... loading ...
امریکی اور جنوبی کوریا کے سائنسدانوں نے پہلی بار ایمبریو سے اس ڈی این اے کو علیحدہ کر لیا ہے جو خاندان میں دل کے عارضے کا باعث بنتا ہے۔اس کامیابی سے تقریباً 10 ہزار ایسی بیماروں سے بچ جانے کا امکان ہے جو پشتوں میں منتقل ہوتی ہیں۔امریکی اور جنوبی کوریا کے سائنسدانوں نے ایمبریو کو پانچ روز تک بڑھنے دیا اور اس کے بعد انھوں نے تجربہ روک دیا۔اس تحقیق سے طب کے مستقبل کے بارے میں عندیہ ملتا ہے لیکن ساتھ ہی یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ اخلاقی طور پر کیا درست ہے۔ڈی این اے میں تبدیلی کے حوالے سے سائنس سنہرے دور سے گزر رہی ہے اور یہ سب کچھ نئی ٹیکنالوجی ‘کرسپر’ کے باعث ممکن ہوا۔ کرسپر کو سنہ 2015 میں سال کی سب سے اہم دریافت قرار دیا گیا تھا۔اوریگن ہیلتھ اینڈ سائنس یونیورسٹی کی امریکی ٹیم اور انسٹی ٹیوٹ فار بیسک سائنس میں جونبی کوریا کی ٹیم نے ہائپر ٹروفک کارڈیو میوپیتھی (hypertrophic cardiomyopathy) پر توجہ دی۔یہ بیماری 500 افراد میں سے ایک کو متاثر کرتی ہے اور اس کے باعث ایک دم سے دل دھڑکنا بند ہو سکتا ہے۔اس کی وجہ ایک غلط جینوم ہوتا ہے اور جس شخص کے ڈی این اے میں یہ ہے یہ جینوم اس کے بچوں میں منتقل ہونے کے 50 فیصد امکانات ہوتے ہیں۔سائنسی جرنل نیچر میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ہائپر ٹروفک کارڈیو میوپیتھی کے مریض کے نطفے کو صحت مند زنانہ عضو تولید میں انجیکٹ کیا گیا اور کرسپر کے ذریعے اس غلط جینوم کو نکالا گیا ۔ہر بار تو کامیابی حاصل نہیں ہوئی لیکن 72 فیصد ایمبریو اس بیماری کے جینوم سے پاک تھے ۔تحقیق کرنیوالی ٹیم کے اہم رکن ڈاکٹر شوکھرٹ نے کہا کہ ‘جو تکٹیک ہم نے استعمال کی ہے اس کے ذریعے پشتوں میں منتقل ہونے والی بیماریوں کے امکان میں کمی کی جا سکے گی۔’اس سے قبل کرسپر ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ڈی این اے میں تبدیلی کی کوششیں کی گئیں۔ چین نے کوشش کی کہ خون سے غلط جینوم کو پاک کیا جائے لیکن ہر خلیے کو ٹھیک نہیں کیا جا سکے جس کے باعث ایمبریو میں صحت مند اور بیمار خلیوں دونوں ہی پائے گئے۔
٭٭٭