... loading ...
منصوبے کے مطابق پاکستانی وزارت خارجہ کو چار برس تک بانجھ رکھا گیا۔وطنِ عزیز سے باہر کی دنیا پر نظر ڈالی جائے تو صرف محسوس ہی نہیں ہوتا بلکہ فی الواقع دنیا تیزی کے ساتھ بدل چکی ہے اور یہ بدلاؤ تیزی کے ساتھ جاری ہے۔ جبکہ ان حالات میں پاکستان کو اپنی علاقائی اہمیت کے تناظرمیں جو کردار ادا کرنا ہے اس میں دشمن قوتیں اسے روکنے کے درپے نظر آتی ہیں ۔ داخلی سیاسی صورتحال کی جانب نظر دوڑائی جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں کو دشمن قوتوں نے انتہائی منصوبہ بندی کے تحت استعمال کیا ہے۔ خاص طور پر ملک کی دو بڑی سیاسی حکمران جماعتوں کی لیڈرشپ نے ملکی معاشی بدحالی میں جو سیاہ کردار ادا کیا ہے وہ بھی کسی پاکستان دشمن ایجنڈے سے کم نہیں ہے اور افسوس یہ ہے کہ سب کچھ عیاں ہوجانے کے باوجود یہ لوگ پاکستانی قوم کو مسلسل بے وقوف بنانے کی سعی کررہے ہیں ۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی طفیلی چھوٹی جماعتیں جن میں ایم کیو ایم، اے این پی اور جمعیت علماء اسلام سرفہرست ہیں ، اس ’’بہتی گنگا‘‘ میں اپنے ہاتھ دھونے کی کوششوں میں ہیں ۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والی پختون ملی عوامی پارٹی کے رہنما محمود خان اچکزئی حکمرانوں کو مشورہ دے رہے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کو بھول جائیں اور آزاد کشمیر کے حوالے سے قدم بڑھائیں ۔ ان کی نظر میں شاید یہی مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کا حل ہے۔اس بات کی ٹائمنگ پر غور کیا جائے تو یہ بات ایسے وقت کہہ جارہی ہے جب بھارت کی مودی سرکار مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کے سامنے بے بس ہوتی نظر آرہی ہے خود مودی کا یہ بیان کہ مسئلہ مذاکرات کے ذریعے حل ہونا چاہیے اس بات کی غمازی کررہا ہے کہ بھارت کو مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی سخت ترین مزاحمت اور تحریک آزادی کے سامنے اپنی شکست واضح طور پر نظر آرہی ہے تو پاکستان کی آستینوں میں چھپے ہوئے ’’سانپ‘‘ اب حالات کو دوسرا رخ دینے کی سعی میں مشغول ہوگئے ہیں ۔
یہ صورتحال تو مقبوضہ کشمیر کی ہے افغانستان میں جارح امریکا کے کس بل نکل چکے ہیں ٹرمپ انتظامیہ کو کابل کی بند گلی سے نکلنے کا کوئی راستا سجھائی نہیں دے رہا منصوبہ بندی کے تحت افغانستان کو ’’جدید فکر‘‘ سے ہم آہنگ کرنے کی اس کی تمام کوششیں افغان پہاڑوں پر بکھر چکی ہیں ، ایسا کرتے وقت وہ بھول چکے ہیں کہ افغانستان صرف کابل کا نام نہیں بلکہ ایک استعارہ ہے ۔سب سے زیادہ مضحکہ خیز صورتحال اس وقت نظر آئی جب گزشتہ دنوں افغانستان کا ’’یوم آزادی‘‘ منایا جارہا تھا اور مغربی میڈیا اسے بڑھاچڑھاکر پیش کررہا تھا لیکن کوئی ان سے سوال کرنے والا نہیں تھا کہ جناب جس ملک میں قابض فوجیں بیٹھی ہوں وہاں کے چند مقامی افراد کو کٹھ پتلی انتظامیہ کی شکل میں مسلط کرکے کون سا یوم آزادی منایا جاسکتا ہے؟ ان تمام تر کوششوں کے باوجود ذرائع کے مطابق وہاں حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں امریکا جیسے ہی اپنے کسی نئے منصوبے کا اعلان کرتا ہے، افغان مزاحمت بنام افغان طالبان اسے دھول میں اڑا دیتی ہے۔ ان حالات نے نہ صرف وہاں امریکا کو برانگیختہ کررکھا ہے بلکہ امریکا کے بعد اس کے سب سے بڑا علاقائی اتحادی بھارت کے بھی ہوش اڑے ہوئے ہیں ۔ بھارت کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری داؤ پر لگ چکی ہے۔ نواز شریف حکومت کی شکل میں اسے جو سیاسی اتحادی میسر تھا وہ ہوشربا معاشی کرپشن کا الزام ثابت ہونے پرجاتی امراء میں عدالتی نااہلی کے لگے زخم چاٹ رہی ہے۔اب بھارتی سرمایہ دار سجن جندال کولاکھوں ٹن لوہے کے ذخائر بھارت منتقل کرنے کے لیے کون راہداری مہیا کرے گا؟ جس بھارت اور اس کے مغربی اتحادیوں کی خوشنودی کی خاطر ساڑے چار برس تک جنہوں نے پاکستانی وزارت خارجہ کو بانجھ رکھا وہ اپنی دُکان بڑھا چکے۔بھارت کو اب یہ بھی خطرہ محسوس ہورہا ہے کہ پاکستان کی تقدیر پر مسلط جس سیاسی ٹولے نے بھارت کی آبی دہشت گردی پر زبان کو تالے ڈال رکھے تھے، وہ اب مکافاتِ عمل کی زد میں آچکے ہیں اور نئے آنے والے حکمران کہیں ان پانی کے ڈیموں کو تباہ کرنے کے لیے کوئی جنگی اقدام نہ کربیٹھیں یہ بھارت کے لیے ایسی ’’مہابھارت‘‘ ثابت ہوسکتی ہے جو اسے اکتوبر 1999ء کی پہلی سطح پر نہ کھڑا کردے جب اس وقت کے بھارتی وزیر خارجہ جسونت سنگھ پسینے میں شرابور کابل سے اپنے یرغمالی چھڑا کر لیکر گئے تھے۔
وطن عزیز کے گردواقع یہ صورتحال یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اس کا خوفناک ترین فیز اس وقت مشرق وسطی میں نظر آرہا ہے جہاں پر تین بڑے عرب ملک یمن ، شام اور عراق ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں ۔ لیبیا پر خلیفہ حفتر کی شکل میں ایسا شخص مسلط کیا گیا ہے جو چوبیس برس تک میری لینڈ میں سی آئی اے کے ہیڈکوارٹر کے نزدیک مقیم رہا ہے۔ قطر پر اس کے ہمسایہ ملکوں نے پابندیاں عائد کررکھی ہیں ۔کھیل غیر محسوس طریقے سے اسرائیل کی جیب میں منتقل ہوچکا ہے۔ کسی زمانے میں اسرائیل کو’’ عدو‘‘ یعنی دشمن پکارنے والے عرب ملک اس سے کھلے عام سفارتی تعلقات استوار کرنے کے لیے بے چین ہیں ۔وہ اسلامی تحریکیں جو کبھی اسرائیل کے خلاف اس کی جانب عرب ملکوں اور قوم کی ہراول فوج کہلاتی تھیں آج انہیں عرب ملکوں کی سب سے بڑی دشمن قرار دے دیا گیا ہے یوں کہا جاسکتا ہے کہ عالم عرب کی جیوپولیٹیکل حیثیت نوے ڈگری کے زاویے پر بل کھا چکی ہے۔پاکستان کے منصوبہ ساز اداروں کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ یہ صورتحال ایک دن میں تخلیق نہیں کی گئی بلکہ اس کے پیچھے اسلام دشمن قوتوں کی برسوں کی عرق ریزیاں اوراپنوں کی عاقبت نااندیشی شامل ہے جس کا عملی طور پر آغاز سوویت یونین کی تحلیل کے فورا بعد کردیا گیا تھا۔ عرب ایران تنازع اس کے بعد عرب کے موجودہ آپس کے اختلافات کے بطن سے اسرائیل کی صہیونی دجالی ریاست کی عالمی سیادت کا بگل بجنے والا ہے جس کا آغاز مشرق وسطی میں اسرائیل کی مکمل طور پر اعلانیہ بالادستی کی شکل میں کیا جائے گا جس کا مکمل ا سکرپٹ مغرب میں تیار پڑا ہے۔پہلے مرحلے میں اسرائیل کی مشرق وسطی میں مکمل بالادستی سے جنوبی ایشیا میں بھارت کو تقویت ملے گی جس کا سامنا بہرحال خطے میں پاکستان کو کرنا ہے یہی وجہ ہے کہ گذشتہ دس برسوں کے دوران پاکستان کو اندر سے کھوکھلا کرنے کے لیے معاشی دہشت گردوں کو میثاق جمہوریت اور این آر او کی بنیاد پر کرپٹ ترین سیاستدانوں کوپاکستان پر مسلط کروایا گیا اور ان کی لوٹی ہوئی دولت کو بیرون ملک تحفظ دینے کی قیمت پر انہیں پاکستان کے دفاع کے ضامن اداروں سے الجھانے کے لیے پوری طرح تھپکی دی گئی۔
ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ صدام حسین کی جانب سے کویت پر چڑھائی اگر مشرق وسطی کی جدید تاریخ کا بڑا بلنڈر تھا تو مصر میں اخوان المسلمون کا حکومت لینا اس سے بھی بڑا سانحہ ثابت ہوا ہے۔ اخوان کی تحریک جس انداز میں اپوزیشن میں رہ کر فعال کردار ادا کرسکتی تھی اس طرح حکومت میں آکر وہ مکمل طور پر وہاں کے عسکری اداروں کے ہاتھوں بے بس کردی گئی تھی اور جس وقت مصری تاریخ کے پہلے منتخب صدر مرسی نے اپنی حکومت کے ایک برس کے دوران ان مغرب نواز من مانیوں کے خلاف ہاتھ بڑھایا تو وہاں انقلاب کی شکل میں اخوانیوں کو بری طرح کچل دیا گیا۔
(جاری ہے)