وجود

... loading ...

وجود

نواز زرداری ایک ہی سکہ کے دو رخ

هفته 26 اگست 2017 نواز زرداری ایک ہی سکہ کے دو رخ

نواز اور زرداری کی کرپشن کے سلسلہ میں جنگ جاری ہے کہ دونوں اپنے آپ کو کرپشن کنگ بن کر زیادہ بڑا سرمایہ داربننے اور کہلوانے پر تلے ہوئے ہیں ۔زرداری صاحب تواپنا صدارتی دور مکمل کرکے اور فوج کے خلاف نفرت انگیز باتیں کرکے اسی شام ملک سے بھاگ نکلے تھے اور شہیدوں کے وارث جناب راحیل شریف کی مدت ملازمت تک ادھر واپس آنے کی جرات تک نہ کر سکے سرے محل اور سوئس اکاؤنٹس کے کروڑوں ڈالر وہ ہڑپ کر گئے اور ڈکار تک نہ لیاچونکہ کرپشن کنگز اور کرپٹ ٹولہ ایک دوسرے کامددگار ہوتا ہے اس لیے ان معاملات پر مک مکائی سیاست کی وجہ سے ان کاکوئی کچھ نہ بگاڑ سکا پاکستان کے اندر ان کی اور ان کے عزیز و اقارب کی پندرہ شوگر ملز ہیں جو کہ چند خود لگائی گئی ہیں باقی مالکان سے ڈرادھمکا کرتھوڑے دام دیکر قبضہ کی گئی ہیں اسی طرح ایک لاکھ ایکڑ زمین پر بھی زبردستی قبضہ یا پھر تھوڑی رقوم دیکر نام نہاد خریداری دکھائی گئی ہے۔
بلاول ہاؤس کراچی کے ارد گرد تو درجنوں عمارات و کوٹھیاں ان کے ذاتی دوست عزیر بلوچ کی” خصوصی مہربانیوں ” سے قبضہ کی گئی ہیں ۔میاں منشاء کے بعد زرداری صاحب ہی پاکستان کے سب سے بڑے سرمایہ دار ہیں اور نواز شریف صاحب اس مقابلے میں چند ہی قدم پیچھے ہیں ان کا خاندان بھی ملک کے بننے سے لیکر 1977 تک صرف اتفاق فاؤنڈری کا مالک تھا جسے بھٹو حکومت نے قومیالیا تھا ان دنوں تو کسی دفتر کے ڈپٹی سیکریٹری کوملنے کے لیے بھی انھیں کئی روز انتظار کرنا پڑتا تھا مگر خدا کی قدرت دیکھئے کہ ان کے والد کے پاکستان قومی اتحاد کے راہنماؤں سے ذاتی تعلقات ہونے کی وجہ سے ضیاء الحق نے بھی ان کی ملز کو سب سے پہلے بحال کیا۔
ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دور میں جنرل غلام جیلانی سے آنکھ مچولیوں اور ضیاء الحق کی خصوصی مہربانیوں سے جب وازرت خزانہ پنجاب نوازشریف کے ہاتھ میں آگئی تو پھر پنجاب کے اندر درجنوں نئی ملز لگ گئیں ۔ اس طرح یہ بھی مال متال کی وجہ سے پاکستان میں تیسرے نمبر پر آگئے۔زرداری صاحب کا توتقریباً تمام بڑی کاروباری کمپنیوں میں حصہ ہے اور موبائل کمپنیوں کی کمائیوں میں سے بھی انھیں 10فیصد حصہ ملتا ہے اس لیے تو جب 100کابیلنس کروائیں تو70روپے ملتے ہیں ۔شریف خاندان نے رائیونڈ کی زرعی ہزاروں ایکڑ زمینوں کو اونے پونے داموں خرید لیا کہ اقتدار کے سامنے کوئی مالک کیسے چوں چرا کرسکتا تھا پھراس علاقہ کو صنعتی زون قرار دیکر یہاں ملیں لگانے والوں کے لیے در آمدی ٹیکس ختم کرڈالا بلکہ بعد میں اس علاقہ کو فری انڈسٹریل زون قرار دے دیا جس کی وجہ سے ان کی دو درجنوں سے زائد ملیں وہاں لگ گئیں اور ان کا شمار ملک کے دو تین بڑے سرمایہ داروں میں ہونے لگا مشرف کے دور میں جب انھیں پاکستانی عدالتوں سے سزا کے بعد سعودی عرب بھجوایاگیا تو انہوں نے سعودیہ لندن و دیگر ممالک میں ملیں لگائیں اور فلیٹس خریدے یہ کچاچٹھہ پانامہ لیکس کے بین الاقوامی صحافیوں کی طرف سے بیان کرنے پر کھل گیا اس پرکئی سرابراہان مملکت اور بادشاہ خود بخود اپنے عہدوں سے استعفے دے گئے۔
مگر میں نہ مانوں کی طرح میاں صاحب کوئی فیصلہ نہ کرسکے بالآخرسپریم کورٹ کا فیصلہ آگیا پہنچااور دو ججز نے توا نھیں کہا ہے کہ وہ صادق اور امین نہیں رہے اور باقی تین ججوں نے بھی انھی کی پیروی کرتے ہوئے نواز شریف اور ان کے خاندان پر الزامات کو دھرایا ہے مگر دو ماہ کے اندر اندرمزید انکوائری کی ہدایت کی ہے اس طرح سے ان کا حق حکمرانی ختم ہوچکا مگر میں نہ مانوں کی طرح ابھی تک اپنے آپ کووزیر اعظم سمجھتے ہیں حالانکہ ان کی جگہ نیا وزیر اعظم منتخب بھی ہو چکا ہے دنیا بھر میں کہیں بھی کاروباری شخصیات کو اہم عہدوں صدر اور وزایر اعظم پرکبھی بھی منتخب نہیں کیا جاتا اس لیے کہ اگر وہ اپنا کاروبار چلائے گا تو امور مملکت کون چلائے گا ۔
مگر ہمارے ہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے جنہوں نے کرسی لی ہی اس لیے ہے کہ وہ اپنے کاروباروں کو بڑھا سکیں بنکوں سے قرضے لیکر خود ہی معاف کرسکیں اسطرح سے چوپڑی ہوئی اور وہ بھی دودو آسانی سے کھا سکیں بنکوں سے بھرپور قرضے لینے اور معاف کرنے کا خود ہی نوٹیفکیشن جاری کریں اوراپنے ہی دستخطوں سے”ایسا کارنامہ” آسانی سے پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گاہمارے شریف صاحبان بھی پانامہ لیکس کے انکشافات پر فوری استعفیٰ دے ڈالتے تو شاید یہ ساری کھپ شپ ہی ختم ہو جاتی اور انہی کا کوئی بندہ قائد ایوان بنا رہتامگر انہوں نے اس کی پرواہ نہیں کی اور مشیروں نے ایسا کرنے سے روک دیا اقتدار سے اترنا بے عزتی سمجھا گیا مگر اب گلی گلی میں شور ہے “فلاں ” ہی چور ہے کے نعرے لگ رہے ہیں ۔ نواز شریف تو استعفیٰ دیکر جا چکے مگر اب سارے اقتدار کے ختم ہونے جیسے حالات پیدا ہو چکے ہیں نام نہاد مک مکائی اپوزیشن بھی آنکھیں دکھا رہی ہے کہ ڈوبتے ہوئے جہاز سے تو چوہے بھی چھلانگ لگا جاتے ہیں مگر سمجھے ہوؤں کو کون سمجھائے اقتدار تو کسی سگے بھائی یا عزیز کے سپرد کرنے کو دل نہ مانتا ہو تو پھر کون پرسان حال ہو گا؟۔
مسٹر زرداری کی طرح بانٹ بانٹ کر کھاتے پیتے رہتے تو پھر مزید عرصہ بھی گزارا چل جانا تھا۔ہمارے ہاں بکری بھیڑ چور کی تو گرفتاری کے بعد ضمانت تک نہیں ہو سکتی ۔مگر بڑے چور ڈاکو اور کرپشن کنگز کی اول تو ضمانت قبل از گرفتاری ہی ہوجائے گی گرفتاری تو ہو ہی نہیں ہوسکتی اگر ہو بھی جائے تو بعد میں ضمانت ہوکر بالآخر مقدمہ ہی داخل دفتر ہو جاتا ہے ۔ا س لیے شاید حکومت بھگاؤ مہم ناکام ہی رہے گی اور مقتدر لوگوں کی طرف سے کرپشن کا کاروبار ویسے کا ویسا ہی اس وقت تک چلتارہے گا جب تک بدبو دار گلیوں مفلکو ک الحال لوگوں کی رہائش گاہوں چکوں گوٹھوں سے اللہ اکبر اللہ اکبر کی صدائیں بلند کرتے اور سیدی مرشدی یا نبی یانبی کے نعرے لگاتے لوگ تحریک کی صورت میں جوق در جوق نہ نکلیں گے اور پولنگ اسٹیشنوں پر جا کر تمام جغادری کرپٹ سیاستدانوں ظالم جاگیرداروں ،سود خور سرمایہ داروں کا تختہ بذریعہ ووٹ الٹ کر ملک کو فلاحی مملکت بنا ڈالیں گے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر