... loading ...
17اگست آئی اور خاموشی سے گزر گئی۔ 29 سال قبل 1988 میں اس منحوس دن ایک بڑا سانحہ ہوا تھا ۔ بہاو لپور سے اس وقت کی تقریباً پوری فوجی قیادت کو لے کر ہوا میں اڑنے والا سی 130 طیارہ بستی لال کمال تک پہنچ کر فضا میں دھماکے سے پھٹ گیا تھا۔ طیارے میں صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق اور جنرل اختر عبدالرحمن سمیت 22 سے زائد فوجی افسران سوار تھے جو تمام اس فضائی حادثہ کا شکار ہوکر راہی ملک عدم ہوئے جہاں جاکر نہ کوئی واپس آیا ہے اور نہ آئے گا۔
جنرل ضیاء الحق مرحوم کی باقیات میں حالیہ معزول ہونے والے وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کے بھائی وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف بھی شامل ہیں ۔ پاکستان پر اب بھی ان کی جماعت مسلم لیگ ( ن ) کی حکمرانی ہے لیکن وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے لے کر نچلی سطح تک کسی کو بھی جنرل ضیاء الحق کی برسی منانے کا خیال نہیں آیا۔ فیصل مسجد اسلام آباد کے پہلو میں واقع ضیاء الحق کی قبر اسی طرح سے تاریکی اور ویرانی میں ڈوبی اس بے اعتنائی پر نوحہ کناں رہی اور بے وفا زمانے کی بے رخی پر ماتم کرتی رہ گئی۔میاں نواز شریف کی سیاسی پرورش جنرل ضیاء الحق کی گود میں ہوئی جس کا اعتراف انہوں نے چند روز قبل یہ کہہ کر کیا ہے کہ تمام فوجی سربراہوں کے ساتھ ان کے تعلقات خراب ہونے کا تاثر درست نہیں ہے۔ جنرل ضیاء الحق اور فوجی قیادت کے طیارے کو جب حادثہ پیش آیا تو میاں نواز شریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے لیکن اس دن وہ بہاولپور میں صدر ضیاء الحق کے ہمراہ نہیں تھے۔وہ مری میں قیام پزیر تھے۔ حالانکہ انہیں بہاولپور صدر مملکت کے ساتھ ہونا چاہئے تھا۔ پاکستان کی سیاست میں شریف برادران کی پاور فل انٹری میں جنرل ضیاء الحق ہی کا ہاتھ تھا۔ بستی لال کمال کے سانحہ کے بعد جنرل مرزا اسلم بیگ‘ جنرل آصف نواز ‘جنرل جہانگیر کرامت‘ جنرل عبدالوحید ‘ جنرل پرویز مشرف‘ جنرل کیانی‘ اور جنرل راحیل شریف پاک فوج کے سربراہ رہے ہیں لیکن ان میں سے کسی کے ساتھ بھی میاں نواز شریف کے تعلقات خوشگوار نہیں رہے۔ ایک نے انہیں فوجی چھڑی دکھا کر اقتدار سے باہر نکالا تھا تو دوسرے نے 1999 میں فوجی انقلاب کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے انکی چھٹی کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ میاں نواز شریف کے ستارے فوج سے ملتے ہی نہیں ہیں ۔ وہ اقتدار میں آنے کے لیے تو فوج کا زینہ استعمال کرلیتے ہیں لیکن بد سر اقتدار آکر ان کی وردی والوں سے لڑائی اور چپقلش شروع ہوجاتی ہے۔ وہ 2013 میں تیسری بار وزیراعظم ہوئے تو عام خیال یہ تھا کہ وہ فوج کے حوالے سے اب پھونک پھونک کر قدم رکھیں گے لیکن بد قسمتی سے ان کی حرکات و سکنات اور پالیسیاں پھر قابل گرفت ہوگئیں اور اقتدار کے چار سال گزار کر ایک بار پھر احتساب کی کڑی آزمائش سے گزر رہے ہیں ۔ انہیں عزیز یہ اسٹیل ملز کے کیس میں نیب نے 17؍ اگست کو طلب کیا تھا۔ ان کے ساتھ ان کے دو بیٹوں حسن نواز اور حسین نواز کے نام بھی سمن جاری ہوئے تھے۔ اس مقصد کے لیے نیب کے ڈائریکٹر رضوان احمد کی سربراہی میں ان کا بیان ریکارڈ کرنے کے لیے ایک ٹیم اسلام آباد سے لاہور آئی تھی لیکن تینوں ملزمان پیش نہیں ہوئے اور نیب کی ٹیم واپس روانہ ہوگئی۔ امکان ہے کہ آئندہ ہفتہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور طارق شفیع دوبارہ نیب میں پیش ہوں گے۔
قرآن مجید میں ہے ترجمہ ( احسان کا بدلہ تو فقط احسان ہی ہے )۔جنرل ضیاء الحق نے شریف برادران کو سیاست میں اعلیٰ مقام دے کر اس خاندان پر احسان کیا تھا۔کیا مرحوم جنرل کا اتنا بھی حق نہیں تھا کہ ان کی برسی ہی پارٹی سطح پر ملک بھر میں منائی جاتی اور ان کے ایصال ثواب کے لیے فاتحہ خوانی ہوتی۔ اس طرح عسکری حلقوں کو یہ پیغام بھی پہنچ جاتا کہ فوج کے حوالے سے شریف برادران کی سوچ اور فکر تبدیل ہوچکی ہے اور فوجی سربراہان کی عزت و تو قیر اور احترام کا جذبہ ان کے دلوں میں موجزن ہے۔ افسوس کہ 17 اگست کا دن بھی لڑائی جھگڑے اور بیان بازی میں گزار دیا گیا ۔سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا یہ کہنا کہ میاں نواز شریف کے گرد خوشامدی مشیروں کا ٹولہ جمع ہے جو انہیں درست مشورے نہیں دیتا اور اداروں سے لڑاکر اپنے دام کھڑے کرتا ہے۔ یہ بات تو جامعات میں زیر تعلیم سیاست کے طالب علموں کو بھی معلوم ہے کہ ملک میں اس وقت ’’عدالتی ایکٹیوازم‘‘ کار فرما ہے۔ عدلیہ کی پشت پر ساڑھے گیارہ لاکھ کی تعداد میں مسلح افواج موجود ہیں ۔ اتنی بڑی قوت کا سامنا آسان کام نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں آنے سے دس گنا بڑی فوجی قوت بھارت کی ٹانگیں کانپتی ہیں ۔اس عدالتی فعالیت اور عسکری قوت سے ٹکراؤ اور تصادم کا نتیجہ تباہی وبربادی کے سوا کچھ اور نہیں ہوسکتا۔
آج پورا شریف خاندان عدلیہ اور نیب کے روبرو پیش ہے۔ کرپشن کی تحقیقات درپیش ہے۔ دنیا بھر میں رسوائی ہورہی ہے‘ ملک میں تباہی ہورہی ہے۔ اب تو قومی احتساب بیورو ( نیب ) نے سابق صدر پاکستان اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی سمیت بھی رخ کرلیا ہے۔ آصف زرداری اور ان کی اہلیہ بے نظیر بھٹو کے خلاف غیر قانونی جائیدادیں بنانے کے الزام میں 2001 میں ایک ریفرنس دائر کیا گیا تھا۔ بعدازاں سابق صدر مملکت پرویز مشرف نے این آر او کے تحت 8 ہزار سے زائد مقدمات بند کیے جن میں یہ ریفرنس بھی شامل تھا۔ 2007 میں این آر او جاری ہوا تو یہ ریفرنس بند کردیا گیا تھا لیکن 2009 میں سپریم کورٹ نے بندکیے جانے والے مقدمات دوبارہ کھولنے کا حکم دیا ۔اس وقت آصف علی زرداری صدر مملکت تھے اور ان کی اہلیہ 27 دسمبر 2007 کو شہید کی جا چکی تھیں ۔ صدر پاکستان کی حیثیت سے انہیں آئین کے آرٹیکل 24 کے تحت استثنیٰ حاصل تھا۔ قومی احتساب بیورو نے اپریل 2017 میں اس کیس کو دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کیا اور اب روز مرہ کی سماعت کے ذریعے اس کیس کو جلد نمٹانے کا فیصلہ کیا گیا ہے‘ نیب پورے ملک اور بالخصوص پنجاب اور سندھ میں پوری قوت کے ساتھ مصروفِ عمل ہے۔ بد عنوان افسروں اور سیاستدانوں کی فہرستیں تیار ہورہی ہیں ۔ سندھ اسمبلی نے ایک قانون پاس کرکے قومی احتساب بیورو کو صوبہ میں کام کرنے سے روک دیا تھا لیکن سندھ ہائی کورٹ نے صوبائی قانون مسترد کرکے نیب کو دوبارہ کام کرنے کی ہدایت کی ہے۔ عدالت عالیہ سندھ کا کہنا ہے کہ بد عنوان افسران کو سرکاری ملازمتوں پر بحال کرکے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا گیا ہے ۔ کروڑوں کی کرپشن کرنے والے افسروں کو کیسے عہدوں پر بحال کیا گیا۔ اس سلسلے میں چیف سیکریٹری سے بھی جواب طلب کیا گیا ہے اور نیب کو نوٹس جاری ہوا ہے۔ اس کے علاوہ جن ارکان اسمبلی نے نیب کو ختم کرکے صوبائی احتساب قانون بنانے کی منظوری دی تھی‘ ان کے نام بھی عدالت نے طلب کرلیے ہیں ۔پاکستان میں وفاقی احتساب بیورو اور عدلیہ کی فعالیت دیکھ کر یہ اندازا کیا جاسکتا ہے کہ طاقتور طبقات کی کرپشن روکنے کے لیے آئین اور قانون کا ڈنڈا حرکت میں آچکا ہے جس کے پیچھے مسلح افواج کی طاقت بھی سیسہ پلائی دیوار کی طرح موجود ہے۔ چینی انقلاب کے قائد کا مریڈ ماؤزے تنگ تھے لیکن ان کے ساتھ اگر فوج کے سربراہ جنرل چوتہہ نہ ہوتے تو شاید چینی انقلاب کامیاب نہ ہوتا۔ جاگیر دارانہ استحصالی نظام میں جکڑے پاکستان میں صرف فوج اور عدلیہ کی طاقت ہی ایسی ہے جو جاگیرداروں کی وحشیانہ طاقت کو لگام دے سکتی ہے۔ معزول وزیر اعظم میاں نواز شریف کو تو سیاست کے تپتے ریگزاروں پر انگلی پکڑ کر چلنا ہی جنرل ضیاء الحق نے سکھایا تھا ۔وہ اس حقیقت کا جس قدر جلدار راک کرلیں اُن کے حق میں بہتر ہوگا۔
٭٭…٭٭