وجود

... loading ...

وجود

شریف خاندان اور گندی دولت

هفته 22 جولائی 2017 شریف خاندان اور گندی دولت

ریمنڈ بیکر نے گندی دولت کے حوالے سے اپنی کتاب سرمایہ داری نظام کا کمزور گوشہ کے عنوان سے نواز شریف کی کرپشن کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے، ریمنڈ بیکر نے اپنی کتاب ڈرٹی منی میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ آزاد منڈی کے نظام کی اس طرح تجدیدکیسے کی جاسکتی ہے جس سے یہ پتہ چلایاجاسکتاہے کہ گندی دولت یعنی کرپشن سے حاصل کردہ دولت کس طرح کام کرتی ہے۔
کتاب میں واضح کیاگیاہے کہ کرپشن اور جرائم اوپر سے نیچے تک کام کرتے ہیں،اور سیاستداں ذاتی مفادات کی خاطر قومی خزانوں کو لوٹ کر معاشی پالیسیوں کو تباہ کرتے رہتے ہیں۔بینکوں سے لوگوں کو ان کی حیثیت اور سیاسی تعلقات کی بنیاد پر قرض دیے جاتے ہیں۔دولت مند اپنی ددلت اپنی پسند کے ملکوںمیں بھیج دیتے ہیں اور اپنا قرض ادا کرنے پر کوئی توجہ نہیں دیتے۔
ریمنڈ بیکر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ پاکستان کی حالیہ تاریخ دو خاندانوں بھٹو اورشریف خاندانوں کے گرد گھومتی ہے۔فوج جو ملک کی اصل قوت تصور کی جاتی ہے ان دونوں کوبمشکل برداشت کرتی ہے اورجب بات معاشی تباہ کاری کی ہوتوان تینوں ہی میں کوئی بڑا فرق نظر نہیں آتا۔
بے نظیر اپنے والد کو فوج کی جانب سے پھانسی دیے جانے کی وجہ سے جنرلزسے نفرت کرتی تھیں، نواز شریف نے ابتدا میں یہ تاثر دیاتھا کہ پاکستان میں اصل طاقت ان ہی کے پاس ہے۔ان کے والد نے 1939 میںایک فائونڈری لگائی تھی اور پھر6 بھائیوں نے مل کراس کو پروان چڑھانے کی کوشش کی لیکن1972 میں بھٹو دور میں اسے قومی ملکیت میں لے لیاگیا۔اس کے بعد بھٹو اور شریف خاندان کی دشمنی کاآغاز ہوا ۔جنرل ضیا کی جانب سے بھٹو کی حکومت کاتختہ اُلٹ کر اقتدار سنبھالنے کے بعد 1980 میں اتفاق فائونڈری شریف فیملی کو واپس کردی گئی،نواز شریف اتفاق فائونڈری کے ڈائریکٹر بن گئے اور انھوں نے سینئر فوجی افسران سے اپنے تعلقات استوار کیے جس کے نتیجے میں پہلے انھیں پنجاب کا وزیر خزانہ اور اس کے بعد1985 میں وزیر اعلیٰ بنایاگیا۔1980 سے1990 کے دوران پنجاب عملاً شریف خاندان کے کنٹرول میں رہا اور بعد میں انھیں ملک کی وزارت عظمیٰ بھی مل گئی ۔اس دوران ان کی یہ واحد فائونڈری 30 صنعتوں میں تبدیل ہوگئی جن میں اسٹیل، شکر، کاغذ اور ٹیکسٹائل ملز شامل تھیں۔جن کی مشترکہ آمدنی 400 ملین ڈالر کے مساوی تھی اس طرح یہ ملک کا سب سے بڑاکاروباری اور صنعتی ادارہ بن گیا۔
دوسرے بہت سے ملکوں کی طرح جب آپ اقتدار میں ہوں تو آپ معیشت کو جس طرح چاہیں موڑنے اور اس سے اپنی پسند اورضرورت کے مطابق سب کچھ حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔پنجاب کادارالحکومت لاہور شریف فیملی کے اقتدار کامرکز تھا۔اس لیے وزیر اعظم بننے کے بعد نواز شریف نے پہلا کام لاہور سے اسلام آباد تک شاہراہ تعمیر کرنے کا اپنا دیرینہ خواب پورا کرنے کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کے لیے لاہور اسلام آباد موٹر وے کامنصوبہ تیار کیاگیا ۔اس منصوبے کی تکمیل پر اخراجات کا تخمینہ 8.5 ارب یعنی ساڑھے 8 ارب روپے لگایاگیاتھا، اس کی تعمیر کے لیے دو اداروں کی جانب سے ٹینڈر دیے گئے ،اور کوریا کی ڈائیوو کمپنی نے نصف رات کو ملاقاتوں میں اپنی تجویز یا ٹینڈر کی منظوری حاصل کرلی جبکہ اس کی بولی دوسروں سے بہت زیادہ تھی اس طرح اس نے ٹھیکہ حاصل کیا اور یہ کام ساڑھے 8 ارب روپے کے بجائے 20 ارب روپے میں مکمل کیا۔
نئی شاہراہ یعنی موٹر وے کے لیے نئی گاڑیوں کی ضرورت محسوس ہوئی،نواز شریف نے لوگوں کو روزگار دینے کے نام پر 50 ہزار گاڑیاں ڈیوٹی درآمد کرنے کی ہدایت کردی۔ اس سے ایک اندازے کے مطابق صرف کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں حکومت کو 70 کروڑ ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا،بینکوں کو گاڑیوں کی خریداری کے لیے جنھیں ٹیکسیوں کے طورپر چلایاجانا تھا گاڑیوں کی قیمت کے صرف 10 فیصد ادائی پرقرض دینے پر مجبور کیاگیا ،اس طرح لوگوں نے نواز شریف کی ٹیکسیاں حاصل کرلیں اور اطلاعات کے مطابق ان میں سے 60فیصد فوری طورپر ہی نادہند ہ ہوگئے،اس طرح بینکوں کو کم وبیش 50 کروڑ ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔نواز شریف کے دور میں بینک سے قرض لے کر واپس نہ کرنا اور بڑے پیمانے پر ٹیکسوں کی چوری دولت مند بننے کامقبول ذریعہ بن گیا،نواز شریف کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد بننے والی عبوری حکومت نے قرض لے کر واپس نہ کرنے والے 322 بڑے قرض نادہندگان کی فہرست شائع کی تھی جس کے مطابق 4 ارب ڈالر میں سے 3ارب ڈالر کے مساوی بینکوں کے قرض شامل تھے ، اور نواز شریف کی فیملی پر 6 کروڑ ڈالر واجب الادا تھے۔ پہلی مرتبہ نواز شریف کی وزارت عظمیٰ جاتے ہی 1993 میں اتفاق گروپ دیوالیہ ہوگیا تھا اس وقت اس گروپ کے صرف 3یونٹ آپریشنل تھے یعنی ان میں کام ہورہاتھا اوربقیہ کمپنیا ں کم وبیش 5 ارب 70 کروڑ روپے یعنی 10 کروڑ ڈالر سے زیادہ کی قرض نادہندہ تھیں۔
بھٹو کی طرح شریف فیملی کی بھی آف شور کمپنیاں تھیں جن میں سے 3 برٹش ورجن آئی لینڈ ز میںنیسکول، نیل سن اورشیم روک کے نام سے تھیں جبکہ چینل آئی لینڈ میں بھی چینڈرن جرسی پرائیویٹ لمیٹیڈ کے نام سے بھی ایک کمپنی قائم تھی، کہاجاتاہے کہ ان میں سے بعض کمپنیوں کومختلف اوقات میں پارک لین لندن میں4 پرتعیش فلیٹس کی خریداری کے لیے استعمال کیاگیا۔اطلاعات کے مطابق ان کی ادائی کے لیے رقم بینک پاری باس ان سوئس کو منتقل کی گئی جو بعد میں شریف فیملی کی آف شور نیسکول وار نیل سن کمپنیوں کو 4فلیٹوں کی خریداری کے لیے استعمال کی گئی ۔
بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں پاکستان فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی ( ایف آئی اے) نے نواز شریف اور ان کی فیملی کے مالی معاملات کی چھان بین شروع کی یہ تحقیقات رحمان ملک کی قیادت میں کی جارہی تھی جو اس وقت ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل تھے۔رحمان ملک اس سے قبل1993 میں ورلڈ ٹریڈ ٹاور پر دھماکوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ رمزی یوسف کی گرفتاری میں مدد دینے کی وجہ سے کافی شہرت حاصل کرچکے تھے۔نواز شریف کے دوسرے دور میں اس تفتیش کی رپورٹ کا مسودہ دبا دیاگیا اور رحمان ملک کو جیل میں ڈال دیاگیا اور وہ ایک سال تک جیل میں رہے۔ بعد میں ان پر ایک قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ بچ نکلے جس کے بعد وہ لندن فرار ہوگئے ،رحمان ملک کی یہ رپورٹ جو 5سال میں تیار کی گئی تھی 1998 میں شائع کردی گئی جس سے دھماکا خیز انکشافات ہوئے ،اس میںجوریکارڈ شامل کیاگیاتھا اس میں سرکاری ڈاکومنٹس بھی شامل تھے جن پر پاکستانی حکام نے دستخط کرکے ان کی تصدیق کی تھی۔رحمان ملک کا کہناہے کہ اس رپورٹ میں بینک کی فائلیں اورپراپرٹی کاریکارڈ شامل تھا جس کے ذریعے میاں نواز شریف ان کی فیملی اور ان کے سیاسی ساتھیوں نے فائدہ اٹھایاتھا۔
ٔ٭ دستاویزات کے مطابق لاہور سے اسلام آباد تک موٹر وے کی تعمیر پر مبینہ طورپر 16کروڑ ڈالر کی خورد برد کی گئی، یعنی یہ رقم اپنی جیب میں ڈالی گئی۔
٭اسٹیٹ بینک پاکستان سے حاصل کردہ غیر محفوظ قرضوں کے ذریعہ 14 کروڑ ڈالر حاصل کیے گئے۔
٭ میاں نواز شریف اور ان کے تجارتی شراکت داروں کی شوگر ملوں سے برآمد کی جانے والی شکر کے نام پر 6 کروڑ ڈالر کا ری بیٹ حاصل کیاگیا۔
٭ امریکا اور کینیڈا سے زیادہ قیمت پر گندم درآمد کرکے کم ازکم5 کروڑ80لاکھ ڈالر کی خور دبرد کی گئی۔ ریکارڈ سے ظاہر ہوتاہے کہ نواز شریف کی حکومت نے واشنگٹن میں اپنے ایک ساتھی کی ایک پرائیوٹ کمپنی کو مارکیٹ سے بہت زیادہ قیمت ادا کی ۔ گندم کی زیادہ قیمت کے جعلی انوائس بنا کر لاکھوں ڈالر خود برد کرلیے گئے۔
رپورٹ میں کہاگیاتھا کہ یہ کرپشن اس قدر زیادہ تھی کہ اس سے ملک کا وجود خطرے میں پڑجانے کاخدشہ پیداہوگیاتھا۔رحمان ملک نے ایک انٹرویو میں کہاتھا کہ پاکستان کے کسی اور سیاستداں نے بینکوں سے اتنی بھاری رقوم حاصل نہیں کیں۔ پاکستان میں کوئی قانون ہی نہیں ہے۔ ان کاکہناتھا کہ نواز شریف کے دوسرے دور میں ان کے زوال کاسبب آمرانہ اختیارات کے حصول کی کوشش تھی۔ 1997 میں انھوں نے پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کیاتھا جس کے تحت ارکان پارلیمنٹ کو پارٹی رہنما کی ہدایت کے مطابق ووٹ دینا لازمی قرار دیاگیاتھا ۔1998 میں انھوںنے شرعی قوانین کے نفاذ کے حوالے سے ایک بل پیش کیاتھا۔جس کے تحت انھوں نے اسلام کے نام پر یکطرفہ طورپر ہدایات جاری کرنے کااختیار حاصل کرلیاتھا۔
1999 میں انھوںنے اس وقت کے پاک فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف کو کنارے لگانے کی کوشش کی۔ایسا کرتے ہوئے انھوں نے 1980 کا سبق فراموش کردیاتھا جب فوج نے ملک کا کنٹرول سنبھال لیاتھا اور سیاستداں دربدر ہوگئے تھے۔ جنرل پرویز مشرف کی سری لنکا سے واپسی کے دوران جب وہ طیارے ہی میں تھے نواز شریف نے انھیں برطرف کرنے کی کوشش کی اور پی آئی اے کے طیارے کو جس پر 200 دیگر مسافر بھی سوار تھے کراچی میں اترنے کی اجازت نہیں دی جنرل پرویز مشرف نے دبئی سے طیارے کے اندر ہی سے کراچی میں اپنے کمانڈر کو ایئرپورٹ کنٹرول ٹاور پر قبضہ کرنے کی ہدایت کی، اس وقت طیارے میں ایندھن تقریباً ختم ہونے کوتھا ،اس طرح جنرل پرویز مشرف نے پانسہ پلٹ دیا اور نواز شریف کوجیل جانا پڑا ۔ لیکن نواز شریف اس صورت حال سے زیادہ خوفزدہ نہیں تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ پرویز مشرف کو جنرلوں کے ذریعے ہی حکومت چلانا ہوگی اور وہ زیادہ تر کی کرپشن سے واقف تھے۔
پرویز مشرف کے دور میں نواز شریف پر مقدمہ چلایاگیا اور انھیں عمر قید کی سزا سنادی گئی لیکن اُسے 2000 میں ملک بدر کردیاگیا جس کے بعد کارپٹ اور فرنیچر سے بھرے 22 کنٹینر ان کے ساتھ سعودی عر ب گئے ۔اس تمام تر کارروائی کے باوجود ان کے غیر ملکی اکائونٹس بدستور موجودرہے اور ان پر کوئی فرق نہیں پڑاجس کی بنیاد پرجدہ میں نواز شریف شاہانہ زندگی گزارتے رہے ،اطلاعات کے مطابق اس دوران نواز شریف ٹیلی فون پر بے نظیر سے رابطے میں رہے، ہوسکتاہے کہ وہ آپس میں تبادلہ خیال کرتے ہوں کہ وہ کتنی بے کیف زندگی گزاررہے ہیں۔
ایم یوسف


