... loading ...
زمانہ قدیم میں ایک عرب کہاوت ہوا کرتی تھی کہ ’’ وقت خراب ہو تو اونٹ پر بیٹھے شخص کو بھی کتا کاٹ لیتا ہے‘‘اس وقت بعینہ یہی صورتحال سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی ہے وہ جو قدم اٹھاتے ہیں وہ الٹا پڑ رہا ہے لیکن دسترخوانی گرو ہ انہیں مسلسل نامعلوم منزل کی جانب دوڑائے جارہا ہے۔ انہیں بار بار یہی باور کرایا جارہا ہے کہ ان میں ایک ’’انقلابی لیڈر‘‘ کے تمام اوصاف پائے جاتے ہیں۔حالانکہ کہاں انقلاب اور کہاں میاں صاحب،نااہلی کا فیصلہ سنتے ہی وہ بجائے لاہور کی جانب نکلتے وہ مری پہنچ گئے اور وہاں اپنے روایتی درباریوں کا دربار سجالیا جو انہیں مسلسل ریاستی اداروں سے لڑ جانے کا مشورہ دیتے رہے ۔ دوسرے انداز میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ میاں صاحب جو کچھ سننا چاہتے تھے ان کے درباری وہی کچھ انہیں سناتے رہے۔ ان کو بتایا گیا کہ جی ٹی روڈ سے واپس لاہور جاتے ہوئے ان کا وہ والہانہ استقبال ہوگا کہ ریاستی ادارے سہم جائیں گے اور ممکن ہے کہ سپریم کورٹ نااہلی کا فیصلہ بھی واپس لینے پر مجبور ہوجائے۔
اسلام آباد اور پنڈی کی تقریبا تمام سیٹیں نون لیگ کے پاس ہیں لیکن یہاں ایم این اے اور ایم پی اے کتنے افراد نکالنے میں کامیاب ہوئے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ جبکہ پنجاب کی صوبائی حکومت کے علاوہ آزاد کشمیر کی ریاستی مشنری پوری قوت سے اُن کے ساتھ تھی ان صوبائی حکومتوں نے ہزاروں پولیس والوں کو سول کپڑوں میں ’’ڈیوٹی‘‘ پر لگا رکھا تھا۔پنڈی سے منتخب حنیف عباسی کے بارے میں کہا جارہا ہے انہیں جب غصے سے پوچھا گیا کہ ’’اوئے کہاں ہیں تیرے دو لاکھ بندے ‘‘ تو ان کے پاس سوائے خاموشی کے کوئی جواب نہ تھا،یہی وجہ ہے کہ انہیں پنڈی سے آگے جانے کی ہمت ہی نہ ہوئی۔چوہدری نثار کے قافلے سے الگ ہوجانے کو تنقید کا نشانا بنانے والے احسن اقبال اور نواز شریف کے ڈائی ہارٹ خواجہ آصف کی غیر حاضری کو معلوم نہیں کیوں نظر انداز کرگئے۔
اس ’’استقبال‘‘ کا اندازا اس ایک بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وطن عزیز کی کل آبادی اگر کم وبیش بیس کروڑ ہے تو راولپنڈی سے لاہور تک دراز جی ٹی روڈ کے گرد جو بڑے چھوٹے شہر اور قصبے آباد ہیں ان میں تقریبا کل آبادی میں سے آٹھ کروڑ یہاں مقیم ہے لیکن میاں صاحب کے استقبال کے لیے کتنے لوگ نکلے؟ وہ سب کے سامنے ہے۔ بہرحال تمام تر خطرات کے باوجود میاں صاحب کے جی ٹی روڈ سے سفر میں ریاستی اداروں نے کوئی رکاوٹ نہ ڈالی۔ بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر انہیں جی ٹی روڈ سے جانے دیا گیا تاکہ وہ اپنی ’’عوامی مقبولیت‘‘ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں اس کے علاوہ جہاں جہاں رک کر انہوں نے ’’انقلابی تقریریں‘‘ کرنا تھیں اس حوالے سے ان کے باطن میں چھپی ہوئی ہر بات پوری طرح عیاں ہوجائے اور ایسا ہی ہوا۔ گجر خاں سے نکلنے کے بعدانہوں نے لاہور پہنچنے میں وہ تیزی دکھائی کہ راستے میں ایک معصوم بچے کو کچلنے کے علاوہ ان کے قافلے کی گاڑیوں نے دیگر بہت سے لوگوں کو روند ڈالا لیکن کسی نے پیچھے مڑ کر دیکھنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ لاہور پہنچ کر جب انہوں نے اپنے استقبال کی معراج دیکھی تو ان کے باطن سے’’ آئین نو‘‘ کی تشکیل اور انقلاب کے لیے عوام سے ساتھ نبھانے کی بات برآمد ہوئی۔
یہ سب کچھ ایسی صورتحال میں ہو رہا تھا کہ داتا دربار اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں ایسے پمفلٹ بڑی تعداد میں تقسیم ہورہے تھے جن پر ’’وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلی پنجاب حمزہ شہباز‘‘ کے نعرے لکھے ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ ذرائع کا کہنا ہے کہ شہباز شریف جلسے میں اس انداز میں موجود تھے جیسے وہ مجبوری اور دبائو کے تحت یہاں آئے ہوں ۔یہی وجہ ہے کہ جب اسٹیج سے تقریر کے لیے ان کا نام پکارا جارہا تھا تو وہ وزیر اعلی بلوچستان کی ساتھ والی کرسی پر برجمان تھے۔ اُنہوں نے ہاتھ کے اشارے سے اپنا نام نہ لینے کے لیے دو ایک مرتبہ اشارہ بھی کیا اور آخر میں تقریر بھی کی تو انتہائی مجبوری میں۔ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ جس وقت میاں نواز شریف نے عبوری وزیر اعظم کے لیے خاقان عباسی کا نام منتخب کیا تھا تو ساتھ ہی اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کے حوالے سے یہ بھی اعلان کیا گیا تھا کہ مستقل وزیر اعظم وہ ہوں گے لیکن ذرائع کا کہنا تھا کہ شہباز شریف پنجاب پر سے کسی طور بھی اپنی مضبوط گرفت چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ اگر وہ مرکز میں آتے ہیں تو پنجاب کی وزارت اعلی ان کے بیٹے حمزہ شہباز کے پاس ہو کیونکہ ڈی فیکٹو وزیر اعلیٰ کے طور پر وہ پہلے ہی صوبے کے معاملات چلا رہے ہیں۔لیکن مریم نواز ، میاں صاحب اور بیگم صاحبہ شہباز شریف کو اتنی اسپیس دینے کے لیے تیار نہیں تھے جہاں سے ایک بڑی دراڑ نون لیگ میں روز اول سے پڑ گئی۔ جبکہ چوہدری نثار نے اسلام آباد میں ہی یہ بیان دے دیا تھا کہ نون لیگ کی ۹۹ فیصد قیادت اس قافلے میں شامل نہیں۔ یہ صرف ایک بیان نہیں ہے بلکہ چوہدری نثار کی جانب سے نون لیگ کی اعلیٰ قیادت کے خلاف ایک چارج شیٹ ہے جس کا اندازہ اب آنے والے دنوں میں خود میاں صاحب کو بھی ہونے جارہا ہے۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف کے حواریوں نے انہیں جس راستے پر ڈال دیا ہے اب وہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ میاں صاحب نے آئین نو کی بات تو کردی ہے لیکن اس آئین کی منظوری وہ کہاں سے لیں گے؟ موجودہ اسمبلی تو قانون ساز ہے تو کیا وہ خاقان عباسی سے اسمبلی تڑوائیں گے؟ اور پھر نئے انتخابات۔ لیکن وہ کیسے ہوں گے ابھی تک مردم شماری کا مرحلہ اور نتائج مکمل نہیں ہوسکے ہیں اور نہ ہی نئی حلقہ بندیوں کی نوبت آئی ہے۔ اس کے علاوہ ذرائع اس جانب بھی اشارہ کررہے ہیں کہ اب میاں صاحب کے گرد موجود ٹولہ انہیں باور کرا رہا ہے کہ خاقان عباسی اگر مزید کچھ دیر اور عبوری وزارت عظمیٰ کے عہدے پر رہا تو یہ ’’پکا‘‘ ہوجائے گااس لیے جلدی کی جائے۔ ویسے بھی شاہد خاقان عباسی نے جس تیزی کے ساتھ پاکستان کی معیشت کا بیڑا غرق کرنے والے اسحاق ڈار کو اقتصادی رابطہ کیمیٹی سے الگ کرکے یہ عہدہ اپنی جیب میں ڈال لیا ہے اس نے نواز شریف سمیت نون لیگ کے وزرا کے مخصوص ٹولے کے کانوں میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف کی ناں کے بعد بیگم کلثوم نواز کو حلقہ این اے 120سے میاں صاحب کی نشست سے انتخاب لڑایا جارہا ہے تاکہ انہیں خاقان عباسی کے بعد مستقل وزیر اعظم بنایا جائے ۔اس کے ساتھ ساتھ نون لیگ کی سربراہی بھی انہیں ہی سونپی جائے کیوںکہ میاں صاحب اپنے چھوٹے بھائی پر کسی طور بھی بھروسا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اگر بیگم صاحبہ حلقہ این اے 120سے انتخاب جیت جاتی ہیں اور وزیر اعظم ہائوس پہنچ جاتی ہیں تو پس پردہ بڑے میاں صاحب ہی ’’مرد اول‘‘ کے طور پر معاملات چلانے کی کوشش کریں گے۔ لیکن ذرائع کا کہنا ہے کہ شہباز شریف کی شکل میں مسلم لیگ (ش) کے فعال ہوجانے سے حلقہ این اے 120سے نون لیگ کو خاصی مشکل پیش آسکتی ہے۔
یہ وہ صورتحال ہے جس میں میاں صاحب اب عوام کی مدد سے انقلاب برپا کرنے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ معلوم نہیں انہیں یہ ایجنڈا کس نے دیا ہے یہ اندر ہی حواریوں کی پیداوار ہے یا ’’میثاق جمہوریت‘‘ کی طرح باہر ڈرافٹ کیا گیا۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ تین دہائیوں تک مختلف شکلوں میں اقتدار کے مزے لوٹنے والے کبھی انقلاب نہیں لاسکتے۔میاں صاحب جی ٹی روڈ پر سفر کے دوران بار بار لوگوں کو سناتے رہے ’’مجھے کیوں نکالا گیا‘‘ یہ سوال ایسا ہے کہ جب غریب عوام کے ٹیکسوں کے کروڑوں اربوں روپے انہوں نے اپنے وکیلوں پر لٹا دیے وہ انہیں یہ نہ سمجھا سکے کہ عدالتی فیصلے کا مطلب کیا ہے تو عام عوام بیچارے کیسے سمجھیں کہ میاں صاحب کو کیوں نکالا گیاہے۔ یہ سوال تو میاں صاحب کو عوام کی بجائے اپنے ان وکیلوں سے کرنا چاہئے جن کے بینک اکائونٹس اچانک آسمان سے باتیں کرنے لگے ہیں۔ دوسرا جس دھڑلے سے میاں صاحب اور ان کے حواری راستے بھر توہین عدالت کرتے رہے اور ججوں کے ساتھ ساتھ اشاروں میں اسٹیبلشمنٹ کی جانب بھی انگلی اٹھاتے رہے تو انہیں سمجھنا چاہئے کہ مکافات عمل کے اس چکر میں اگر اسٹیبلشمنٹ پیچھے ہوتی تو کیا میاں صاحب کا سیاسی باب بند کردینے کے لیے ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف اور چوہدری نثار کافی نہ تھے۔بنیادی طور پر میاں صاحب چاہتے تھے کہ فوج یا عدلیہ کی جانب سے انہیں گرفتار کیا جائے تاکہ وہ اپنے آپ کو ’’ شہید جمہوریت‘‘ ثابت کرسکیں اور پاکستان کے اندر اور باہر سے ہمدردیاں سمیٹ سکیں۔لیکن ایسا نہیں ہوسکا، انہیں کھل کر کھیلنے کا موقع فراہم کردیا گیا بالکل اسی طرح جس طرح عدالت عظمیٰ نے انہیں اپنی صفائی کے لیے بھرپور وقت فراہم کیا تھا۔ اب چند دنوں بعد ریفرنس کھلنے والے ہیں جس کے بعد فورا ای سی ایل میں متعلقہ افراد کے نام ڈالیں جائیں گے اور گرفتاریاں عمل میں آئیں گی۔
وطن عزیز کی قریبی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ذوالفقار علی بھٹو جیسے زیرک سیاستدان نے جب مخالفت کی ہوا چلنے پر عوامی قوت کا مظاہرہ کیا تھا تو وہ بھی ان کے کسی کام نہ آسکا تھاکیونکہ عوامی قوت کے مظاہرے کامیاب تو ہوجاتے ہیں لیکن ان کے بعد کے حالات کو کاندھا دینے کے لیے عوام کبھی باہر نہیں نکلتے ۔ اسی لیے ذرائع کا کہنا ہے کہ کسی مخلص رفیق نے میاں صاحب کو مشورہ دیا تھا کہ وہ جی ٹی روڈ سے نہ جائیں کیونکہ اگر یہ شو کامیاب بھی ہوگیا تو بات صرف شو تک رہے گی بعد میں پیدا ہونے والے حالات آپ سنبھال نہیں سکیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ میاں صاحب نے ایک لمحے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر ہونے والی ریلی کے خلاف رٹ پر محفوظ فیصلے کا انتظار کیاتھا اوریہی وجہ ریلی کی ابتدا میں تاخیر کا سبب بنی تھی کہ اگر اسلام آباد ہائی کورٹ ریلی کے خلاف فیصلہ دیتی ہے تو اسے عدالتی فیصلہ کہہ کر ملتوی کردیا جائے لیکن پھر وہی کم بختی کہ جب وقت خراب ہو تو کیا کیا جائے ۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی اس ریلی کے خلاف دائر رٹ مسترد کردی ۔
اب مشکل یہ ہے کہ میاں صاحب کے لیے ملک میں انقلاب برپا کرنا تو ناممکنات میں سے ہے۔ البتہ جاتی امرا میں انقلاب پوری طرح انگڑائیاں لیتا محسوس ہورہا ہے جس کی ابتدا شہباز شریف کی اہلیہ تہمینہ درانی کے ٹوئیٹس سے ہوچکی تھی۔ اس کے بعد نون لیگ کی حقیقی قیادت کا منظر سے غائب ہوجانااس بات کی گواہی ہے کہ میاں صاحب کے ساتھ سوائے مشرف لیگ کے ترکے کے کوئی نہیں۔ انہیں میں سے زیادہ تر ریلی کے دوران دھمالیںڈالتے رہے۔بڑے میاں صاحب کے سیاسی ترکے کی وارث اس وقت دو شخصیات ہی نظر آرہی ہیں ایک بیگم صاحبہ محترمہ کلثوم نواز اور دوسری ان کی صاحبزادی مریم نواز صاحبہ لیکن اس وراثت کے حق استعمال کا دارومدار بھی ’’ڈبہ نمبر10‘‘ میں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ڈبے سے کیا نکلتا ہے۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ اس میںایسے ناقابل تردید قسم کے معاملات ہیں کہ پورا شریف خاندان اس کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ میاں صاحب لاہور تو آچکے ہیں لیکن اب ڈاکٹر طاہر القادری اور ان کی تحریک، قصاص کی طلب گار بھی ہے۔