وجود

... loading ...

وجود

مستعفی ہونے والے ارکان اسمبلی کو تنخواہوں کی ادائیگی کاسلسلہ تاحال جاری!

پیر 21 اگست 2017 مستعفی ہونے والے ارکان اسمبلی کو تنخواہوں کی ادائیگی کاسلسلہ تاحال جاری!

سیاسی پارٹیاں تبدیل کرکے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دینے والے بہت سے ارکان سندھ اسمبلی کو تنخواہیں باقاعدگی سے جاری کی جارہی ہیں اور تنخواہوں اور مراعات کی یہ بھاری رقم باقاعدہ ان کے بینک اکاؤنٹس میں منتقل ہورہی ہے ،سندھ اسمبلی کے اخراجات کے حوالے سے ایک رپورٹ کی تیاری میں ریکارڈ کی چھان بین کے دوران میں یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا۔
سندھ اسمبلی کے اخراجات سے متعلق دستیاب ریکارڈ سے ظاہرہوتاہے کہ پاک سرزمین پارٹی کے قیام کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کے کئی ارکان سندھ اسمبلی نے متحدہ سے اپنا ناطہ توڑکر پاک سرزمین پارٹی میں شمولیت کااعلان کیاتھا اور متحدہ سے علیحدگی کے اعلان کے ساتھ ہی انھوں نے اپنی اسمبلی کی رکنیت سے بھی استعفیٰ دینے کااعلان کردیاتھا ، اسی طرح22 اگست کو متحدہ کے بانی الطاف حسین کی اشتعال انگیز تقریر کے بعد سامنے آنے والے شدید ردعمل سے گھبرا کر بھی بعض ارکان سندھ اسمبلی نے متحدہ سے ناطہ توڑنے اور اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دینے کااعلان کردیاتھا، لیکن ان کے استعفیٰ دیے جانے اور اسپیکر سندھ اسمبلی کو اس کی تحریری اطلاع دیے جانے کے باوجود ابھی تک بوجوہ ان کے استعفے منظور نہیں کیے گئے ہیں اوران کی تنخواہیں اور دیگر مراعات بدستور ان کے بینک اکاؤنٹس میں منتقل کی جارہی ہیں ۔
سندھ اسمبلی کے متعلقہ حکام کاکہناہے کہ اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ کا اعلان کرنے اور اسپیکر کو اپنا استعفیٰ بھیجنے والے ارکان اسمبلی جن کی اکثریت کاتعلق متحدہ قومی موومنٹ سے ہے ،کے استعفے تکنیکی وجوہ کی بنا پر ابھی تک منظور نہیں کیے گئے ہیں اور جب تک اسپیکر ان کے استعفے منظور کرنے کااعلان نہ کردیں ، ان کو تنخواہوں اوردیگر مراعات کی فراہمی جاری رہے گی اور وہ بدستور اسمبلی کے رکن تصور کیے جائیں گے ۔
اس حوالے سے صحافیوں نے جب اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دینے والے متعلقہ ارکان سندھ اسمبلی سے رابطہ کیاتو ان میں سے بیشتر نے کہا کہ استعفیٰ دینے کے بعد انھیں تنخواہیں ادا نہیں کی جانی چاہئیں اور اگر انھیں تنخواہیں جاری کی جارہی ہیں تو اس کی تمام تر ذمہ داری تنخواہیں جاری کرنے والے حکام پر عائدہوتی ہے ،جبکہ ان میں سے بعض نے کہا کہ اگرچہ تنخواہیں باقاعدگی سے ان کے اکاؤنٹ میں منتقل ہورہی ہیں لیکن انھوں نے یہ رقم استعمال نہیں کی ہے ۔
سندھ اسمبلی کے ریکارڈ سے ظاہرہوتاہے کہ 22 اگست کو متحدہ کے بانی الطاف حسین کی اشتعال انگیز تقریر کے بعد سامنے آنے والے شدید ردعمل سے گھبرا کرسندھ اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہونے والی متحدہ قومی موومنٹ کی رکن اسمبلی ارم عظیم فاروقی کوجو اب تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرچکی ہیں باقاعدگی سے 93 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ادا کی جارہی ہے اور یہ رقم ان کے اکاؤنٹ میں منتقل ہورہی ہے۔ارم عظیم فاروقی کاکہناہے کہ ان کے اکاؤنٹ میں تنخواہ کی منتقلی میں ان کاکوئی قصور نہیں ہے کیونکہ تنخواہ مجھ سے پوچھ کرمنتقل نہیں کی جارہی ۔انھوں نے کہا کہ میں دودفعہ اپنا استعفیٰ بھجوا چکی ہوں اور میں اسمبلی کی رکن کی حیثیت سے اکاؤنٹ میں منتقل ہونے والی رقم استعمال نہیں کررہی ہوں ۔یہ رقم میرے اکاؤنٹ میں جوں کی توں پڑی ہوئی ہے۔اسپیکر کو میرا استعفیٰ منظور کرنا چاہئے ۔اسی طرح اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دینے کے باوجود تنخواہ وصول کرنے والی متحدہ قومی موومنٹ سے تعلق رکھنے والی دوسری رکن سندھ اسمبلی بلقیس مختار ہیں ،بلقیس مختار نے اپریل 2016 میں اپنی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیاتھااورپاک سرزمین پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی، لیکن انھیں بھی استعفیٰ دینے کے باوجود باقاعدگی سے تنخواہ ادا کی جارہی ہے ۔انھوں نے بھی اس حوالے سے یہی موقف اختیار کیا کہ ان کوتنخواہیں جاری کیے جانے میں ان کاکوئی قصور نہیں ہے۔ اسمبلی کے حکام کو ان کی تنخواہ بند کردینی چاہئے۔ان کاکہنا بھی یہی تھا کہ اگرچہ ان کی تنخواہ باقاعدگی سے ان کے اکاؤنٹ میں منتقل ہورہی ہے لیکن انھوں نے اسے استعمال نہیں کیاہے۔جبکہ ایک اور سابق رکن سندھ اسمبلی نے جنھوں نے اپنا ظاہر نہ کرنے کی ہدایت کی تھی بتایا کہ انھوں نے استعفیٰ دیاتھا جو ابھی تک اسپیکر کی منظوری کے لیے ان کے پاس موجود ہے لیکن انھیں تنخواہ ادا کی جارہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں جھوٹ نہیں بولتامیں سندھ اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے ملنے والی تنخواہ کی رقم استعمال کررہاہوں کیونکہ جب تک میرا استعفیٰ منظور نہیں کرلیا جاتا رکن اسمبلی کی حیثیت سے تنخواہ کی وصولی میرا حق ہے۔انھوں نے کہا کہ استعفیٰ وصول کرنے کے بعد اسپیکر کو میرا استعفیٰ منظور کرنا چاہئے تھا یا استعفیٰ منظور نہ کرنے کی وجوہات سے آگاہ کرنا چاہئے تھا۔ اگر اسپیکر میری خواہش کے برعکس میری اسمبلی کی رکنیت برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو اس میں میرا کیا قصور ہے؟
ایم کیو ایم کے ایک اور رکن سندھ اسمبلی عبداللہ شیخ ہیں جوپی ایس۔97 گلشن معمارسے ایم کیوایم کے امیدوار کی حیثیت سے رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ رکنیت سے استعفیٰ دینے کے بعد کبھی اسمبلی نہیں گئے مگر وہ اب بھی باقاعدگی سے تنخواہیں وصول کررہے ہیں ۔اسی طرح متحدہ قومی موومنٹ کے رکن اسمبلی ارتضیٰ خلیل فاروقی اور خالد بن ولایت نے بھی اپریل 2016 میں پاک سرزمین پارٹی مین شمولیت کا اعلان کرتے ہوئے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیاتھا،وہ اب بھی اپنی تنخواہیں وصول کررہے ہیں ۔اسی طرح سندھ اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کی نمائندگی کرنے والے رکن سندھ اسمبلی سید حفیظ الدین نے بھی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دینے کااعلان کرتے ہوئے پاک سرزمین پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن ان کو بھی ابھی تک تنخواہیں اور دیگر مراعات مل رہی ہیں ۔
اس حوالے سے جب صحافیوں نے سندھ اسمبلی کے سیکریٹری عمر فاروق سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ ان تمام ارکان سندھ اسمبلی
نے اپنا استعفیٰ دینے کا مقررہ طریقہ کار اختیار نہیں کیا جس کی وجہ سے ان کے استعفے منظور نہیں کیے گئے اور جب تک ان کے استعفے منظور نہ کرلیے جائیں یہ بدستور اسمبلی کے رکن تصور کیے جائیں گے اور انھیں تنخواہوں کی ادائی کاسلسلہ جاری رہے گا۔یہی نہیں بلکہ اسمبلی کے ارکان کی تنخواہوں میں اضافے کے بل کی منظوری کے بعد اب ان کو 93ہزار روپے ماہانہ کے بجائے اضافہ شدہ تنخواہ یعنی ایک لاکھ45ہزار روپے ماہانہ کی شرح سے ادائی کی جائے گی۔ انھوں نے بتایا کہ ہر رکن کی تنخواہ اس کے اکاؤنٹ میں منتقل کرنا ہماری ذمہ داری ہے جب تک کسی رکن کے استعفیٰ کانوٹیفکشن موصول نہیں ہوتا کسی قانون کے تحت اس کی تنخواہ کی ادائی بند نہیں کی جاسکتی ، اب کوئی رکن اسمبلی اپنی یہ تنخواہ بینک سے وصول کرتاہے یا اپنے اکاؤنٹ میں جمع رہنے دیتاہے، یہ اس کا اپنا فعل ہے ،اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔
سیکریٹری سندھ اسمبلی نے بتایا کہ ان ارکان اسمبلی نے یا تو زبانی اپنے استعفوں کااعلان کیاہے یا پھر کوریئر سروس کے ذریعے اپنا استعفیٰ بھجوایا ہے جبکہ استعفیٰ دینے کادرست طریقہ یہ ہے کہ متعلقہ رکن اسمبلی خود اسپیکر کے پا س جاکر اپنے ہاتھ سے لکھاہوا استعفیٰ انھیں پیش کرے،لیکن مستعفی ہونے والے ان ارکان اسمبلی میں سے کسی نے بھی یہ طریقہ کار اختیار نہیں کیاہے جس کی وجہ سے ان کے استعفے منظور نہیں کیے جاسکے اور ان کو تنخواہوں کی ادائی کاسلسلہ جاری ہے اور جب تک ان کے استعفے منظور نہیں ہوجاتے یہ سلسلہ جاری رہے گا۔اس حوالے سے جب مستعفی ہونے والے بعض ارکان سے بات کی گئی تو انھوں نے اسمبلی کے سیکریٹری کی اس منطق سے اتفاق نہیں کیا۔ اُن کا موقف تھا کہ اگر ہم نے استعفیٰ کا مروجہ طریقہ کار اختیار نہیں کیاتھا تو بھی اسپیکر کو ہمیں اس سے مطلع کرنا چاہئے تھا اور بتانا چاہئے تھا کہ اگر آپ واقعی استعفیٰ دینا چاہتے ہیں تو یہ طریقہ کار اختیار کریں ۔یہ استعفیٰ کو دبا کر اپنے پاس رکھ لینے کاکوئی جواز نہیں ہے۔اس سے ظاہر ہوتاہے کہ حکومت کسی آڑے وقت پر ان کی خدمات حاصل کرنے کے لیے ان کے استعفیٰ جان بوجھ کر منظور نہیں ہونے دے رہی ہے اور اس حوالے سے قانون اور طریقہ کار کے ابہام کاسہارا لیاجارہاہے۔
زین العابدین


متعلقہ خبریں


پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی ،ایران پر انحصارمزید بڑھ گیا وجود - هفته 23 نومبر 2024

رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی دیکھنے میں آئی اور پاکستان کا ایران سے درآمدات پر انحصار مزید بڑھ گیا ہے ۔ایک رپورٹ کے مطابق جولائی تا اکتوبر سعودی عرب سے سالانہ بنیاد پر درآمدات میں 10 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ ایران سے درآمدات میں 30فیصد اضافہ ہ...

پاکستان کی سعودی عرب سے درآمدات میں کمی ،ایران پر انحصارمزید بڑھ گیا

وڈیو بیان، بشریٰ بی بی پر ٹیلیگراف ایکٹ دیگر دفعات کے تحت 7 مقدمات وجود - هفته 23 نومبر 2024

لاہور (بیورو رپورٹ)پاکستان تحریک انصاف کے بانی چیئرمین کی اہلیہ اور سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کے ویڈیو بیان پر ٹیلی گراف ایکٹ 1885 اور دیگر دفعات کے تحت7 مقدمات درج کرلیے گئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق بشریٰ بی بی کے خلاف پنجاب کے علاقے ڈیرہ غازی خان کے تھانہ جمال خان میں غلام یاسین ن...

وڈیو بیان، بشریٰ بی بی پر ٹیلیگراف ایکٹ دیگر دفعات کے تحت 7 مقدمات

پی آئی اے کی نجکاری ، حکومت کے دوست ملکوں سے رابطے وجود - هفته 23 نومبر 2024

پی آئی اے نجکاری کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے 30نومبر تک دوست ممالک سے رابطے رکھے جائیں گے ۔تفصیلات کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کیلئے دوست ملکوں سے رابطے کئے جارہے ہیں، گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ معاہدے کیلئے حکومتی کوششیں جاری ہے ۔ذرائع کے مطابق30نومبر ...

پی آئی اے کی نجکاری ، حکومت کے دوست ملکوں سے رابطے

سندھ کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ،وزیراعلیٰ وجود - هفته 23 نومبر 2024

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ کے حصے کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی دو تہائی اکثریت ہے ، مسلم لیگ ن کے ساتھ تحفظات بلاول بھٹو نے تفصیل سے بتائے ، ن لیگ کے ساتھ تحفظات بات چیت سے دور کرنا چاہتے ہیں۔ہفتہ کو کراچی میں میڈیا س...

سندھ کا ایک قطرہ پانی بھی کہیں جانے نہیں دیں گے ،وزیراعلیٰ

قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام وجود - جمعه 22 نومبر 2024

سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اپنی توجہ 24 نومبر کے احتجاج پر رکھے۔سعودی عرب ہر مشکل مرحلے میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین ک...

قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دیرپاامن واستحکام کے لئے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی، پاک فوج ...

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم وجود - جمعه 22 نومبر 2024

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کرمدد کی، سعودی عرب سے متعلق بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے ، سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جائے تو ہمارا بھائی کیا کہے گا؟، ان کو اندازہ نہیں اس بیان سے پاکستان کا خدانخوستہ کتنا نقصان ہوگا۔وزیراعظم نے تونس...

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی 2025 کے شیڈول کے اعلان میں مزید تاخیر کا امکان بڑھنے لگا۔میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اگلے 24گھنٹے میں میگا ایونٹ کے شیڈول کا اعلان مشکل ہے تاہم اسٹیک ہولڈرز نے لچک دکھائی تو پھر 1، 2 روز میں شیڈول منظر عام پرآسکتا ہے ۔دورہ پاکستان سے بھارتی ا...

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3خواتین اور بچے سمیت 38 افراد کو قتل کردیا جب کہ حملے میں 29 زخمی ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کرم کے علاقے لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے...

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا، ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کردی اور ہدایت دی کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر...

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ، ہم سمجھتے ہیں ملک میں بالکل استحکام آنا چاہیے ، اس وقت لا اینڈ آرڈر کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔صوابی میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہم نے حکمتِ...

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے غیر رجسٹرڈ امیر افراد بشمول نان فائلرز اور نیل فائلرز کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے فیلڈ فارمیشن کی سطح پر انفورسمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے اپنا ہوم ورک ...

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ

مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر