... loading ...
پاکستان کے معاشرے کو عام طورپر مردوں کامعاشرہ تصور کیاجاتاہے جہاں ہر شعبہ زندگی پر مردوں کو بالادستی اور برتری حاصل ہے، اور خواتین کی حیثیت ثانوی تصور کی جاتی ہے، ا س معاشرے میں ایسے بھی ظالم اور درندہ صفت گھرانے موجود ہیں جہاں لڑکی کی پیدائش کو اب بھی منحوسیت تصور کرتے ہوئے لڑکی کی پیدائش پر لوگ خوشی کا اظہار کرنے کے بجائے منہہ بسور نے لگتے ہیں اور بعض اوقات لڑکی پیدا کرنے کے جرم میں ماں کو بھی گھر سے نکال باہر کرتے ہیں یا بہت زیادہ مہربانی کرتے ہیں تو اسے گھر میں لونڈی کی حیثیت دے کر نئی بہو لے آتے ہیں ، ایک ایسے ظالم معاشرے میں سندھ کے شہر روہڑی میں ایک ایسا مزار بھی موجود ہے جہاں خواتین باقاعدہ لڑکیوں کی پیدائش کی منتیں ماننے کیلئے دور دور سے آتی اور بقول ان کے اپنی مرادیں پاتی ہیں ،روہڑی میں پہاڑی پر موجود یہ مزارایک نہیں بلکہ ایک ساتھ بنے ہوئے سات مزار ہیں جو سات سہیلیوں یا سات بہنوں کے مزار کہلاتے ہیں ۔
دریائے سندھ کے کنارے لانس ڈاؤن پل کے قریب واقع سات سہیلیوں یا سات بہنوں کے یہ مزار ’’ستیاں جو آستانہ‘‘ کہلاتے ہیں صدیوں سے مرجع خلائق ہیں ، کہتے ہیں کہ یہ سات بہنیں جو آپ میں گہری دوست بھی تھیں اس لئے سات سہیلیاں کہلاتی تھیں ایک روایت کے مطابق یہ ساتوں بہنیں کم وبیش 1300 سال قبل محمد بن قاسم کے قافلے کے ساتھ سندھ آئی تھیں ،جبکہ ایک دوسری روایت کے مطابق یہ بہنیں محمد بن قاسم کی سندھ آمد کے وقت اس علاقے میں موجود تھیں ۔اس مزار تک پہنچنے کیلئے اب پہاڑی پر سیڑھیاں تعمیر کردی گئی ہیں لیکن راستہ بدستور ناہموار ہے،اس مزار کی 5 بالکونیاں ہیں جہاں سے دریائے سندھ کانظارہ کیاجاسکتاہے۔
ان سات بہنوں یا سہیلیوں کے بارے میں مختلف کہانیاں سنائی جاتی ہیں بعض لوگوں کاخیال ہے کہ یہ بہنیں نہیں بلکہ سہیلیاں تھیں جنھوں نے اس پہاڑی کو اپنا مسکن بنالیاتھا جبکہ دوسرے حلقے کا کہناتھا کہ وہ ساتوں آپس میں بہنیں تھیں لیکن ان کے درمیان اتنی گہری دوستی تھی کہ وہ ساتھ سہیلیوں کی حیثیت سے مشہور تھیں اور ان کی دوستی کی پورے علاقے میں مثالیں دی جاتی تھیں ۔
ان سات بہنوں کو اس وقت سخت آزمائش کاسامنا کرنا پڑا جب اس وقت کے سکھر کے جواس دور میں بھکر کہلاتاتھا کے ہندو حکمراں راجہ داہر کی نظر ان پر پڑی اور اس نے اپنے غلاموں کو حکم دیا کہ ان کو اس کے سامنے پیش کیاجائے ،کہتے ہیں کہ ان سات بہنوں کو جب راجہ داہر کے اس حکم کاعلم ہوا تو انھوں نے اللہ سے گڑ گڑا گڑ گڑا کر دعا مانگنا شروع کی کہ یا اللہ ہماری عزت کی حفاظت کر، ایک روایت کے مطابق جب یہ ساتوں بہنیں سجدے میں پڑی اللہ سے گڑگڑا رہی تھیں اچانک پہاڑی شق ہوئی اور اس نے ساتوں کو اپنی آغوش میں لے لیا اس طرح وہ راجہ داہر کی دستبرد سے بچ گئیں اور اس کے بعد ہی سے یہ جگہ ایک مقدس مقام کے طورپر مشہور ہوگیا،اس واقعے کے بہت عرصہ بعد یہاں باقاعدہ مزار تعمیر کردیا گیا، یہ مزار پہاڑی کے اس غار میں جہاں یہ ساتوں بہنیں مقیم تھیں پہاڑی کے اس مقام سے جہاں وہ اللہ کے حضور دعائیں کررہی تھی کچھ اوپر واقع ہے۔اس مزار کی دیکھ بھال کرنے والے مقامی شخص امداد علی کا کہناہے کہ سات سہیلیوں کے مزار کے اس غار میں مردوں کاداخلہ قطعی ممنوع ہے اور کسی بھی مرد کو کسی بھی وجہ سے غار میں جانے کی قطعی اجازت نہیں دی جاتی۔امداد علی نے بتایا کہ یہ پاک بیبیاں تھیں اور ان کے تقدس کا تحفظ کرنا اب ہماری ذمہ داری ہے۔
