... loading ...
پاکستان میں جان لیوا امراض میں مبتلا مریضوں کی ادویات بالخصوص امراض دل ،ہیپاٹائٹس ،پھیپھڑوں ،گردوں ،جگر پتہ وغیرہ اور جان بچانے والی ادویات اتنی مہنگی ہیں کہ ایک غریب مریض کی پہنچ سے بہت دور ہیں ۔اس طرح پاکستان میں غریبوں کا علاج ہو ہی نہیں سکتا۔ خادم اعلیٰ و مرکزی حکومت کے خالی خولی دعوے اور وعدے ہیں مگر ہسپتالوں میں ادویات قطعاً نہیں مہیا ہو پاتیں۔حکومتی اعلانات کے بالکل الٹ ہورہا ہے، ہسپتالوں کے انچارج ایم ایس و دیگر انتظامی افراد جو مہنگی ادویات اوپر سے آتی ہیںان کا لازماً آدھے سے زیادہ حصہ فوراً اپنے پسندیدہ میڈیکل ا سٹورز کو بیچ ڈالتے ہیں۔
حکومت کے مزید ہسپتال قائم کیے جانے کے نئے اعلانات بالکل فضول اور پیسے اینٹھنے کاطریقہ ہیں۔ پہلے موجودہ ہسپتالوں کی حالت زار کو درست کیا جانا چاہیے ۔نئے بھرتی شدہ ڈاکٹرز کو اچھی تنخواہیں اور سہولتیں مہیا ہوتیں تووہ ہڑتالیں کیوںکرتے ؟ ہسپتالوں میں تو اسپرین تک بھی مریضوں کو نہیں ملتی اور جو مریض سفارشیں کروانے کے بعد داخل ہوجائے اسے سرنج تک بھی باہر سے خریدنا پڑتی ہے۔
ہسپتالوںمیں موجودا سٹورز کے انچارج بچی کھچی دوائیاں بھی ہضم کرنے کا عزم کیے ہوتے ہیں۔اگر ادویات رجسٹروں میں درج ہوکر وارڈوں میں نرسز انچارج کے پاس پہنچ بھی جائیں تو وہ بھی مہنگے اینٹی بائیوٹک خود رکھ لیتی ہیں اور ڈیوٹی کے بعد باہر جا کر بیچ ڈالتی ہیں۔اس طرح وہ بھی اپنی دیہاڑی ہزاروں کی لگا لیتی ہیں۔ یہ چوری کیسے پکڑی جائے گی؟ اگر ایم ایس ایماندا ر مقرر کردیے جائیں تو وہ کسی وارڈ بوائے یا دوسری ایماندار نرس کے ذریعے سارا راز فاش کرواسکتے ہیں پھر ایسی کرپٹ نرسز اورہسپتال کے میڈیکل سٹور کے انچارج کو قرار واقعی سزا ئیں دی جائیں اور ان کی خوب تشہیر کی جائے تو پھر کوئی دوسرا ادویات کا چور ایسا عمل نہ کرے گا۔
مگر “مجھاں مجھاں دیاں بہناں ہوندیاں نیں” چونکہ اوپر سے نیچے تک حکمرانوں کی طرح ہسپتالوں میں بھی آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہوتا ہے اس لیے چھوٹے چوروں کو بھی پکڑا نہیں جا سکتا۔ہمارے ہاں ادویات اس لیے بھی مہنگی ہیںکہ ادویات تیار کرنے والی فیکٹریاں زیادہ منافع کمانے کے لیے وزارت صحت کو کروڑوں روپیہ رشوت دیکر اپنی ادویات کی قیمتوں کاتعین کرواتی ہیں۔مثال کے طور پر ہیپا ٹائیٹس کی ادویات پاکستان میں اگر روزانہ کافل کورس 275میں مل جاتا ہے تو وہی ادویات انڈیا میں روزانہ 30روپے کی قیمت پر مل جاتی ہیں۔ اتنا بڑا فرق کیسے اور کیونکر ہوگیا کہ سارا را میٹریل Material RAW انڈیا اور پاکستان میں ایک ہی جگہ اور ملک سے حاصل کیا جاتا ہے۔ دراصل منسٹری آف ہیلتھ اور دیگر ذمہ داران جو ادویات کی قیمتیں مقرر کرتے ہیں وہ اس کی قیمت مقرر کرتے وقت ڈھیر ساری رشوت وصول کرتے ہیںتبھی اس کی قیمت کا تعین ہو سکتا ہے۔ آپ حیران ہو جائیں گے کہ کسی دوائی کی قیمت میں ایک روپے کا اضافہ کرنے کے لیے مرکزی محکمہ صحت کے افراد ایک کروڑ روپے تک وصول کر لیتے ہیں۔ علی ھذا القیاس ۔
اب جبکہ صرف ہیپاٹائیٹس کی ادویات انڈیا میں 9گنا ہ سستی ہیں اس طرح باقی فی کس روزانہ245روپے کس کی جیب میں جارہے ہیں۔ لا محالہ محکمہ تجارت و صحت ہی اس کے ذمہ دار ہیں۔اس طرح رشوت کھربوں تک پہنچ جاتی ہے تبھی ادویات کی قیمتیں اتنی مہنگی ہوجاتی ہیں۔ نام نہاد ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی تو سفید ہاتھی کی مانند ہے ۔وہ ان اسمگلروں سے مل کر مال بٹور رہی ہیں،اس طرح ایسے کرپٹ افراد کی بیرون ملک کئی پاناما و وکی لیکس بن چکی ہیں۔کئی ڈرگ کمپنیوں نے وزارت صحت سے ڈیکلا ا سٹور نامی گولی جو کہ ہیپا ٹائٹس کے امراض کے لیے اشد ضروری ہے، یہاں پاکستان میں تیار کرنے کی اجازت مانگی مگر وزارت صحت چونکہ یہاں اسے بھارت کی نسبت دس گنا زیادہ قیمت پر فروخت کروا رہی ہے تو وہ کیوں اپنے اربوں کی حرام کمائی یوں ضائع ہونے دے گی؟
ویسے حکومت سے نئے ہسپتال بنوانے کی تجویز بھی ان لوگوں کی ہے جو تعمیرات میں گھپلوں کے ذریعے کروڑوں کمانا چاہتے ہیںوگرنہ موجودہ ہسپتالوں کا نظام درست کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟اسی طرح کمپنیوں کے میڈیکل نمائندے جب ڈاکٹروں کو آکر سیمپلنگ دیکر اپنا مخصوص برانڈ نسخوں میں لکھنے کے لیے گزارش کرتے ہیں تو ساتھ ہی وہ ڈاکٹروں کو بھاری رشوت کی آفر کرتے ہیں، وہ عمرہ کا ٹکٹ حتیٰ کہ اچھے ماڈل کی کار اور تمام گھر کا فرنیچر تبدیل کر ڈالنے یاکئی کمروں میں ا سپلٹ اے سی لگوا کر دینے یا پھر نقد ہی لاکھوں روپے کا لین دین کرتے ہیںتاکہ ڈاکٹر ان کی دوائی ہی لکھیں اور بیشتر میڈیکل ا سٹورز پر ان کی دوائی بکنے لگ جائے ۔
ایسی ہی وجوہات کی بنا پر ہمارے ہاں بھارت سے ادویات آٹھ یا دس گنا مہنگی بک رہی ہیںکہ یہ سارے خرچے بالآخرادویات کی قیمت فروخت میں ڈال دیے جاتے ہیں ۔جنہیں غریب مریضوں کو ہی مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق خریدنا پڑتا ہے۔بڑا ظلم یہ بھی ہے کہ سیپملنگ کے وقت دوائی کی مقدار اور پوٹینسی پوری ہوتی ہے اور مارکیٹ میں بکنے والی ادویات میں اس پوٹینسی کی مقدار کم ہوجاتی ہے۔ ڈاکٹروں کے لکھنے کے باوجود مریض صحت یاب نہیں ہوپاتے تو اس میں قصور وار ادویات تیار کرنے والی فیکٹریوں کے سود خور نو دولتیے سرمایہ دار ہی ہوتے ہیں ۔پھر یہاں تک کہ دو نمبر ادویات کی بھی مارکیٹ میں بھرمار ہے، یہ کہاں سے آتی ہیں، یہ ہماری ہی دھرتی پر تیار ہوکر فروخت ہوتی ہیں، تھانوں کوہر دو نمبر کاروبار کی طرح اس میں منتھلیاں ملتی ہیںاور میڈیکل ا سٹور مالکان زیادہ منافع کے لالچ میںانھیں خرید کر ڈھیروں مال کماتے ہیں۔ مریض خواہ مرتے رہیں مگر آج ہرکسی کومقتدر افراد کی طرح مایہ اور حرام مال اکٹھے کرنے کی پڑی ہوئی ہے!!