وجود

... loading ...

وجود

مریضوں کی ادویات مہنگی کیوں؟

هفته 16 ستمبر 2017 مریضوں کی ادویات مہنگی کیوں؟

پاکستان میں جان لیوا امراض میں مبتلا مریضوں کی ادویات بالخصوص امراض دل ،ہیپاٹائٹس ،پھیپھڑوں ،گردوں ،جگر پتہ وغیرہ اور جان بچانے والی ادویات اتنی مہنگی ہیں کہ ایک غریب مریض کی پہنچ سے بہت دور ہیں ۔اس طرح پاکستان میں غریبوں کا علاج ہو ہی نہیں سکتا۔ خادم اعلیٰ و مرکزی حکومت کے خالی خولی دعوے اور وعدے ہیں مگر ہسپتالوں میں ادویات قطعاً نہیں مہیا ہو پاتیں۔حکومتی اعلانات کے بالکل الٹ ہورہا ہے، ہسپتالوں کے انچارج ایم ایس و دیگر انتظامی افراد جو مہنگی ادویات اوپر سے آتی ہیںان کا لازماً آدھے سے زیادہ حصہ فوراً اپنے پسندیدہ میڈیکل ا سٹورز کو بیچ ڈالتے ہیں۔
حکومت کے مزید ہسپتال قائم کیے جانے کے نئے اعلانات بالکل فضول اور پیسے اینٹھنے کاطریقہ ہیں۔ پہلے موجودہ ہسپتالوں کی حالت زار کو درست کیا جانا چاہیے ۔نئے بھرتی شدہ ڈاکٹرز کو اچھی تنخواہیں اور سہولتیں مہیا ہوتیں تووہ ہڑتالیں کیوںکرتے ؟ ہسپتالوں میں تو اسپرین تک بھی مریضوں کو نہیں ملتی اور جو مریض سفارشیں کروانے کے بعد داخل ہوجائے اسے سرنج تک بھی باہر سے خریدنا پڑتی ہے۔
ہسپتالوںمیں موجودا سٹورز کے انچارج بچی کھچی دوائیاں بھی ہضم کرنے کا عزم کیے ہوتے ہیں۔اگر ادویات رجسٹروں میں درج ہوکر وارڈوں میں نرسز انچارج کے پاس پہنچ بھی جائیں تو وہ بھی مہنگے اینٹی بائیوٹک خود رکھ لیتی ہیں اور ڈیوٹی کے بعد باہر جا کر بیچ ڈالتی ہیں۔اس طرح وہ بھی اپنی دیہاڑی ہزاروں کی لگا لیتی ہیں۔ یہ چوری کیسے پکڑی جائے گی؟ اگر ایم ایس ایماندا ر مقرر کردیے جائیں تو وہ کسی وارڈ بوائے یا دوسری ایماندار نرس کے ذریعے سارا راز فاش کرواسکتے ہیں پھر ایسی کرپٹ نرسز اورہسپتال کے میڈیکل سٹور کے انچارج کو قرار واقعی سزا ئیں دی جائیں اور ان کی خوب تشہیر کی جائے تو پھر کوئی دوسرا ادویات کا چور ایسا عمل نہ کرے گا۔
مگر “مجھاں مجھاں دیاں بہناں ہوندیاں نیں” چونکہ اوپر سے نیچے تک حکمرانوں کی طرح ہسپتالوں میں بھی آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہوتا ہے اس لیے چھوٹے چوروں کو بھی پکڑا نہیں جا سکتا۔ہمارے ہاں ادویات اس لیے بھی مہنگی ہیںکہ ادویات تیار کرنے والی فیکٹریاں زیادہ منافع کمانے کے لیے وزارت صحت کو کروڑوں روپیہ رشوت دیکر اپنی ادویات کی قیمتوں کاتعین کرواتی ہیں۔مثال کے طور پر ہیپا ٹائیٹس کی ادویات پاکستان میں اگر روزانہ کافل کورس 275میں مل جاتا ہے تو وہی ادویات انڈیا میں روزانہ 30روپے کی قیمت پر مل جاتی ہیں۔ اتنا بڑا فرق کیسے اور کیونکر ہوگیا کہ سارا را میٹریل Material RAW انڈیا اور پاکستان میں ایک ہی جگہ اور ملک سے حاصل کیا جاتا ہے۔ دراصل منسٹری آف ہیلتھ اور دیگر ذمہ داران جو ادویات کی قیمتیں مقرر کرتے ہیں وہ اس کی قیمت مقرر کرتے وقت ڈھیر ساری رشوت وصول کرتے ہیںتبھی اس کی قیمت کا تعین ہو سکتا ہے۔ آپ حیران ہو جائیں گے کہ کسی دوائی کی قیمت میں ایک روپے کا اضافہ کرنے کے لیے مرکزی محکمہ صحت کے افراد ایک کروڑ روپے تک وصول کر لیتے ہیں۔ علی ھذا القیاس ۔
اب جبکہ صرف ہیپاٹائیٹس کی ادویات انڈیا میں 9گنا ہ سستی ہیں اس طرح باقی فی کس روزانہ245روپے کس کی جیب میں جارہے ہیں۔ لا محالہ محکمہ تجارت و صحت ہی اس کے ذمہ دار ہیں۔اس طرح رشوت کھربوں تک پہنچ جاتی ہے تبھی ادویات کی قیمتیں اتنی مہنگی ہوجاتی ہیں۔ نام نہاد ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی تو سفید ہاتھی کی مانند ہے ۔وہ ان اسمگلروں سے مل کر مال بٹور رہی ہیں،اس طرح ایسے کرپٹ افراد کی بیرون ملک کئی پاناما و وکی لیکس بن چکی ہیں۔کئی ڈرگ کمپنیوں نے وزارت صحت سے ڈیکلا ا سٹور نامی گولی جو کہ ہیپا ٹائٹس کے امراض کے لیے اشد ضروری ہے، یہاں پاکستان میں تیار کرنے کی اجازت مانگی مگر وزارت صحت چونکہ یہاں اسے بھارت کی نسبت دس گنا زیادہ قیمت پر فروخت کروا رہی ہے تو وہ کیوں اپنے اربوں کی حرام کمائی یوں ضائع ہونے دے گی؟
ویسے حکومت سے نئے ہسپتال بنوانے کی تجویز بھی ان لوگوں کی ہے جو تعمیرات میں گھپلوں کے ذریعے کروڑوں کمانا چاہتے ہیںوگرنہ موجودہ ہسپتالوں کا نظام درست کرنے میں کیا رکاوٹ ہے؟اسی طرح کمپنیوں کے میڈیکل نمائندے جب ڈاکٹروں کو آکر سیمپلنگ دیکر اپنا مخصوص برانڈ نسخوں میں لکھنے کے لیے گزارش کرتے ہیں تو ساتھ ہی وہ ڈاکٹروں کو بھاری رشوت کی آفر کرتے ہیں، وہ عمرہ کا ٹکٹ حتیٰ کہ اچھے ماڈل کی کار اور تمام گھر کا فرنیچر تبدیل کر ڈالنے یاکئی کمروں میں ا سپلٹ اے سی لگوا کر دینے یا پھر نقد ہی لاکھوں روپے کا لین دین کرتے ہیںتاکہ ڈاکٹر ان کی دوائی ہی لکھیں اور بیشتر میڈیکل ا سٹورز پر ان کی دوائی بکنے لگ جائے ۔
ایسی ہی وجوہات کی بنا پر ہمارے ہاں بھارت سے ادویات آٹھ یا دس گنا مہنگی بک رہی ہیںکہ یہ سارے خرچے بالآخرادویات کی قیمت فروخت میں ڈال دیے جاتے ہیں ۔جنہیں غریب مریضوں کو ہی مرتے کیا نہ کرتے کے مصداق خریدنا پڑتا ہے۔بڑا ظلم یہ بھی ہے کہ سیپملنگ کے وقت دوائی کی مقدار اور پوٹینسی پوری ہوتی ہے اور مارکیٹ میں بکنے والی ادویات میں اس پوٹینسی کی مقدار کم ہوجاتی ہے۔ ڈاکٹروں کے لکھنے کے باوجود مریض صحت یاب نہیں ہوپاتے تو اس میں قصور وار ادویات تیار کرنے والی فیکٹریوں کے سود خور نو دولتیے سرمایہ دار ہی ہوتے ہیں ۔پھر یہاں تک کہ دو نمبر ادویات کی بھی مارکیٹ میں بھرمار ہے، یہ کہاں سے آتی ہیں، یہ ہماری ہی دھرتی پر تیار ہوکر فروخت ہوتی ہیں، تھانوں کوہر دو نمبر کاروبار کی طرح اس میں منتھلیاں ملتی ہیںاور میڈیکل ا سٹور مالکان زیادہ منافع کے لالچ میںانھیں خرید کر ڈھیروں مال کماتے ہیں۔ مریض خواہ مرتے رہیں مگر آج ہرکسی کومقتدر افراد کی طرح مایہ اور حرام مال اکٹھے کرنے کی پڑی ہوئی ہے!!


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر