وجود

... loading ...

وجود

نجکاری اور اس کے ااثرات

منگل 08 اگست 2017 نجکاری اور اس کے ااثرات

بڑے  بڑے اہم اداروں کی نجکاری تیزی سے جاری ہے محکمہ ٹیلی فون عرصہ قبل بک چکا جو کہ ملک کے سارے بجٹ کا تقریباً نصف اپنے ریونیو سے پورا کرتا تھااور قطعاً کسی سال بھی یہ محکمہ خسارے میں نہ گیا تھا ۔حکمرانوں نے اپنی یار باش کمپنی کو اونے پونے داموں نہیں بلکہ کل مالیتوں سے بیسیوں گناکم قیمت پر بیچ ڈالااب موجودہ حکومت کی بقیہ تقریباً پون سال کی مدت کے دوران حصص اور اداروں کی نجکاری کی بیس سے زائد ٹرانزیکشنز کو مکمل کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے تاکہ اگلے انتخابات تک مزید ڈھیروں مال حصہ بقدر جثہ کے مطابق حاصل کرلیںتاکہ اس وقت انتخابات میں ایک ایک ووٹر کو بھی خریدنا چاہیں تو کوئی مشکل پیش نہ آئے۔پی آئی اے کے حصص کی نجکاری کے لیے انتظامات تیزی سے جاری ہیں پی آئی اے ٹریڈ یونینز کے تمام گروپس بشمول سودا کاری ایجنٹ اور پیاسی یونین وغیرہ سبھی نے چیخ و پکار کرکے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے ہڑتالیں کی اور دھرنے دیے جارہے ہیں۔مگر سرمائے کے لالچ نے متعلقین کی آنکھوں پر چربی ہی نہیں چڑھا ڈالی بلکہ پٹی باندھ دی ہے اور وہ نجکاری کے علاوہ کوئی بات سننے سمجھنے توجہ تک دینے کے لیے تیار نہیں ہیں پاکستان ا سٹیل ملز کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کا بھی پلان انہی دس ماہ میں مکمل کیا جانا ہے(حالانکہ اس کو سابقہ دور میں سپریم کورٹ نے بکنے سے حکماً روک دیا تھا)ان کے علاوہ گجرانوالہ الیکٹرک کمپنی،کوٹ ادو پاور کمپنی میں بقیہ حصص کی فروخت ،ملک کی دیگر نو بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں حصص کی نجکاری کے ذریعے تین سو ستر ارب روپے سرکلر ڈیٹ کی ادائیگی اس طرح مکمل کرنی ہے یہ سارے نجکاری کے پلان انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ(آئی ایم ایف)کے ساتھ طے پانے والی ان معاشی اصلاحات کا حصہ ہے جنہیں ایکسٹینڈ ڈفنڈ فیزیبلٹی (EFF) قرض پروگرام کے خاتمے کے بعد مکمل کیا جانا ہے۔
“جس کا کھائیں اسی کا گائیں”کی طرح ہم سود در سود کی الجھنوںمیں اس قدرپھنس چکے ہیںکہ ہم محض کٹھ پتلیاں ہیںاور ہماری نام نہادگدھا گاڑی کو کسی اور ہی طرف سے ہانکا جارہا ہے ہماری حالت در اصل اس بندریا کا تماشہ دکھانے والے کی طرح ہوچکی ہے کہ بندریا کو جس طرح چاہے تماشادکھانے والانچاتا ہے اور اس سے اچھل کود کرواتا ہے اب جب ہم دنیا کے غلیظ ترین کافرانہ نظام کے تحت قرضوں کے بوجھ تلے دب ہی نہیں چکے بلکہ سودی نظام کے گہرے گڑھے میں مزید گرتے چلے جارہے ہیں تو اب ہمیں کوئی معجزہ ہی اس گھوم چکری سے نکال سکتا ہے خدانخواستہ خدانخواستہ ہمارے حکمرانوں کی عیاشیوں مال توڑ پروگرام ،کھربوں ڈالرز بیرون ملک دفنانا،اپنی من مرضی کی ا سکیموں پر خزانوں کے لٹانے کی وجہ سے ہم اگر پورے ملک کے ادارے بھی اغیارکو بیچ ڈالیں تب بھی سرخرو نہ ہوسکیں گے عوام بیچارے اسی بندر نچانے والے کی ڈگڈگی پر جھومنے اور بھوکے پیاسے ننگے رہ کر بھی ڈانس کرنے پر مجبور محض ہیں۔
دبئی میں پاکستان اور آئی ایم ایف حکام کے درمیان پاکستانی معیشت کے جائزے کے دوران نجکاری کے ان تمام پلانز پر اتفاق رائے ہوچکا ہے تمام قیمتی ادارے اونے پونے داموں حکمران ،ان کے حواری حتیٰ کہ ان کے کارندے اور ان کے ہمجولی ہی خرید لیں گے تاکہ بقیہ پون سالہ اقتدار میں تمام قیمتی ادارے لازماً فروخت کرکے باہر کسی اور ملک کی پانامہ لیکس جیسی کمپنیوں میں مال دفن کرسکیں۔اس طرح انکی آئندہ کئی نسلیں ان حرام سرمایوں کوکھاتی اور موج میلہ اڑاتی رہیں گی۔سرمایہ کے جوہڑ میںغوطے لگاتے افراد بھول جاتے ہیں کہ شہنشاہ ایران کا کیا حشر ہوا تھا اور کئی ممالک کے ڈکٹیٹر اور بادشاہ جب مال متال سمیٹ کر ملک سے چوری کرکے بھاگنے لگے تو انہی کے تابعدار محافظوں نے ان کے جسموں کے چیتھڑے اڑا ڈالے تھے اور ایسی چوری چھپے کی وارداتوںسے کمایا ہوا مال کب کسی کے کام آیا ہے؟گیلانی زرداری اور راجہ رینٹل اور ان کے ساتھیوں نے اربوں ناجائز ذرائع سے کمائے اب لوگوںکے دلوں سے اتر چکے اس طرح کسی بھی عیاش حکمران نے حرام مال پر اور کتنے عرصہ جی لینا ہے در اصل یہ سودی سرمایہ دارانہ نظام ہی کا”کمال ” ہے کہ غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوتے چلے جاتے ہیں تو پھر سرمایوں کا تفاوت اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ بپھرے ہوئے بھوکے ننگے بدحال غرباء اللہ اکبر اللہ اکبر کے نعرے لگاتے تحریک کی صورت میں نکل پڑتے ہیں اور بڑے بڑے بت الٹ جاتے ہیں اور ظالم سود خور صنعتکاروں‘ وڈیروں‘ خانوں ‘آمروں کو ان کی اپنی سرزمین بھی دفن ہونے کی جگہ دینے کوتیار نہیں ہوتی۔


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر