وجود

... loading ...

وجود

تماشا کون کررہا ہے؟

پیر 21 اگست 2017 تماشا کون کررہا ہے؟

نواز شریفجب سے نااہل قرار دیے گئے ہیں ایک ہذیانی کیفیت کا شکار ہیں ۔یوں تو شائستہ سیاست اور نوازشریف دو متضاد سمتوں کا سفر ہے۔ ایوب خان کے مارشل لاء کے ساتھی آمر کی ” سیاسی” جماعت تحریک استقلال (جس میں نہ تحرک تھا نہ استقلال) میں سیاسی جنم لینے والے نوازشریف کی پوری سیاسی تربیت آمروں کے ہاتھوں ہوئی ہے۔ نوازشریف کے دوسرے ” مربی” بھی آمروں کے ساتھی تھے جنرل ملک غلام جیلانی بھی ایوب خان اور یحییٰ خان کے آمرانہ ادوار میں ان کے ساتھی رہے تھے جبکہ ایک اور آمر ضیاء الحق کو تو نوازشریف خود اپنا روحانی باپ کہا کرتے تھے آمروں کاوطیرہ رہا ہے کہ وہ کسی ادارے کو اہمیت نہیں دیتے خصوصاً عدلیہ کو باندی بنا کر رکھنا ہرآمر کی دلی خواہش ہوتی ہے اور ماضی میں عدلیہ نے بھی آمروں کو مایوس نہیں کیا ہے نظریۂ ضرورت آمروں کی خواہش کے احترام میں تخلیق پایا تھا جو بمشکل تمام اپنے انجام کو پہنچا ہے۔
یوم تشکیل پاکستان پر دیگر رہنماؤں کی طرح نوازشریف بھی مصور پاکستان علامہ اقبال کی آخری آرام گاہ پر فاتحہ خوانی کے لیے گئے۔ یہ دن پاکستان کے استحکام کے تجدید عہدکا دن ہے اس دن ذات سے بالاتر ہو کر ملک اورقوم کے لیے نیک جذبات کا اظہار ہر سیاسی قائد کرتا ہے لیکن اقتدار کے فراق نے نوازشریف کے دماغ پر شدید اثرات مرتب کیے ہیں ۔ اس موقع پر ان کی گفتگو سے ان کی ذہنی کیفیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔نوازشریف بھی بھٹو کے نقش قدم پر چل پڑے ہیں لیکن وہ بھٹو کا انجام بھول گئے ہیں ۔سانحہ سقوط ڈھاکا فوج کی نااہلی اور بزدلی کی وجہ سے نہیں ہوا تھا بلکہ یہ سانحہ بھٹو کے ہوسِ اقتدار کا نتیجہ تھا ۔بھٹو نے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ سازش تیار کی تھی۔ شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ نے تو مغربی پاکستان میں انتخابات میں امیدوار کھڑے کیے تھے لیکن بھٹو کی پیپلزپارٹی نے مشرقی بازو میں نہ تو اپنا پارٹی سیٹ اپ بنایا تھا نہ ہی امیدوار کھڑے کیے تھے۔ یوں ملک کے بڑے حصہ سے بھٹو کی عدم دلچسپی ظاہر ہوتی تھی اور سیاست اور حصول اقتدار کے لیے ملک کے بڑے حصہ کو نظرانداز کرنا ممکن نہ تھا لیکن جب منصوبہ بندی ہی اس نہج پر کی گئی ہو تو پھر یہ سب اپنی سمت میں درست تھا۔
نوازشریف کو اقتدار سے علیحدگی اور تاحیات نااہلی کے بعدووٹ کے تقدس کا خیال آیا ہے لیکن جب چھانگا مانگا کی منڈی سجائی جاتی تھی جب ارکان اسمبلی کی خریدوفروخت جانوروں کی طرح ہوتی تھی جب آئینی ترمیم کے ذریعہ ارکان اسمبلی کی زبانوں پرتالے ڈالے گئے پارٹی فیصلے سے اختلاف رائے کے اظہار پر قدغن لگائی گئی تو شاید یہ سارے اقدام ووٹ کے تقدس کی بحالی کے لیے تھے۔ جب پارٹی کو پرائیوٹ لمیٹڈ کمپنی کی طرح چلایا جاتا رہا تو یہ بھی شاید ووٹ کا احترام ہی تھا۔نوازشریف کا یہ فرمانا کہ اگر تماشا بند نہ ہوا تو سقوط مشرقی پاکستان کی طرح کا کوئی سانحہ رونما ہو سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ تماشا لگایا کس نے ہے ؟پاناما پیپرز پر عدالت سے رجوع کرنے کا مشورہ کس نے دیا تھا؟ خیال تھا کہ پارٹی کی طرح عدلیہ بھی ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی ثابت ہو گی۔ نظریۂ ضرورت اپنا رنگ دکھائے گا اور پھر فیصلہ نظریۂ ضرورت کے مطابق آئے گا لیکن اب پلوں کے نیچے سے بہت ساپانی گزر چکا ۔نہ یہ 60 کی دہائی ہے نہ1988 ہے۔ عدلیہ اب نظریۂ ضرورت نہیں قانون کے مطابق فیصلہ کرتی ہے۔ نظریۂ ضرورت وہاں ہوتا ہے جہاں ناگزیریت ہوتی ہے اور ناگزیر وہ ہوسکتا ہے جس کو فرشتۂ اجل سے مفرحاصل ہو جب فرشتۂ اجل سے کسی ذی روح کو مفرحاصل نہیں تو پھر کیسا نظریہ ضرورت؟ پہلے سراج الحق اور بعدازاں عمران خان نے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا۔ عمران خان سراج الحق سے زیادہ سوشل اور الیکڑانک میڈیا پر متحرک ہیں ۔ یوں پاناما پیپرز کا کیس عوام میں زندہ رہا ورنہ خواجہ آصف نے تو اسمبلی فلور پر کہاتھا کہ لوگ چند دن میں سب کچھ بھول جائیں گے لیکن لوگ بھولے نہیں ۔ جمہوریت میں حزب اختلاف کا بنیادی کام ہی حکمرانوں کی کوتاہیاں سامنے لانا اور ان پر اپنے اقتدار کی عمارت تعمیر کرنا ہوتا ہے پھر پاکستان میں جمہوریت ابھی نوزائیدہ ہے۔ یہاں حزب اختلاف حکمرانوں کی کوتاہیوں کا ریکارڈ تیار نہیں کرتی انہیں ہروقت کیش کرانے کی کوشش کرتی ہے جہاں جمہوریت پختہ ہو چکی وہاں ایک ووٹ کی اکثریت بھی حکمرانوں کے لیے اپنی مدت پوری کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔
عدالت عظمیٰ کے 5 معزز ججوں نے متفقہ فیصلہ سنایا ہے اور معزز ججوں نے اتمام حجت کیا ہے۔ دو معزز جج تو ابتدائی سماعت کے بعد ہی نااہل قرار دینے کا فیصلہ کرچکے تھے لیکن 3 معزز ججوں نے مزید تحقیق وتفتیش کا حکم دیکر نوازشریف اور اس کے ٹبر کو موقع دیا تھا کہ اب بھی وقت ہے اپنی بے گناہی ثابت کرو۔ اپنے اثاثہ جات کو قانونی ذرائع سے حاصل کیا گیا ثابت کرو اور سرخرو ہو جاؤ۔لیکن اس موقع کو ضائع کس نے کیا؟ اس عرصہ میں جعلی دستاویزات کس نے جمع کرائیں ؟کیا مریم نواز کی ٹرسٹ ڈیڈ عمران یاسراج الحق نے جمع کرائی تھی؟ جرائم کی دنیا کا ایک اصول ہوتا ہے مجرم کتنا ہی ذہین وفطین ہو فطرت اس سے حماقت کرادیتی ہے۔ فطرت کا یہ اصول یہاں بھی اثر پزیر ہوا اور مریم صفدر کی ٹرسٹ ڈیڈ پچھلی تاریخوں میں اس فونٹ میں تیار کیا گیا جو تب ایجاد کے مراحل میں تھا ۔اس پر تو دلائل دیے جا سکتے تھے کہ تجرباتی طور پر یہ ٹائپ استعمال کیا گیا لیکن اس ٹرسٹ کے لیے دستاویزات( اسٹامپ پیپرز )کی خرید جس دن ظاہر کی گئی اس دن تو برطانیہ میں اسپتال، ہوٹل اور ریسٹورینٹ کے سوا تمام کاروبار بند ہوتا ہے۔ ہفتہ اوراتوار تو عام تعطیل ہوتی ہے۔ اس دن نہ عدالت کھلتی ہے نہ کاروبار برطانیا کے شہری ہفتہ وار تعطیل سے بھرپور لطف اندوز ہوتے ہیں اور اس دن فون سننا بھی گوارا نہیں کرتے ۔پہلے فون کے اسکرین پر نمبر دیکھتے ہیں پھر فون سننے یا نہ سننے کا فیصلہ کرتے ہیں ۔ اس دن اسٹامپ فروش بھی موجود تھا اس نے اسٹامپ فروخت بھی کیے اور پھر اس دن ہی دستاویزات تیار ہوگئیں اور اس ہی دن ان کی تصدیق بھی کرالی گئی تو تماشا کون کر رہا ہے۔
عدالت عظمیٰ کے معزز ججوں نے اپنا فیصلہ سنایا اور پھر دیگر مقدمات کی سماعت میں مصروف ہو گئے۔ جے آئی ٹی کے ارکان نے اپنے اپنے محکموں میں اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں تو پھر تماشا کون کر رہا ہے؟ کون عدالتی فیصلہ کاتمسخر اُڑا رہا ہے؟ عوام کو عدالت کے خلاف اُکسارہا ہے کون جلسے اور ریلی نکال رہا ہے؟ تماشا تو وہ کر رہے ہیں جو عدالتی فیصلہ کو قانون کے بجائے دباؤ کے ذریعہ تبدیل کرانا اور اداروں سے ٹکراؤ چاہتے ہیں جو عوام کو عدالتی فیصلے کے خلاف اُٹھ کھڑے ہونے پر اُکسا رہے ہیں ۔ پہلی مرتبہ کسی طاقتور کے خلاف فیصلہ آیا ہے اس سے قبل بھی ایک وزیراعظم کے خلاف فیصلہ آیا تھااس نے تو فیصلہ قبول کیا اور گھر کی راہ لی تھی۔ نوازشریف کے اپنے مفاد میں ہے کہ وہ عدالتی فیصلہ تسلیم کریں اور قانون کا راستا اختیار کریں لیکن عدالت عظمیٰ کی جانب سے صادق اور امین نہ ہونے پرنااہل قرار دیے جانے اور کرپشن کے معاملات نیب کے حوالے کرنے کا حکم ہی وہ تکلیف دہ امر ہے جس نے نوازشریف کو تماشا لگانے پر مجبور کر دیا ہے دیگر معاملات تو اپنی جگہ صرف حدیبیہ پیپرز ملز کا کیس بھی پورے ٹبر کے سیاسی تابوت کو پیک کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس کیس میں توصرف نوازشریف ہی نہیں شہبازشریف اور عباس شریف کی فیملی بھی ملوث ہے ۔یوں پورا ٹبر ہی بدعنوان ثابت ہونے جا رہا ہے۔ نوازشریف اس تماشے کے ذریعے نیب اور اداروں کو دباؤ میں لانا چاہتے ہیں لیکن اب حالات بدل چکے ہیں ۔ اب ادارے دباؤ ڈالتے ہیں قبول نہیں کرتے ۔یقین نہ ہو تو جے آئی ٹی کی پوری تحقیق دیکھ لیں بات سمجھ آجائے گی ۔بلکہ بڑے گونگلو کی تصویر کے ذریعہ دباؤ کی کوشش نے تو الٹا اثر دکھایا تھا اوراب بھی دباؤ کا ہر حربہ گلے میں پڑی رسی کے تناؤ میں اضافہ ہی کرے گا۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے اعادہ کی دھمکی دینے والے اس سانحہ میں ملوث تمام کرداروں کا عبرتناک انجام بھی یاد رکھیں اور یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ1971نہیں 2017 ہے۔ وطن کے تحفظ کے لیے اُٹھنے والے ہاتھوں میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
٭٭…٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر