وجود

... loading ...

وجود

8بازاروں پر مشتمل فیصل آباد(لائل پور) کی معدوم ہوتی تاریخ

پیر 21 اگست 2017 8بازاروں پر مشتمل فیصل آباد(لائل پور) کی معدوم ہوتی تاریخ

رضا ہمدانی
پنجاب کے شہر لائلپور کو کیپٹن پوپہم ینگ نے ڈیزائن کیا تھا۔ اس شہر کو ایک مکعب کی صورت میں ڈیزائن کیا گیا جو8 بازاروں پر مشتمل ہے۔ اسی بازار میں فیصل آباد کی پہچان کلاک ٹاور ہے یعنی گھنٹہ گھرہے۔ مرکزی ڈیزائن میں لائلپور کا رقبہ 110 ایکڑ تھا لیکن آبادی کے اضافے کے ساتھ8 بازاروں کے باہر بھی رہائشی علاقوں کے لیے جگہ کا تعین کیا گیا۔
لائلپور میں 8 بازاروں سے باہر دو اہم رہائشی علاقے تھے ڈگلس پورہ اور گرو نانک پورہ واقع ہیں ۔ لائلپور میں اکثریت سکھوں اور ہندوؤں کی تھی اور آبادی کا تناسب تقریباً 15 فیصد مسلمان اور 85 فیصد ہندو اور سکھ۔آٹھ بازاروں سے باہر بننے والا سب سے پہلا رہائشی علاقہ ڈگلس پورہ تھا۔ ڈگلس پورہ کا نام لائلپور کے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر سر ڈگلس کے نام پر رکھا گیا۔اس علاقے کا رقبہ تقریباً 50 ایکڑ تھا اور اس علاقے میں سکھ، ہندو اور مسلمان تینوں ہی رہائش پذیر تھے۔
ڈگلس پورہ میں مسلمانوں کے مکان ہندوؤں نے خرید لیے اور اس وجہ سے اس علاقے میں اکثریت سکھوں اور ہندوؤں کی ہو گئی۔ تقسیم کے بعد یہ لوگ بھارت منتقل ہو گئے اور یہ مکان زیادہ تر ان لوگوں کو الاٹ کیے گئے جو لدھیانہ اور جالندھر سے آئے تھے۔آبادی کے اضافے کے ساتھ ایک نئی رہائشی آبادی وجود میں آئی۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں اس وقت گورنمنٹ کالج ہے۔ اس علاقے میں 1920 میں گورنمنٹ سکول یا کالج کے لیے جگہ مختص کی گئی تھی۔
جھنگ روڈ پر نئی آبادیاں قائم ہوئی اور اس کا نام ان مالکان سے منسوب کیا گیا جنھوں نے یہ زمین رہائشی علاقے کے لیے فروخت کی۔گورنمنٹ کالج کے قریب علاقہ سکھوں کی ملکیت تھی اور اسی وجہ سے 37-1936 میں گرو نانک پورہ وجود میں آیا۔ اس علاقے کا رقبہ بھی 50 ایکڑ تھا۔ اس علاقے میں زمین سکھوں اور ہندوؤں نے خریدی اور مکان تعمیر کیے۔تقسیم ہند کے بعد یہ مکان جالندھر سے آنے والے مہاجرین کو الاٹ کیے گئے۔
لائلپور کا نام 1977 میں اس وقت کے سعودی فرمانروا شاہ فیصل کے نام سے منسوب کیا گیا اور اس کا نام فیصل آباد پڑا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان علاقوں میں پرانے مکانوں کے نشانات بھی ختم ہوتے جا رہے ہیں ۔ کہیں دیکھو تو پرانی عمارتوں اور گھروں کو گرا کر نئی عمارتیں اور مکان تعمیر کیے جا رہے ہیں تو کہیں جو بچ گئی ہیں ان عمارتوں کی کھڑکیاں اور چبوترے تو پرانے ہی ہیں لیکن دیواروں کو پلاستر کر کے نئی شکل دے دی گئی ہے۔بڑے بڑے گھر اب چھوٹی چھوٹی دکانوں اور چھوٹے مکانوں میں تبدیل ہو چکے ہیں ۔ کسی زمانے میں کشادہ صحن، بڑی بڑی کھڑکیوں اور بڑے دروازوں کی جگہ لوہے کے دروازوں نے لے لی اور تنگ دکانیں اور تاریک کمروں میں تبدیل ہو چکی ہیں ۔
8 بازاروں سے باہر ایک اور کالونی بھی قائم کی گئی گوبند پورہ کے نام سے۔ اس کالونی کو گوبند سنگھ نے بنایا اور اسی علاقے میں نہال سنگھ اور گوبند سنگھ کا ایک بڑا مکان بھی تھا۔ یہ مکان اب بھی موجود ہے لیکن کئی حصوں میں بٹ چکا ہے۔بیرونی حصے کو دیکھنے سے ایک امید بندھ جاتی ہے کہ اس حویلی نما مکان کو اس کی اصل حالت میں محفوظ کیا ہوا ہے۔ وہی خوبصورت کھڑکیاں ، لکڑی پر شاندار کام۔ لیکن اندر سے صورتحال بالکل مختلف ہے۔ ٹوٹی ہوئی دیواریں ، آدھی انگیٹھیاں اور خستہ حال میں کھڑکی دروازے۔ رنگین شیشے اب بھی ہیں لیکن کتنی دیر؟
فیصل آباد کے پرانے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ جن افراد کو یہ مکان الاٹ ہوئے ان کو تو کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ مکان کو اصل حالت ہی میں رکھا جائے لیکن جو عمارتیں سرکاری استعمال عمارتیں ہیں ان کو تو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔.فیصل آباد کے ایک پرانے رہائشی ڈاکٹر حافظ عبدالقیوم کا کہنا ہے کہ حکومت کو پوری کوشش کرنی چاہیے کہ پرانی عمارتوں کو اصل حالت ہی میں رکھا جائے۔تقسیم سے قبل لائلپور میں سنترام اسکول اور خالصاا سکول ساتھ ساتھ تھے۔ اب یہ ا سکول اسلامیہ پوسٹ گریجوئٹ کالج فار ویمن میں ضم ہو گئے ہیں ۔ تاہم کالج کی پرنسپل کے بقول خالصا اسکول کی عمارت کو گرا کر ایڈمن بلاک بنا دیا گیا ہے جبکہ ‘سنترام اسکول کی عمارت کو بھی گرا کر نئے بلاک بنائے جائیں گے کیونکہ کالج کو مزید جگہ کی ضرورت ہے۔
فیصل آباد کے پرانے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ سنترام ا سکول کی عمارت اب بھی پختہ ہی دکھائی دیتی ہے اور اس کے ہال کالج کی نئی عمارت کے ہال سے کہیں زیادہ کشادہ اور ہوادار ہیں ۔ ‘اس کو کیوں گرا کر نئے بلاک بنانے کی ضرورت پیش آ رہی ہے اور اگر نیا بلاک بنانا ہی ہے تو مزید زمین الاٹ کرائی جائے۔کم از کم قدیم طرز تعمیر کی ایک نشانی تو باقی رہنے دی جائے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر