... loading ...
روس کے نیشنل پارک نے سائبیرین شیروں کی قربتوں اور بوس و کنار والی تصاویر جاری کی ہیں ۔ان تصاویر میں شیروں کے کنبے اور بچے کھیل کود کرتے اور کیمرے کیلئے پوز کرتے نظر آتے ہیں ۔ سائبیرین شیروں کی تعداد ایک وقت میں کم ہو کر تقریبا دو درجن رہ گئی تھی لیکن اب ان کی تعداد تقریبا 600 بتائی جاتی ہے۔
دو لاکھ 60 ہزار ہیکٹر کی وسیع اراضی پر پھیلے پارک میں تقریباً 22 بالغ سائبیرین شیر اور ان کے سات بچے ہیں۔ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب شیروں کی یہ نسل شکار کی وجہ سے ناپید ہونے کے قریب پر پہنچ گئی تھی لیکن ان کی تعداد میں اب بہتری نظر آ رہی ہے۔
روسی پارک میں تقریبا 22 بالغ شیر اور ان کے سات بچے رہتے ہیں۔نیشنل پارک کے مطابق، زمین کی سطح پر لگے آٹومیٹک کیمرے سے یہ تصاویر لی گئی ہیں اورپہلی بار اس طرح سے سائبیرین شیروں کے خاندان کی زندگی کو ریکارڈ کیا گیا ہے۔’دی سائبیرین ٹائمز’ کے مطابق، یہ کیمرے شیروں اور ایسے دوسرے ناپید ہونیوالے جانوروں کی نگرانی کے لیے لگائے گئے تھے۔
ویڈیو اور تصاویر میں شیروں کے بچوں کو زمین پر لوٹ پوٹ کرتے اورکھیلتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ان بچوں کی ماں کی تصویر پہلے بھی سامنے آ چکی ہے جسے سائنسداں ‘ٹی 7 ایف’ نام سے جانتے ہیں۔ سنہ 2014 میں اس کی تین بچوں کے ساتھ تصویر سامنے آئی تھی۔ یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ ان میں سے دو اب بڑے ہو گئے ہیں اور سائبیریا سے پڑوسی ملک چین چلے گئے ہیں۔
ایک دوسری تصویر میں شیروں کے بچے کیمرے کی طرف بڑھتے اور پھر اس میں جھانکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ سے کیمرے کا میموری کارڈ باہر آ جاتا ہے اور ویڈیو کٹ جاتا ہے۔یہ نیشنل پارک روس کے پریمورسی کرائی صوبے کے جنوب مغرب حصے میں پھیلا ہوا ہے ۔ یہ کیمرے کے اتنے قریب ہیں گویا سیلفی لے رہے ہوں۔اسے امر ٹائیگر بھی کہتے ہیں اور اس کا قدرتی علاقہ روس میں ہے۔ جہاںوہ ناپید ہوتے جا رہے ہیں اور روس میں ان کے شکار پر مکمل طور پابندی ہے۔ وہاں کم سہولیات اور کم تنخواہ کے مارے رینجرز انھیں شکاریوں سے بچانے کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔
سنہ 1930 کی دہائی میں جب یہ نسل ختم ہونے کے دہانے پر تھی تو ان کی تعداد گھٹ کر 20 سے 30 کے درمیان ہی رہ گئی تھی۔آج ایک اندازے کے مطابق، سائبیریا میں تقریباً 600 سائبیرین شیر ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق براعظم ایشیا کے پہاڑی علاقوں میں سیکڑوں برفانی شیر غیر قانونی شکاریوں کے ہاتھوں مارے جاتے ہیں۔آبادی سے دور اور اپنے آپ کو چھپا کر رکھنے والا سفید برفانی شیر کوہ ہمالیہ اور تبت کے علاقوں کے 12 ممالک میں پایا جاتا ہے۔ان ممالک میں چین، بھوٹان،نیپال، انڈیا، پاکستان، منگولیا، کرغزستان ، تاجکستان اور روس شامل ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق اس نسل کے شیروں کی تعداد اب محض چار ہزار رہ گئی ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک ہفتے میں اوسطاً چارشیر مارے جاتے ہیں اور ان میں زیادہ تر کی ہلاکت مقامی شہریوں کے ہاتھوں ہوتی ہے جو اپنے مال و اسباب کے نقصان کے بعد انتقامی کارروائی کرتے ہوئے انھیں ہلاک کر دیتے ہیں ۔ رپورٹ میں برفانی شیروں کی کھالوں کی غیر قانونی خریدو فروخت پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
یہ برفانی شیر عموماً ایک ہزار سے 5400 میٹر کی بلندی پر انتہائی سرد موسم میں رہتے ہیں اور ان کے گھنے بال انھیں سردی سے بچاتے ہیں۔اپنی خوراک کیلئے برفانی شیر مویشی اور بھیڑ بکریوں کا شکار کرتے ہیں جس کے وجہ سے مقامی کسان اْن سے پریشان اور خوف زدہ رہتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 2008 کے بعد سے ہر سال 450 سے 221 برفانی شیر شکاریوں کا نشانہ بنتے ہیں ۔ رپورٹ کے محققین کا کہنا ہے کہ برفانی شیروں کی ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ اس شکار کی وجہ انسان اور جنگلی حیات کی لڑائی ہے۔
برفانی شیروں کی اون، کھال ، جبڑے اور دانت آن لائن فروخت کیے جاتے ہیں۔اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ برفانی شیروں کا 90 فیصد شکار چین، منگولیا، پاکستان،بھارت اور تاجکستان میں ہو رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 21 فیصد برفانی شیروں کا شکار غیر قانونی تجارت کی وجہ سے ہوتا ہے تاکہ اس کی کھال، ہڈیوں اور دانتوں کو مہنگے داموں فروخت کیا جا سکے۔برفانی شیروں کی تعداد میں کمی کی ایک اور باعثِ تشویش وجہ انٹرنیٹ پر اس کے کھال کی فروخت ہے۔’برفانی شیروں کی اون، کھال ، جبڑے اور دانت آن لائن فروخت کیے جاتے ہیں اور ان کی تشہیر طبی خصوصیات بیان کر کے کی جاتی ہے۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گو کہ انسانوں اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے برفانی شیروں کی نسل معدوم ہو رہی ہے۔
لیکن ان کی بقا کیلئے بعض کامیاب اقدامات بھی کیے گئے ہیں۔ کرغزستان میں حکومت اور ماحولیاتی تحفظ کیلئے کام کرنے والے افراد نے کسانوں کو شکار کرنے کی رعایت دیتے ہوئے اْس علاقے کو جنگلی حیات کی افزائش کی جگہ بنا دیا ہے۔تصویری شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ آئی بیکس کی تعداد بڑھنے سے اْن علاقوں میں برفانی شیروں کی بڑی تعداد واپس آئی ہے۔
تہمینہ حیات نقوی