... loading ...
اللہ کا شکر ادا کرنے کے بعد ڈاکٹر رتھ فاؤ کا شکریہ کہ آج پاکستان میں کوئی کوڑھی نظر نہیں آتا۔ نئی نسل کو تو شائد معلوم بھی نہیں کہ کوڑھ یا جزام کتنا خطرناک اور دردناک مرض ہے۔ کوڑھ یا جزام کے مریض کے جسم پر پھوڑے نکلنا شروع ہوتے ہیں جس سے جسم گلنے لگتا ہے۔ جسم میں پیپ پڑجاتی ہے اور گوشت ٹوٹ کر گرنے لگتا ہے۔
کوڑھی اپنے اعضاء کو بکھرنے سے بچانے کے لئے ہاتھوں، ٹانگوں اور منہ کو کپڑے کی بڑی بڑی پٹیوں میں لپیٹ کر رکھتے ہیں۔ کوڑھی یا جزامی کے جسم سے بہت تیز بدبو بھی آتی ہے جس سے لوگ کوڑھی کے قریب سے گزرنا بھی پسند نہیں کرتے۔ جس انسان کو کوڑھ لاحق ہوجاتا تھا اسے شہر سے باہر مرنے کیلئے پھینک دیا جاتا تھا۔ ساٹھ کی دہائی میں پاکستان میں جزام کے مرض میں مبتلا افراد کی تعداد ہزاروں میں تھیں۔ یہ تعداد روز بروز بڑھ رہی تھی۔ پاکستان کے تقریبا ہر شہر میں کوڑھیوں کے لیے مخصوص علاقے ہوتے تھے جنہیں کوڑھی احاطہ کہا جاتا تھا۔ لوگ کوڑھ کے مرض میں مبتلا اپنے عزیزوں دوستوں کو یہاں پھینک جاتے تھے۔ خدا ترس لوگ مریضوں کے لیے کھانا دیواروں کے باہر سے اندر پھینک دیتے تھے اور یہ بیچارے مٹی اورکیچڑ میں لتھڑی ہوئی روٹیاں جھاڑ کر کھا لیتے تھے۔اس طرح جسم و جاں کا ناتواں رشتہ قائم رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔کوڑھ کو ناقابل علاج مرض سمجھا جاتاتھا۔علاج کی کوئی صورت نہیں تھی اس مرض کو چھوت کی بیماری سمجھا جاتا تھا ،اس لیے اپنے پیارے بھی کوڑھ کے مریض کو مرنے کے لیے کوڑھی احاطے میں پھینک آتے تھے۔ اس مرض کا شکار مریض کے پاس دو ہی راستے ہوتے تھے یا تو سسک سسک کر جان دیدے یا خودکشی کرلے۔۔
اس تکلیف دہ صورتحال کی عکاسی پاکستان میں کوڑھ کے مرض کے حوالے سے بننے والی ایک دستاویزی فلم میں کی گئی تھی۔ مختصر دورانیئے کی یہ فلم مغربی ممالک میں دکھائی جاتی تھی تاکہ جزامیوں کی فلاح کے لئے چندہ جمع کیا جا سکے۔ جرمنی میں اس فلم کی نمائش 1958میں کی گئی ، فلم دیکھنے والوں میں ایک نوجوان جرمن لیڈی ڈاکٹر رتھ فاؤ بھی شامل تھیں۔ رتھ فاؤ پر اس فلم نے اتنا اثر کیا کہ انہوں نے پاکستان جا کر کوڑھ کے مریضوں کے لیے کام کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
سن انیس سو ساٹھ کے دوران مشنری تنظیم نے ڈاکٹر رْتھ فاؤ کو پاکستان بھجوایا۔ یہاں آکر انہوں نے جرمنی واپس نہ جانے کا فیصلہ کر لیا۔ انہوں نے کراچی ریلوے اسٹیشن کے پیچھے واقع کوڑھیوں کی بستی میں چھوٹا سا فری کلینک کا آغاز کیا جو ایک جھونپڑی میں قائم کیا گیا تھا۔ “میری ایڈیلیڈ لیپرسی سینٹر” کے نام سے قائم ہونے والا یہ کلینک جذام کے مریضوں کے علاج کے ساتھ ساتھ ان کے لواحقین کی مدد بھی کرتا تھا۔
مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر 1963 میں ایک باقاعدہ کلینک خریدا گیا جہاں کراچی ہی نہیں، پورے پاکستان بلکہ افغانستان سے آنے والے جذامیوں کا علاج کیا جانے لگا۔ کام میں اضافے کے بعد کراچی کے دوسرے علاقوں میں بھی چھوٹے چھوٹے کلینک قائم کیے گئے اور ان کے لیے عملے کو تربیت بھی ڈاکٹر رْتھ فائو ہی نے دی۔ جذام کے مرض پر قابو پانے کے لیے ڈاکٹر رْتھ نے پاکستان کے دورافتادہ علاقوں کے دورے بھی کیے اور وہاں بھی طبی عملے کو تربیت دی۔ انہوں نے جرمنی کے کئی دورے کیے جہاں سے انہوں نے پاکستان کے جزامیوں کے لیے بیش بہا عطیات جمع کیے اور کراچی کے علاوہ راولپنڈی میں بھی کئی اسپتالوں میں لیپرسی ٹریٹمنٹ سینٹر قائم کیے۔ڈاکٹر رتھ فاؤ نے نیشنل لیپرسی کنٹرول پروگرام ترتیب دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر رتھ فاؤ کی بے لوث کاوشوں کے باعث پاکستان سے کوڑھ کے مرض کا خاتمہ ممکن ہوا۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے1996 میں پاکستان کو جزام سے پاک ملک قرار دے دیا۔۔ شکریہ ڈاکٹررتھ فاؤ ہم پاکستانی آپ کو اور آپ کی خدمات کو کبھی نہیں بھولیں گے۔
٭٭…٭٭