... loading ...
رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا کہ : ’’ ذی الحجہ کے پہلے دس دنوں سے زیادہ اور کوئی افضل دن نہیں ہے۔‘‘ (صحیح ابن عوانہ ، صحیح ابن حبان)
عشرہ ذی الحجہ میں ایک دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر اور اِس میں ایک رات کی نماز سال بھر کی نمازوں کے برابر ہے
بنی آدم کا کوئی عمل بقرعید کے دن اللہ تعالیٰ کو قربانی کا خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ‘جانورکے ہربال کے عوض اجرملے گا
ماہِ ذی الحجہ اسلامی تقویم کے اعتبار سے بارہواں اور آخری مہینہ کہلاتا ہے ۔ اس مہینہ میں اسلام کا ایک انتہائی اہم اور عظیم رکن ’’حج‘‘ اداکیا جاتا ہے ، جس میں تمام روئے زمین کے چپہ چپہ سے مختلف علاقوں ، مختلف خاندانوں اور مختلف زبانوں کے مسلمان محبت الٰہیہ میں رخت سفر باندھ کر ’’ لبیک اللہم لبیک‘‘ کی دیوانہ وار صدا لگاتے ہوئے ایک مخصوص جگہ (بیت اللہ شریف میں ) جمع ہوتے ہیں اور حج جیسا اہم اور عظیم فریضہ انجام دیتے ہیں ۔ اسی وجہ سے ماہِ ذی الحجہ کا پہلا عشرہ سال بھر کے تمام دنوں میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ ہے ۔
چنانچہ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس کی قسم کھا تے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : ’’ ترجمہ: قسم ہے فجر کے وقت کی اور دس (۱۰) راتوں کی اور جفت کی اور طاق کی ۔‘‘ (ترجمہ: مفتی تقی عثمانی) (سورۃ الفجر : ۳۰/۱،۲،۳)
امام سیوطیؒ نے دُر منثور میں متعدد سندوں سے یہ روایت نقل کی ہے کہ حضورِ اقدس ؐ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’اِس آیت میں ’’دس (۱۰) راتوں ‘‘ سے ذی الحجہ کا پہلا عشرہ مراد ہے اور وتر ( طاق) سے عرفہ کا دن اور ’’شفع‘‘ ( جفت) سے قربانی (یعنی عید الاضحی ) کا دن مراد ہے ۔ (دُر منثور التفسیر بالماثور)
حضرت عباسؓ سے مروی ہے کہ رسالت مآب ؐ نے ارشاد فرمایا کہ : ’’سال بھر کے تمام دنوں میں سے کوئی دن (جس میں بے انتہا عمل صالح یعنی نیکیاں و بھلائیاں کی گئی ہوں ) ماہِ ذی الحجہ کے عشرہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ۔‘‘ صحابہ نے عرض کیا : ’’یارسول اللہؐ! کیا اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد و قتال کرنا بھی اس کے برابر نہیں ؟۔‘‘آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد و قتال کرنا بھی اِس کے برابر نہیں ۔‘‘ راوی کا بیان ہے کہ تین مرتبہ صحابہؓ نے یہی سوال کیا اور آپؐ نے تینوں مرتبہ یہی جواب عنایت فرمایا۔ پھر آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’البتہ وہ شخص جو اپنے مال و جان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے کے لئے گیا ہو اور وہیں میدانِ جہاد میں شہید ہوگیا ہو( تو اُس شخص کا اجر و ثواب ان دس (۱۰) دنوں کے اجر و ثواب کے برابر ہوسکتا ہے۔)(صحیح بخاری)
حضرت ابو ہریرۃؓسے روایت ہے کہ نبی پاکؐ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’ کسی دن کی عبادت اللہ تعالیٰ کو اتنی محبوب نہیں جتنی کہ ذی الحجہ کے پہلے دس دنوں کی محبوب ہے ۔ عشرہ ذی الحجہ میں ایک دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر اور اِس میں ایک رات کی نماز سال بھر کی نمازوں کے برابر ہے۔‘‘ (غنیۃ الطالبین)
حضرت سعید بن جبیر رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ : ’’ عشرہ ذی الحجہ کی راتوں میں چراغ بجھایا نہ کرو! آپ کو اس عشرہ میں عبادت بہت پسند تھی حتیٰ کہ اپنے خادموں کو بھی اِن راتوں میں عبادت کے لیے بیدار رہنے کا حکم فرمایا کرتے تھے۔ (غنیۃ الطالبین)
حضرت جابر بن عبد اللہؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا کہ : ’’ ذی الحجہ کے پہلے دس دنوں سے زیادہ اور کوئی افضل دن نہیں ہے۔‘‘ (صحیح ابن عوانہ ، صحیح ابن حبان)
اسی وجہ سے علماء نے لکھا ہے کہ: ’’ جس شخص نے سال کے افضل دنوں میں روزہ رکھنے کی منت مانی ہو، اُسے عرفہ (نو (۹) ذی الحجہ) کے دن روزہ رکھ کے اپنی منت پوری کرنی چاہیے ، اور جس نے ہفتہ کے کسی دن روزہ رکھنے کی منت مانی ہو تو اُسے چاہیے کہ وہ جمعہ کے دن روزہ رکھ کے اپنی منت پوری کرے۔
عشرہ ذی الحجہ کے دنوں کی فضیلت اس لیے ہے کہ اس میں ’’عرفہ‘‘ کا دن واقع ہے اور ماہِ رمضان کے آخری عشرہ کی راتیں اس لیے افضل ہیں کہ اُن میں ’’شب قدر‘‘ واقع ہے ۔ اور چوں کہ ماہِ ذی الحجہ میں عرفہ کا دن آتا ہے اس لیے اس دن کو تمام دنوں پر فضیلت حاصل ہے ۔
بقر عید کے شروع کے نو (۹) دنوں میں روزہ رکھنے کی فضیلت اور ان کے مستحب ہونے کے بارے میں بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ چنانچہ بعض ازواجِ مطہراتؓ سے منقول ہے کہ نبی اکرمؐ عیدالاضحی کے نو (۹) دن ، دسویں محرم اور ہر ماہ میں اکثر و بیشتر تین روزے رکھا کرتے تھے ۔ اور ہر ماہ کے تین دنوں میں سے پہلے پیر اور پہلی جمعرات کے دن روزہ رکھتے تھے ۔ ( سنن ابو داؤد ، سنن نسائی)ایک روایت میں ہے کہ سرکارِ دو عالم ؐذی الحجہ کے عشرہ اور ہر ماہ تین دن روزہ رکھا کرتے تھے ۔ (ماثبت بالسنۃ فی احکام السنۃ)
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ؐنے ارشاد فرمایا کہ: ’’جس شخص نے عشرہ ذی الحجہ کی کسی تاریخ میں رات بھر عبادت کی تو گویا اُس نے سال بھر حج کرنے اور عمرہ کرنے والے کی سی عبادت کی ، اور جس نے عشرہ ذی الحجہ کا کو ئی روزہ رکھا تو گویا اُس نے پورا سال اللہ تعالیٰ کی عبادت کی۔‘‘ (غنیۃ الطالبین)
ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ عرفہ کی فجر سے یوم نحر کی عصر تک (ہرنماز کے بعد بآوازِ بلند ) تکبیرات تشریق : ’’ اللہ اکبر ، اللہ اکبر ، لا الٰہ الا اللہ واللہ اکبر ، اللہ اکبر ، وللہ الحمد‘‘ پڑھا کرتے تھے۔اور حضرت علی المرتضیٰ ؓ عرفہ کی فجر سے ایام تشریق کے اخیر دن (یعنی تیرھویں ) کی عصر تک (ہر نماز کے بعدمذکورہ بالا) تکبیرات تشریق پڑھا کرتے تھے۔(الترغیب و الترہیب)
مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب ؒنے اس کی تشریح میں لکھا ہے کہ : ’’چوں کہ حضرت علیؓ کی روایت بھی صحیح سند سے
ثابت ہے ، اس واسطے حنفیہ کا عمل اسی پر ہے اور عبد اللہ بن مسعود ؓ نے زائد کی نفی نہیں کی ، لہٰذا اُن کے خلاف بھی نہیں ہوا۔‘‘ (خطبات الاحکام لجمعات العام)
ماہِ ذی الحجہ کی دوسری اہم ترین عبادت قربانی ہے اور اس کا بہت بڑا ثواب ہے۔ چنانچہ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’ بنی آدم کا کوئی عمل بقرعید کے دن اللہ تعالیٰ کو قربانی کا خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ۔ اور بے شک (قربانی کا) خون زمین پر گرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہوجاتا ہے ۔ لہٰذا قربانی کے اِس عمل کے ساتھ اپنا دل خوش کرو!۔ (جامع ترمذی ، سنن ابن ماجہ)
(ایک مرتبہ )صحابہؓ نے عرض کیا : ’’ یارسول اللہؐ! یہ قربانیاں کیا ہیں ؟‘‘ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’یہ تمہارے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ۔‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا : ’’ہمارے لیے اس میں کیا (ثواب) ہے یا رسول اللہؐ!؟‘‘ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ : ’’ہر بال کے عوض ایک نیکی ہے ۔ عرض کیا کہ: ’’ (بھیڑ وغیرہ کی ) اُون میں کیا (ثواب) ملتا ہے (یا رسول اللہؐ!؟‘‘ آپ ؐ نے فرمایا کہ :’’(بھیڑ وغیرہ کی ) اُون میں بھی ہر بال کے عوض ایک نیکی ہے۔‘‘ (مسند احمد ، سنن ابن ماجہ)
ایک حدیث میں آتا ہے ٗ حضورِ اقدس ؐ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’ جس شخص نے دل کی خوشی اور ثواب طلب کرنے کے لیے قربانی کی ، تو وہ قربانی (جہنم کی ) آگ سے اُس شخص کے واسطے آڑ ہوگی۔‘‘ (الترغیب والترہیب)
٭٭