وجود

... loading ...

وجود

جھیل سیف الملوک پر اب پریاں نہیں اترتیں ؟

پیر 21 اگست 2017 جھیل سیف الملوک پر اب پریاں نہیں اترتیں ؟

دادی سے شہزادے سیف اور پری بدری جمال کی رومانوی کہانی سن سن کر جھیل سیف الملوک کا تصوراتی خاکہ ذہن میں کچھ ایسا گھر کر گیا کہ اسے حقیقت میں دیکھنا زندگی کی ایک سب سے اہم تمنا بن گئی۔بچپن تو سیف الملوک سے منسوب شہزادوں اور پریوں کی عشقیہ و طلسماتی کہانیوں کے سحر میں گزرا اور پھر بڑی ہوئی تو دنیاداری کی مصروفیت میں جیسے پھنس کر رہ گئی۔ ایک عرصہ دراز تک جھیل سیف الملوک کے نام سے نا آشنا ہو کر رہ گئی۔ پھر اچانک جب بچوں نے جھیل سیف الملوک کا ذکر چھیڑا اور وہاں سے جڑی پریوں اور دیوسائی سے متعلق کہانیاں جاننے کے لیے اصرار کیا تو بچپن کی یادوں نے آن گھیرا۔جھیل سیف الملوک، شہزادے، اور پری بدری جمال کی کہانی بچپن میں دادی نے ہمیں ذہن نشین کروا دی تھیں ۔

پشاور سے جھیل سیف الملوک کا سفر

حبس اور گھٹن بھرا ماہ اگست ہو اور منزل تین سو کلومیٹر دور جبکہ بلندی 8 ہزار فٹ ہو تو بغیر کسی منصوبہ بندی کے کیسے رخت سفر باندھا جائے؟ سو منصوبہ یہ طے پایا گیا کہ شام کو نکلا جائے، ایبٹ آباد میں ایک رات قیام کے بعد اگلی صبح ناران کاغان کے لیے روانہ ہوا جائے۔اللہ کا نام لے کر صبح 9 بجے ایبٹ آباد کا سفر شروع کیا، ایبٹ آباد اور مانسہرہ شہر سے نکلنے میں کافی وقت لگا۔
عام دنوں میں بھی ایبٹ آباد اور مانسہرہ میں رش ہوتا ہے اور اگر موسم گرم ہو اور پھر ویک اینڈ بھی ہو تو پھر گاڑیوں کی رفتار کچھوے والی چال نما ہوتی ہے۔ مانسہرہ سے نکلتے ہی نہ صرف رش کم ہوا بلکہ موسم نے بھی انگڑائی لی۔ ڈھائی گھنٹے سفر کے بعد دریائے کنہار کے پانیوں کی مدھر آوازیں آنا شروع ہو گئی، جگہ جگہ ہوٹل نظر آنے لگے اور یوں بالاکوٹ شہر میں ہماری آمد کی تصدیق ہو گئی۔2005 کے ہولناک زلزلے کو 12 سال گزر چکے ہیں لیکن آثار اب بھی نمایاں ہیں ۔ حکومت نے زلزلہ زدگان کے نام پر اندرونی اور بیرونی دنیا سے کروڑوں ڈالرز کی امداد لی لیکن کوئی ایسا غیر معمولی کام نظر نہیں آیا جو قابل ذکر ہو۔ مگر ہاں قدرتی حسن جا بجا اپنی جگہ اب بھی برقرار ہے۔شیشے نما شفاف پانی اور معتدل موسم، راہ سے گزرتے سیاحوں کو رکنے پر مجبور کردیتا ہے۔

وادئی کاغان

بالاکوٹ سے نکلتے ہی منزل تک پہنچنے کا ایک سہانا سفر شروع ہوا، کارپٹ سڑک پر چلتے ہوئے دریائے کنہار کا پانی ساتھ ساتھ تھا اور دائیں بائیں دیکھیں تو سبزہ ہی سبزہ، اوپر دیکھیں تو بادل تھے جو ہر وقت برسنے کو بے قرار نظر آئے۔ یوں ہم خوبصورت وادی کاغان میں داخل ہوئے۔ اور ہاں ، کاغان میں داخلے کے لیے کاغان ڈولپیمنٹ اتھارٹی کو چھوٹی گاڑی کے لیے 100 روپے کا ٹیکس ادا کرنا پڑا نہ دیتے تو رکاوٹ سے آگے جانے ہی نہیں دیا جاتا۔

سرمئی گلیشیئر ناران

کئی گھنٹوں کے سفر کے بعد سرمئی گلیشیئر ہر سیاح کا استقبال کرتا ہے۔ استقبال بھی ایسا کہ ساری تھکن دور ہو جاتی ہے۔ یہ سرمئی گلیشئیر راستے میں ناران بازار سے تین چار کلومیٹر کے فاصلے پر آتا ہے۔ کتابوں اور موسم کی خبروں میں گلیشیئر کا نام تو سنا تھا لیکن حقیقی روپ میں دیکھنے کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا، سرمئی گلیشیئر کافی وسیع و عریض ہے۔سڑک کے کنارے ہونے کی وجہ سے تقریباً تمام سیاح اس کی رعنائیوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے یہاں رکتے ہیں ۔

ناران بازار

شام کو ہم منزل کے قریب تر یعنی ناران بازار پہنچے اور پھر قیام گاہ، ناران بازار سے بابو سر ٹاپ کی جانب چند کلومیٹر فاصلے پر اور ایک چھوٹا مگر خوبصورت ریسٹ ہاؤس تھا۔ چائے پینے اور تھوڑے آرام کے بعد رات کے کھانے اور سیر و تفریح کے لیے ناران بازار کا رخ کیا۔

بابو سرٹاپ

ناران میں ہم لوگ اپنی منزل یعنی پریوں ، شہزادوں اور دیو کا مسکن جھیل سیف الملوک کے قریب تر آ چکے تھے۔ لیکن گائیڈ سے مشورے کے بعد جھیل پر جانے کا پلان منسوخ کر دیا اور سیدھا بابو سر ٹاپ کے لیے نکل پڑے۔بابو سر ٹاپ تقریباً 13 ہزار فٹ بلندی پر گلگت کے راستے پر واقع ہے۔ ہم اپنی گاڑی پر ہی سوار ہوئے اور تین گھنٹے ڈرائیو کے دوران حسین مناظر سے آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتے ہوئے بابو سر ٹاپ پہنچے۔

لالہ زار

اب ہمیں اپنی منزل یعنی جھیل سیف الملوک جانا تھا جس کے لیے رات کو ہی جیپ کا بندوبست کروا لیا تھا۔ صبح ناشتہ کر کے جیپ میں بیٹھنے لگے تو ڈرائیور نے کہا کہ “لالہ زار دیکھا ہے؟” ہمارے “نہیں ” کہنے پر ڈرائیور صاحب ہنس پڑے اور کہا کہ پھر کیا فائدہ۔ بس پھر کیا تھا کہ لالہ زار کی طرف نکل پڑے۔ لالہ زار ناران بازار سے بابو سر ٹاپ کی طرف واقع ہے۔یہ میدان ناران کے نزدیک تو ہیں مگر پہاڑ پر واقع ہونے کے باعث جیپ کے بغیر یہاں پہنچنا ممکن نہیں ۔ چند کلومیٹر کا یہ راستہ پرخطر اور کٹھن تھا، تنگ اور کچے راستے پر جیپ ہچکولے کھاتی چلتی ہے۔ کئی بار تو سوچا کہ ارادہ ترک کر دیا جائے واپس لوٹا جائے مگر ایسا کرنا بھی ممکن نہ تھا، گاڑی کی واپسی کی گنجائش ہی نہیں تھی۔ راستہ ایسا تھا کہ ایک جیپ کھڑی کی جاتی تو دوسری جیپ گزر پاتی۔

جھیل سیف الملوک

لالہ زار کی سحر انگیزی دیکھنے کہ بعد ہمارا سفر اپنی اصل منزل یعنی پریوں ، شہزادے اور دیو کے مسکن جھیل سیف الملوک کی جانب شروع ہوا، اگر جھیل سیف الملوک کو جاتی ایک سیدھی سڑک ہوتی تو یہ سفر آدھے گھنٹے میں کٹ جاتا لیکن کچھ دشوار ہونے کے باعث یہ آدھے گھنٹے کا سفر بھی ڈھائی سے تین گھنٹے میں طے ہوا۔جیسے ہی ہماری جیپ ناران سے سیف الملوک کے راستے پر روانہ ہوئی تو موسم نے انگڑائی لی اور شدید بارش برسنے لگی۔ راستے میں پہاڑوں پر بادلوں کا بسیرا اور جگہ جگہ راستے میں گلیشیئرز سفر کو خوبصورت اور رنگین بنا دیتے ہیں ۔ پریوں کی جھیل دیکھنے کی لوگوں کی بے قراری ہی تھی کہ جیپیں ایسی چلتیں جیسے چیونٹیاں رینگتی ہو، ڈرائیور کے مطابق 1700 سے 2000 تک جیپیں بیک وقت سیف الملوک آتی جاتی ہے۔جیپوں کو دیکھنے کا مزہ اس وقت آتا ہے جب جھیل کے زِگ زیگ راستے پر نیچے سے اوپر تک ہر قسم اور ہر رنگ کی جیپیں چیونٹیوں کی لڑی کی طرح چلتی ہیں ۔ ناران سے سیف الملوک تک جیپ کا کرایہ 2500 روپے ہے، جو وہاں 2 یا ڈھائی گھنٹے کی سیر کے بعد واپس ناران پہنچا دیتی ہے۔ بالآخر ڈھائی گھنٹے کے پر خطر مگر دلکش سفر کے بعد ہم جھیل سیف الملوک پہنچ ہی گئے، وہ خواب پورا کرنے جو بچپن میں میرا اور بعد میرے بچوں کا بھی بنا۔ پریوں ، شہزادے اور دیو کے مسکن جھیل سیف الملوک کا دیکھنے کا خواب۔حد نگاہ تک برفیلے پہاڑوں کے بیچ میں نیلے رنگ کی خوبصورت جھیل تھی۔

ملکہ پربت

جھیل سیف الملوک سالہا سال سے ملکہ پربت کے پانیوں سے آباد ہے۔ مقامی سطح پر یہ تاثر بہت عام ہے کہ ملکہ پربت پر جنوں اور دیو سائی کا سایہ ہے وہی دیو جس نے شہزادہ سیف کا پیچھا کیا تھا۔افسوس کہ آج آدم زادوں کے ہجوم نے قدرت کے عجوبے، اس جھیل سیف الملوک کا برا حال کر دیا ہے۔ وہ جھیل جو روایتوں میں پریوں کا مسکن ہو ا کرتا تھا اب کچروں میں تبدیل ہو گیا ہے۔

سمیرا گل


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر