... loading ...
اللہ تعالیٰ نے پاکستان کی سرزمین کو دنیا کی ہر نعمت سے نوازا ہے ،بلکہ اگر یہ کہاجائے کہ اس ملک کی سرزمین کی ہر اینٹ ہر پتھر کے نیچے سے اللہ کی کوئی نہ کوئی نعمت چھپی ہوئی ہے ا س میں سے بہت سی نعمتوں سے ہم استفادہ کررہے ہیں ، بعض نعمتوں کو نکال نکال کر ہمارے رہنما اپنی تجوریاں بھرتے رہے ہیں اور بھر رہے ہیں اور بعض نعمتیں ہمیں فراہم کرکے ان پر بھاری ٹیکس لگا کر اپنے اللے تللوں کاانتطام کرتے رہتے ہیں ،اللہ تعالیٰ نے اس پاک سرزمین کو جن نعمتوں سے نوازا ہے ان میں گیس ، پیٹرول، تانبا ، لوہا، سونا، سنگ مرمر، لعل ، ویاقوت، نمک اور دیگر معدنیات شامل ہیں ،یہی نہیں اللہ تعالیٰ پاکستان کو ہر طرح کے لذیز پھل ، سبزیاں اور دیگر نباتات سے بھی نوازا ہے جبکہ پاکستان میں ایسی جڑی بوٹیوں کی بھی کمی نہیں جو پوری دنیا میں جان بلب مریضوں کی جانیں بچانے کے کام آرہی ہیں ، اور پاکستان کے عظیم سائنسداں اورکیمیا داں ، پاکستان کے ممتاز، مصور اور ادبی ناقد ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نئی نسل کیلئے مشعلِ راہ ہیں ۔ ڈاکٹر سلیم الزماں بھارت کے یوپی کے مشہور ضلع بارہ بنکی میں 19 اکتوبر 1897کو پیدا ہوئے اور جرمنی میں یونیورسٹی آف فرینکفرٹ سے ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد انڈین کونسل فار سائنس اینڈ انڈسٹریل ریسرچ سے وابستہ ہوئے۔ ہجرت کے بعد پاکستان کونسل فار سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ کی بنیاد رکھی اور ملک میں صنعتی ترقی کے لیے بہترین ادارے قائم کئے۔
ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے اپنی زندگی میں 300 سے زائد تحقیقی مقالے لکھے اور 40 سے زائد ادویہ یا مرکبات کی پیٹنٹ اپنے نام کیں جن میں نیم سے حاصل ہونے والے اجزا سرِفہرست ہیں ۔ انہوں نے ہولرینا پودوں پر غیرمعمولی تحقیق کی جن سے دل، دماغ اور بلڈ پریشر کے امراض کی علاج کی راہیں ہموار ہوئیں ۔ بین الاقوامی کمپنیوں نے اِس دریافت سے خطیر رقم کمائی۔ ڈاکٹر صاحب کی انہی خدمات کے نتیجے میں 1966میں انہیں ’بابائے ہولرینا کیمیا‘ کا خطاب دیا گیا۔ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے انتخابات میں استعمال ہونے والی انمِٹ سیاہی کا فارمولا بھی بنایا جو آج تک استعمال ہورہا ہے۔ ملک کو سائنسی بنیادوں پر اپنے پیروں پر کھڑا کرنے والا یہ درویش صفت سائنسداں جب 14 اپریل 1994کو اِس دنیا سے رخصت ہوا تو رہائش کے لیے اپنا ذاتی مکان تک نہ تھا۔
ڈیرہ غازی خان کی شاہراہِ حیرت
ڈیرہ غازی خان سے فورٹ منرو جانے والی شاہراہ لگ بھگ 80 کلومیٹر طویل ہے لیکن ارضیاتی اور معدنی خزانوں سے مالا مال ہے۔ جیسے ہی آپ ڈیرہ غازی خان سے روانہ ہوتے ہیں تو پہلے اِس سڑک کے دونوں اطراف چھوٹی مشینیں دکھائی دیتی ہیں جو سڑک اور عمارتیں تعمیر کرنے والے اہم تعمیراتی مٹیریل کو چھوٹے پتھروں میں ڈھالتی ہیں ۔ یہ معیاری مٹیریل عمارت، سڑکیں اور پل وغیرہ بنانے میں استعمال ہورہے ہیں ۔
اسی پہاڑی سلسلے میں سیمنٹ بنانے کا اہم جزو جپسم بکثرت موجود ہے جو قریبی سیمنٹ فیکٹریوں کوفراہم کیا جارہا ہے۔ اِس کے علاوہ چونے کے پتھر کے اہم ذخائر بھی یہاں پائے جاتے ہیں ۔یہ علاقہ پاکستان بھر میں یورینیم کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے۔ اگرچہ اِس روڈ پر یورینیم کی کم مقدار والی سرمئی مٹی دکھائی دیتی ہے تاہم اِس سے قریب بغل چْور کے علاقے میں اعلیٰ یورینیم کے ذخائر موجود ہیں ۔ اِس سے آگے بڑھیں تو اِسی روڈ پر تیل و گیس کے ذخائر بھی اپنی شان دکھاتے نظر آتے ہیں ۔
ایک مقام پر پہاڑ کے درمیان میں کتھئی رنگ کی ایک پٹی دیکھی جاسکتی ہے جسے ’کے ٹی‘ یعنی (کرے ٹیشیئس-ٹیریٹری) باؤنڈری کہا جاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جو اب سے ساڑھے چھ (6.5) کروڑ سال قبل ایک عظیم سانحے کی یاد دلاتا ہے جس سے ڈائنوسار صفحہ ہستی سے مٹ گئے تھے۔ اب تک کی تحقیق کے مطابق آسمان سے گرنے والے ایک شہابِ ثاقب کی وجہ سے ڈائنوسار ختم ہوئے تھے۔ کے ٹی باؤنڈری کے آثار پوری دنیا میں موجود ہیں لیکن فورٹ منرو میں یہ بہت اچھی طرح نمایاں ہیں ۔ یہ سڑک دنیا کا ایک عجوبہ ہے جہاں ایک ہی مقام پر اتنی ساری معدنیات اور ارضیاتی خزانے موجود ہیں ۔ اس کے علاوہ یہاں ماربل، کوارٹز اور دیگر اہم معدنیات بھی بکثرت پائی جاتی ہیں ۔
پاکستان کی ہوائی شاہراہ
سندھ میں جھمپیر اور گھارو کے اطراف میں پاکستان کی سب سے تیز ہوا چلتی ہے جسے سندھ شاہراہِ باد (وِنڈ کوریڈور) کا نام دیا گیا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق یہاں اب تک 50 سے زائد ہوائی ٹربائن لگائی جاچکی ہیں اور ہر ٹربائن اوسطاً ایک سے ڈیڑھ میگا واٹ بجلی بناتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلے یہاں ترک کمپنی زورلو انرجی نے ٹربائن لگانے کا آغاز کیا اور اب قریباً تین چار کمپنیاں ٹربائن لگارہی ہیں ۔ تمام تر سست رفتاری اور عدم تشہیر کے باوجود سندھ ونڈ کوریڈور کو دنیا بھر میں صاف اور سستی بجلی بنانے کا ایک اہم مرکز تسلیم کرلیا گیا ہے۔
قدیم مہر گڑھ کی قدیم ٹیکنالوجی جو آج بھی استعمال ہورہی ہے
گزشتہ برس سائنسی حلقوں میں ایک خبر نے پاکستان کی زبردست اہمیت کو مزید اجاگر کیا۔ فرانس کے ماہرین نے اعلان کیا کہ بلوچستان میں سبی کے مقام پر مہر گڑھ کے آثار سے ایک پینڈنٹ نما شے 25 برس قبل دریافت ہوئی تھی۔ اب جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے معلوم ہوا ہے کہ یہ دنیا کا اولین نمونہ ہے جو دھات کاری (میٹالرجی) کی ایک خاص تکنیک ’لاسٹ ویکس کاسٹنگ‘ کے ذریعے بنایا گیا ہے۔
یہ چیز شاید نظرِ بد سے بچنے کے لیے یا پھر زیور کے طور پر بنائی گئی تھی۔ خالص تانبے سے بنی اِس شے کو پہلے موم سے بنایا گیا پھر اِس سخت موم کو نرم گارے کے دو ٹکڑوں کے درمیان سینڈوچ کی طرح دبا دیا گیا اور مٹی کے ٹھیکرے کو دھوپ میں سکھا کر سخت کردیا گیا تھا۔ اِس طرح موم خدوخال کا ایک سانچہ وجود میں آگیا۔ آخری مرحلے میں ایک باریک سوراخ کرکے پگھلا ہوا تانبا اندر ڈالا گیا جس نے موم کو پگھلا کر غائب کردیا اور یوں تانبے کا بے جوڑ لیکن پیچیدہ پینڈنٹ وجود میں آگیا۔یہ ٹیکنالوجی ’لاسٹ ویکس کاسٹنگ‘ کہلاتی ہے جو ’انویسٹمنٹ کاسٹنگ‘ کے نام سے اب بھی استعمال ہورہی ہے۔ یہاں تک کہ امریکی خلائی ادارہ ناسا بھی یہ تکنیک استعمال کررہا ہے۔
پاکستان میں موجود اس دولت اور ہنر مندی کی بنیاد پر بجا طورپر پاکستان کو قدرتی وسائل اور مواقع کی سرزمین کہاجاسکتاہے ، ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کی اس طرح قدر کی جائے جس کی یہ مستحق ہے اور اتنی بے پایاں دولت عطا کرنے پر اللہ تعالیٰ کاشکر ادا کیاجائے۔