... loading ...
(گزشتہ سے پیوستہ)
آج روئے زمین نمرودوں اور فرعونوں کے ظلم و جبر سے بھری پڑی ہے۔ انسانوں نے انسانوں کو خوبصورت ناموں اور اصطلاحات میں پابہ زنجیر کر کے اپنا غلام بنارکھا ہے ۔فلسطین ،عراق،شام،یمن ،برما،افغانستان ،چیچنیا اور کشمیر جیسیے مسلم خطوں میں آج کے زندہ نمرودوں نے انسانیت کو تباہ برباد کر رکھا ہے ۔ہر جگہ انسانی جانوں اور عزتوں کو یہی نمرودی سپاہ پاؤں تلے رو ندتی ہوئی نظر آتی ہے ۔امت مسلمہ کو ذلیل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جاتا ہے ۔چہار جانب امت روئے زمین کے بدترین نمرودوں اور فرعونوں کے چنگل میں بُری طرح پھنس چکی ہے ۔امت نمرودوں کے ساتھ بر سر پیکار ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک چلتا رہے گا۔ اس لیے کہ جا نبین میں جو اختلافات ہیں وہ اتنے وسیع ہیں کہ انہیں کسی طرح سے ختم کرنا ممکن نہیں ہے ۔ ان نمرودوں سے نپٹنا یا دوبدو رہنا اُمت کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے اور نہ ہی کوئی انہونی ۔یہ سلسلہ چلتا رہاہے اور آئندہ بھی چلتا رہے گا ۔مگر امت اسلامیہ کو سب سے زیادہ نقصان نمرودوں نے کم ان کے ایجنٹوں نے زیادہ پہنچایا ہے اور بد قسمتی کے ساتھ ایجنٹوں کی یہ پوری جماعت امت کے ہی بعض افراد ہوتے ہیں جو ظاہر میں اسلام کی وفاداری کے دم بھرتے ہیں مگر بباطن ان کی نظر صرف ذاتی اور مالی مفادات پر ہوتی ہے ۔نفس پرستی کے مرض میں مبتلا ان زہریلے سانپوں نے امت کو لہو لہان کرکے رکھ دیاہے۔ فلسطین سے لیکر کشمیر تک یہی ایجنٹ مسلم لیڈروں کے لباس میں امت کو گمراہی ،شرک،کفر اور بدعات وخرافات کے غلیظ غار میں دھکیل رہے ہیں اور امت کی حالت یہ ہے کی دھتکارنے اور جھٹلانے کے باوجود بھی وہ ان سے اپنا دامن چھڑا نہیں پاتی ہے ۔حد یہ کہ اسلام کے ابجد سے ناواقف ان جاہلوں کی حالت یہ ہے کہ دین سے تعلق تو دکھاوے کی حد تک تو ہے مگر دین کے اوامر سے ایسے بدکتے ہیں جیسے منافقین ۔نماز عیدین اور جمعہ تو ضرور پڑھتے ہوئے دکھتے ہیں مگر گھروں میں نماز کا کوئی نام ونشان نہیں ۔ جمعہ کے روز مسلم لیڈروں کی نمازوں کا زیادہ تر تعلق عوام کے ساتھ تعلق بنائے رکھنے سے ہوتاہے نماز سے نہیں ۔قرآن وحدیث کی ہوا بھی ان بے چاروں کو نہیں لگی ہے ۔
مصطفیٰ کمال سے لیکر جنرل سیسی تک ہر ایک مسلم رہنما کو جب بھی اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے اسلام کی ضرورت پڑی تو انھوں نے اس سے بے دریغ استعمال کیا البتہ جب بعض علماء نے اس سے ایک مکمل ضابطۂ حیات مانتے ہوئے حکومتی ایوانوں میں نافذ کرنے کی بات کی تو ان کمینوں نے ان کے مطالبے کو انتہا پسندی کی گالی سے بے جان کردیا۔کشمیر ہی کو لیجیے1947 سے لیکر اب تک تمام لیڈروں نے اس مظلوم قوم سے اسلام کے نام پر قربانیاں مانگیں اور اس مظلوم قوم نے بھی اس سلسلے میں کسی بخیلی کا مظاہرہ نہیں کیا اور اب تک اسلام ہی کے نام پر یہاں کے نوجوان سروں پر کفن باندھے میدان کار زار میں بر سر پیکار ہیں ۔ مگر آج ہی کی تاریخ میں بعض لیڈروں کو اس کے اسلامی کہلائے جانے سے تکلیف محسوس ہو رہی ہے اور دلیل یہ دی جارہی ہے کہ اس سے مغربی ممالک اس تحریک کو اسلامی دہشت گردی کے کھاتے میں جمع کردیں گے ۔حالانکہ تاریخ کا ادنیٰ سا طالب علم بھی یہ جانتا ہے کہ مغربی ابلیسوں نے کسی بھی وقت امت مسلمہ کی کوئی مدد نہیں کی ہے اور آج کی تاریخ میں بھی وہ اس سے بھارت کا ہی حصہ قراردیتے ہیں ۔مغربی ممالک بالخصوص امریکا کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس سے اپنے مفادات عزیز ہیں نہ کہ کچھ اور ۔۔۔اور تو اور جب امریکا کو اپنے مفادات کا تحفظ’’ اسلامی انتہا پسندی ‘‘میں نظر آتاہے تو وہ ان کے حصول اور تحفظ کے لیے اسلامی انتہا پسندوں کو گلے لگاتے ہوئے ساری دنیا کو انھیں ’’ مجاہدین اسلام ‘‘کے نام سے یاد کرنے کی تلقین کرتا ہے ۔دیکھنا یہ ہے کہ امت مسلمہ کو فائدہ کس سے ہے دین داری سے یا دین بیزاری سے ؟؟؟ آخر ہمیں ہی دین کو دو الگ الگ حصوں میں تقسیم کر نے کی صلاح کیوں دی جاتی ہے ؟مرنے مارنے کی نوبت ہو تو دین ،قیام حکومت اور نظام کی باری آئے تو بے دینی آخر کیوں ؟
نمرود جیسا مفلس کب کا مر گیا مگر ہمیں ایک نئی مصیبت میں مبتلا کر کے چل بسا !وہ یہ کہ نظام ِشرک میں رہنے سے بعض طبیعتوں میں ایک قسم کی بیماری پیدا ہوتی ہے جیسا کہ خود رسول اللہ ﷺ کے دور ِمبارک میں عبداللہ بن اُبیع اور اس کے حواریوں کی جماعت میں پیدا ہوئی ۔یہ لوگ کام تو نمرودی ،فرعونی ،قارونی اور ابو جہلی ہی کرتے ہیں مگر نام ان کا اسلامی رکھتے ہیں اور بعض بے چارے سادہ لوح مسلمان ان کی اس منافقت سے دھوکے میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔وہ انہیں ہر طرح کی مدد و نصرت فراہم کر کے ان کے حقیر دنیاوی مفادات کی تکمیل کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے والے کام کرتے ہیں ۔نمرود ،فرعون ،ابو جہل کب کے مر گئے ابن اُبیع کا کوئی نام ونشان تک باقی نہیں ہے مگر ان کے کافرانہ نظام اب تک مختلف ناموں کے ساتھ موجود ہیں ۔آج کے نمرودوں نے بت پرستی کا طریقہ بدل دیا ،اپنے کفر و شرک کے نام بدل دیے ہیں ۔ایک وسیع و عمیق فکر کے تحت طریقہ عبادت کو تبدیل کر دیا ہے اور بقول اقبال ’’لات و عزیٰ در حرم باز آورد‘‘جو کل ہو رہا تھا وہی آج بھی ہو رہا ہے۔ البتہ کل کو میدان جنگ میں ایک طرف نمرود و فرعون ہوتا تھا اور دوسری جانب ابراہیم ؑ و موسیٰ ؑ۔۔۔اور آج ایک طرف نمرودو فرعون اکیلے نہیں ان کے ساتھ بعض مسلمان نامی انکے کرایہ کے ٹٹو بھی ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔گو آج کی جنگ میں مسلمانوں کو بہت سے انبیائے کرام ہی کی طرح بیک وقت کفار کے ساتھ ساتھ منافقین کے ساتھ بھی بر سر پیکار رہنا پڑتا ہے اور ان منافقین کی چالاکی سے اللہ کی پناہ کہ امت کا بہت بڑا طبقہ ان کی منافقت سمجھنے سے بے بس ہے۔ منافقت کی یہ ہیبت ناکی اتنی خطرناک ہے کہ بڑے بڑے چالاک اور مدبر بھی کسی نہ کسی شکل میں ان کے دام ہم رنگ میں پھنس جاتے ہیں ۔
اس کی اصل نمرود و فرعون نہیں بلکہ وہ ابلیس لعین ہے جس نے اللہ تعالیٰ کے احکام کی فرمانبرداری کے بجائے تکبر کی راہ اختیار کرتے ہوئے سارے جن و انس کو گمراہ کرنے کی ٹھان لی اور یہ اسی ابلیس کی کا رستانی ہے جس نے بدلتے حالات کے ساتھ ساتھ آج کے نمرودوں کو یہ بات سجھائی کہ اُمت مسلمہ کو گمراہ کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ’’ کفرو شرک ‘‘کا براہ راست نام لینے کے بجائے بہتر یہ ہے کہ ’’کفر و شرک کو ماڈیفائی کر کے اسلام کے سانچے میں ڈالتے ہوئے کسی دوسرے نام کے ساتھ ‘‘اُمت کے سامنے پیش کیا جائے اور آ ج امت ایک ایسے شرک و کفر میں مبتلا ہے جس سے شرک وکفر کے بجائے بعض مولوی صاحبان بھی ’’تاویلات‘‘کا سہارا لیکراسلام قرار دیے جانے کی کوشش کرتے ہیں ۔عام مسلمان کو دھوکا صرف اس وجہ سے ہوتا ہے کہ اسے’’ اسلام‘‘ قرار دینے والے نام نہاد مسلم لیڈر اور نفس پرست علماء ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اُمت نمرودوں اور فرعونوں کے ساتھ ساتھ توحید وشرک کی اس معرکہ آرائی میں بعض مسلمان نامی افراد اور لیڈروں کے ساتھ بھی بر سر جدوجہد ہے ۔اگر قرآن و حدیث کے مطالعے کے بعد ایک مسلمان نفس پرستی اور فرقہ پرستی سے بچتے ہوئے ان نمرودی ایجنٹوں کو اپنے صفوں میں تلاش کرنے کی کوشش کرے گا تو اس سے ان موذی سانپوں کی پہچان ہو جانے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی ۔ارشاد الٰہی ہے ’’کیا وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہے یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ اللہ ان کے دلوں کی کھوٹ ظاہر نہیں کرے گا ،ہم چاہیں تو اُنہیں تم کو آنکھوں سے دکھا دیں اور اُن کے چہروں سے تم ان کو پہچان لو گے۔مگر ان کے انداز کلام سے تو تم ان کو جان ہی لو گے ۔اللہ تم سب کے اعمال سے خوب واقف ہے ۔ہم ضرور تم لوگوں کو آزمائش میں ڈالیں گے تاکہ تمہارے حالات کو جانچیں اور دیکھ لیں کہ تم میں مجاہد اور ثابت قدم کون ہیں (سورۃ المحمد۔30تا32)
( ختم شد)