ان سات بہنوں یا سہیلیوں کے مزار پرمنت مرادیں لے کر آنے والی خواتین کی عبادت کیلئے ایک خصوصی گوشہ قائم کردیاگیا ہے ،مزار کے نگراں امداد علی کے مطابق ا س مزار پر ضرورت مند خواتین کی آمدورفت پورے سال جاری رہتی ہے اور سندھ کے مختلف علاقوں ہی سے نہیں بلکہ بلوچستان اور پنجاب کے دور دراز کے شہروں اور دیہات کی خواتین بھی یہاں آتی ہیں اور بقول ان کے اپنی مرادیں پاتی
ہیں ۔ملتان سے مزار پر آنے والی ایک خاتون نسیم بیگم نے بتایا کہ میرے تین بیٹے ہیں اور میں ایک بیٹی کی منت ماننے کیلئے اس مزار پر آئی ہوں ۔نسیم بیگم نے بتایا کہ مجھے ان پاک بیبیوں کے بارے میں خیرپور میں مقیم میرے ایک رشتہ دار نے بتایا جس پر میں یہاں چلی آئی۔اس مزار کی 5بالکونیوں میں آپ کو ہر طرف چوڑیاں پتلے پتلے دھاگوں میں لٹکتی نظر آئیں گی یہ چوڑیاں یہاں منت ماننے کیلئے آنے والی خواتین لٹکا جاتی ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ چوڑیاں ہوا سے جتنا زیادہ ہلتی رہیں گی ان کی منت اتنی ہی جلدی پوری ہوگی، یہاں منت ماننے والی خواتین منت پوری ہونے یعنی لڑکی پیدا ہونے کے بعد نومولود کو لے کر بھی اس مزار پر آتی ہیں اور نذرانے چڑھاتی ہیں ،یہاں مزار کے احاطے میں قرآن کی تلاوت میں مصروف ایک خاتون روبی نے بتایا کہ میرے 8بیٹے ہیں بیٹی کوئی نہیں تھی اس مزار پر منت ماننے کے بعد اللہ نے مجھے ایک بیٹی سے نوازا ہے اب میری بیٹی دوسال کی ہوچکی ہے اور میں شکرانہ ادا کرنے اس مزار پر آئی ہوں ۔روبی نے بتایا کہ میں بچپن ہی سے اس مزار پر آرہی ہوں میری والدہ نے بھی اس مزار پر منت مانی تھی جس کے بعد میں پیدا ہوئی اور اب میں نے منت مانی تو میرے بیٹی پیدا ہوئی جس کانام میں نے آسیہ رکھا ہے۔
اس پہاڑی کے اوپر بھی کئی قبریں ہیں جو دیکھنے میں عجیب سے معلوم ہوتی ہیں ان میں سب سے بڑی نظر آنے والی قبرابوالقاسم نمکین کی کہلاتی ہے جو بھکر کے امیر یعنی حکمراں تھے،ایک مقامی شخص نے بتایا کہ ابوالقاسم نمکین کے خاندان کے تمام افراد اسی پہاڑی پر دفن ہیں ،مزار کے ایک اور نگراں نے بتایا کہ مغل بادشاہ اکبر کے ایک گورنر بھی اسی پہاڑی پر دفن ہیں ،مزار کے نگراں نے بتایا کہ آخری مرتبہ اس مزار اور پہاڑی پر واقع دیگر مزاروں اور قبروں کی مرمت اور بحالی کاکام 2000 اور2001 کے دوران اس وقت کیاگیاتھا جب کلیم اللہ لاشاری اس علاقے کے ڈپٹی کمشنر تھے، حکومت کی جانب سے ان مزاروں کی دیکھ بھال اور تعمیر ومرمت کیلئے کسی طرح کاکوئی فنڈ نہیں دیاجاتالیکن مزار پر آنے والے جو عطیات دیتے ہیں اسی سے مزار وں کی دیکھ بھال اور مزاروں کے نگراں عملے کی تنخواہیں وغیرہ ادا کی جاتی ہیں ۔مزار کے ایک نگراں امداد علی نے بتایا کہ مجھے حکومت یا انتظامیہ کی جانب سے کوئی تنخواہ نہیں ملتی بلکہ یہاں آنے والے جو عطیات دیتے ہیں اسی سے میری گزر بسر ہوتی ہے امداد علی نے بتایا کہ مرادیں پوری ہونے پر بعض لوگ مٹھائیاں لے کر آتے ہیں بعض کھانے لاتے ہیں جس سے ہمارا اور ہمارے بچوں کا پیٹ بھرتا رہتاہے۔