں کی آماجگاہ بن گیا ہے ،اس کے نتیجے میں اس علاقے میں بھی دولت کی فراوانی نظر آنے لگی ہے ، لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ اس علاقے میں سیاحوں کی آمد اور دولت کی ریل پیل کے باوجود اس علاقے کی قدیم آبادی قدیم باشندوں کی حالت زندگی ابھی تک نہیں بدلی ہے اور ان کی غربت و افلاس اور درماندگی میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آئی ہے ۔
مصر کی اس گم گشتہ جنت میں پہنچنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے سڑک کے راستے یعنی بس ، کار یا جیپ کے ذریعے لیکن قاہرہ سے جیپ یا بس کے ذریعہ ہی سفر زیادہ محفوظ ہے اگرچہ حکومت نے قاہرہ سے ایک نئی شاہراہ کے ذریعے سیوا کو قاہرہ سے ملادیا ہے ، لیکن یہ شاہراہ ریگستان کے درمیان سے گزرتی ہے اور کار یاچھوٹی گاڑیوں کے کسی بھی وقت ریگستانی طوفان میں پھنس جانے کا اندیشہ رہتا ہے ۔قاہرہ کو سیوا سے یا سیوا کو قاہرہ سے ملانے کے لیے تعمیر کی گئی یہ شاہراہ اتنی سیدھی اور سنسان ہوتی ہے کہ اس پر گاڑی کی رفتار کااندازہ ہی نہیں ہوتا اور گاڑیاں ہوا کے ایک جھونکے کی طرح گزرتی رہتی ہیں ۔
قاہرہ سے اس شاہراہ کے ذریعے سیوا پہنچنے میں کم از کم 10 گھنٹے لگتے ہیں لیکن ارد گرد کا منظر اتنا خوشنما ہے کہ 10 گھنٹے کایہ طویل سفر محسوس ہی نہیں ہوتا اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چشم زدن میں ہم قاہرہ سے سیوا پہنچ گئے ، راستے میں جگہ جگہ صحرا کے درمیان واقع سرسبز قطعات اراضی اور اس کے بعد تاحد نظر پھیلے ہوئے صحرا کی خوبصورتی اس شاہراہ پر سفر کرنے والوں کی توجہ کچھ اس طرح اپنی جانب مبذول کرائے رکھتی ہے کہ وقت کااندازہ ہی نہیں ہوپاتا۔
سیوا کو بلاشبہ مصر کا انتہائی خوبصورت علاقہ قرار دیاجاسکتا ہے اس کا قدرتی ماحول منفرد ہے ، یہاں مختلف مقامات پر زمین سے پھوٹنے والے 200 سے زیادہ معدنی پانی کے چشمے ہزاروں سال اس علاقے کے مکینوں کے زندہ رہنے کا سامان پیدا کررہے ہیں اور لق ودق صحرا کے درمیان خوبصورت نخلستان کے وجود کی ضمانت ہیں ،حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہزاروں سال کے دوران آبادی میں بے انتہا اضافے اور اسی مناسبت سے کاشت کاری اور باغات میں اضافے کے باوجود ان چشموں سے نکلنے والے پانی میں کوئی کمی نہیں آئی اور اس علاقے کے لوگوں کو پانی کی کسی قلت کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے ۔
سیوا کے باشندوں کی اکثریت کا تعلق بربر نسل سے ہے اس شہر کی آبادی اب کم وبیش 10 ہزار نفوس پر مشتمل ہے لیکن یہ لوگ رہن سہن اور تہذیب وتمدن کے اعتبار سے عام مصری باشندوں سے قطعی مختلف ہیں ، یعنی انھیں کسی بھی اعتبار سے مصری نہیں کہا جاسکتا۔یہاں تک کہ ان کی زبان بھی مصر میں بولی جانے والی عام زبان سے مختلف ہے ۔ اب مصر کی حکومت اس علاقے میں بھی عربی کی ترویج کی کوشش کررہی ہے جس کی وجہ سے قدیم زبان آہستہ آہستہ اپنا وجود کھوتی جارہی ہے اور اب علاقے میں 40 سال سے کم عمر کاشاید ہی کوئی شخص علاقے کی قدیم زبان بول اور سمجھ سکتا ہو، کہتے ہیں کہ قدیم زمانے میں شمالی افریقہ اور جزیرہ نما عرب جانے والے قافلے سیوا میں پڑاؤ ڈالا کرتے تھے اور یہا ں کچھ دنوں آرام کرنے اور پانی وغیرہ کا ذخیرہ لے کر آگے روانہ ہوتے تھے ۔
اس علاقے میں سیاحوں کی آمد میں اضافے کے بعد مصر کے دوسرے شہروں کی طرح اس شہر میں بھی تعمیر وترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے لیکن سیوا کے عام باشندے اس ترقی سے خوش نہیں ہیں ان کا خیال ہے کہ اس سے ان کا اپنا تشخص ختم ہوجائے گا اور علاقے کی قدرتی خوبصورتی کو نقصان پہنچے گا، اس لیے وہ علاقے کی تیز رفتار ترقی کے آگے بند باندھنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں ۔
سیوا کی خوبصورتی اور کشش کااندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ مغربی ملکوں سے آنے والے بہت سے سیاح اس علاقے کی خوبصورتی اور یہاں دستیاب سکون کی وجہ سے اس علاقے میں طویل عرصے تک قیام کرنے اور اس علاقے میں قیام کے دوران پرسکون انداز میں تصنیف وتالیف اور پینٹنگز وغیرہ کا کام مکمل کرنے کی خواہش کا اظہار کرنے لگے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اب بہت سے غیر ملکی بھی مقامی آبادی کے ساتھ قیام پذیر نظر آتے ہیں ۔
ماہرین ارضیات کا خیال ہے کہ سیوانام کا یہ شہر ساتویں صدی قبل از مسیح آباد ہواتھا اور گزشتہ 12 ہزار سال سے نہ صرف یہ کہ اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے بلکہ باہر سے آنے والوں کو بھی اپنے اندر سموتا جارہا ہے ۔سیوا کے شہری اردگرد موجود طویل صحرا کو اپنے اس نخلستان کاقدرتی محافظ قرار دیتے ہیں ،یہ لوگ روایتی طورپر گارے اور اینٹوں سے مکان بنا کر رہتے ہیں ،اور اپنے بنائے ہوئے روایتی مکانوں کو سرکاری طور پر تعمیر کی ہوئی پختہ عمارتوں پر ترجیح دیتے ہیں ۔اس نخلستان کی تاریخ کا جائزہ لیاجائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیوانام کا یہ شہر ایک زمانے میں مصرکے مشہور شہر لگزراور غزہ کے مقابلے کاشہر تھا،اس شہر میں انسان کی آمد کے جو سب سے قدیم نشانات دستیاب ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس علاقے میں 30 لاکھ سال قبل انسانوں کی آمد کاسلسلہ شروع ہواتھا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ دنیا کا قدیم ترین مندر اس علاقے میں واقع تھا ، اس مندر کے آثار اب بھی اس علاقے میں موجود ہیں ،کہاجاتا ہے کہ سکندر اعظم اس صحرا سے گزرتے ہوئے چڑیوں کو اڑتے دیکھ کر اس نخلستان میں آیاتھا اور یہاں اس نے کچھ دنوں آرام کیا تھااور یہاں مندر کے پجاری سے مہورت نکلوائی تھی کہتے ہیں کہ اس مندر کی سیڑھیوں سے اترتے وقت سکندر اعظم نے اس علاقے کے لوگوں سے کہاتھا کہ مجھے یہ بات القا ہوئی ہے کہ میں مصرکا نیا فرعون ہوں ۔سیوا کے لوگ رہن سہن کے اعتبار سے لیبیا کے باشندوں سے زیادہ ملتے ہیں اور سیوا کے باشندوں کی لیبیا کے باشندوں کے ساتھ اب بھی رشتہ داریاں قائم ہیں جس سے یہ ظاہرہوتا ہے کہ ا س علاقے کے لوگ مصر کے بجائے لیبیا کو زیادہ اہمیت دیتے تھے ۔
سیوا اب دنیا کاسب سے زیادہ مشہور سیاحتی علاقہ بن چکا ہے اور قاہرہ کے تاجر اور ڈیولپرز حکومت کی جانب سے اس علاقے کو محفوظ علاقہ قرار دیئے جانے کے اعلان سے فائدہ اٹھارہے ہیں یہاں روایتی گارے اوراینٹوں سے بنائی ہوئی عمارتوں کی تزئین وآرائش کرکے آرامدہ فائیو اسٹار ہوٹلوں میں تبدیل کردیاگیا ہے جہاں ایک رات کے قیام کے لیے سیاحوں کو 500 ڈالر تک کرایہ ادا کرنا پڑتا ہے ۔
برطانیا کے شہزادہ چارلس سمیت دنیا کی متعدد مشہور شخصیات بھی اس نخلستان میں قیام کرچکی ہیں اور ماہرین یہ اندازہ لگانے کے لیے کہ یہاں کے باشندے فصلوں کو کیڑا لگنے سے بچانے کے لیے کیا ٹیکنک استعمال کرتے ہیں اور مصنوعی کھاد استعمال کئے بغیر اس علاقے میں افریقہ کی بہترین کھجوریں اور زیتون کی کاشت کس طرح کی جارہی ہے باقاعدہ ریسرچ کرتے نظرآتے ہیں ۔
سیوا کے قدیم باشندوں کاکہنا ہے کہ یہاں آنے والے سیاح ہماری طرح قدیم طرز معاشرت کی طرح رہنے کی کوشش کرتے ہیں ، قدیم باشندوں کاکہنا ہے کہ اس علاقے میں سیاحوں کی آمد دولت کی ریل پیل سے قدیم باشندوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا یہ صحیح ہے کہ کچھ لوگوں کو گائیڈ کے طور پر یا یہاں کھلنے والے ہوٹلوں کے کچن میں کام کرنے کے مواقع مل گئے جس کی وجہ سے ان کی آمدنی میں کچھ اضافہ ہوگیا یا انھیں آمدنی کاایک ذریعہ مل گیا لیکن سیوا کے عام قدیم باشندے کی زندگی میں ابھی بہار کاایک جھونکا بھی نہیں آیا ہے ،کیونکہ یہاں کاروبار جمانے والوں کی اکثریت کا تعلق قاہرہ کے تاجر اور متمول طبقے سے ہے جو یہاں سے دولت کما کر قاہرہ لے جاتے ہیں ،اور یہاں کے قدیم باشندوں کی غربت دور کرنے کا نہ انھیں کوئی خیال ہے اور نہ ہی سیاحوں کی آمد کی وجہ سے سالانہ کروڑوں ڈالر کمانے والی حکومت کو ۔