متعلقہ خبریں


قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام وجود - جمعه 22 نومبر 2024

سابق وزیراعظم اور بانی پی ٹی آئی عمران خان نے کہا ہے کہ قوم اپنی توجہ 24 نومبر کے احتجاج پر رکھے۔سعودی عرب ہر مشکل مرحلے میں ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ بشریٰ بی بی کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔عمران خان نے اڈیالہ جیل سے جاری اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ، آئین ک...

قوم اپنی توجہ 24نومبر کے احتجاج پر رکھیں،عمران خان کا اڈیالہ جیل سے پیغام

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو ختم کرنے اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے عناصر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ دیرپاامن واستحکام کے لئے فوج قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی، پاک فوج ...

فوج اداروں کے ساتھ مل کر امن دشمنوں کا پیچھا کرے گی ،آرمی چیف

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم وجود - جمعه 22 نومبر 2024

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ بھائی بن کرمدد کی، سعودی عرب سے متعلق بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان کے ساتھ دشمنی ہے ، سعودی عرب کے خلاف زہر اگلا جائے تو ہمارا بھائی کیا کہے گا؟، ان کو اندازہ نہیں اس بیان سے پاکستان کا خدانخوستہ کتنا نقصان ہوگا۔وزیراعظم نے تونس...

سعودی عرب پر بشریٰ بی بی کا بیان پاکستان سے دشمنی ہے ،وزیر اعظم

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز وجود - جمعه 22 نومبر 2024

آئی سی سی چیمپئینز ٹرافی 2025 کے شیڈول کے اعلان میں مزید تاخیر کا امکان بڑھنے لگا۔میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ اگلے 24گھنٹے میں میگا ایونٹ کے شیڈول کا اعلان مشکل ہے تاہم اسٹیک ہولڈرز نے لچک دکھائی تو پھر 1، 2 روز میں شیڈول منظر عام پرآسکتا ہے ۔دورہ پاکستان سے بھارتی ا...

چیمپئینز ٹرافی،بھارت کی ہائبرڈ ماڈل یا پھر میزبانی ہتھیا نے کی سازشیںتیز

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کرکے 3خواتین اور بچے سمیت 38 افراد کو قتل کردیا جب کہ حملے میں 29 زخمی ہوگئے ۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کرم کے علاقے لوئر کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے...

ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر مسلح افراد کی فائرنگ 38افراد جاں بحق، 29زخمی

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج کے تناظر میں بنے نئے قانون کی خلاف ورزی میں احتجاج، ریلی یا دھرنے کی اجازت نہ دینے کا حکم دے دیا، ہائی کورٹ نے وزیر داخلہ کو پی ٹی آئی کے ساتھ پُرامن اور آئین کے مطابق احتجاج کے لیے مذاکرات کی ہدایت کردی اور ہدایت دی کہ مذاکرات کامیاب نہ ہوں تو وزیر...

انتظامیہ قانون کے خلاف کسی کو احتجاج کی اجازت نہ دے، اسلام آباد ہائیکورٹ کاحکم

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا ہے کہ علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ، ہم سمجھتے ہیں ملک میں بالکل استحکام آنا چاہیے ، اس وقت لا اینڈ آرڈر کے چیلنجز کا سامنا ہے ۔صوابی میں میڈیا سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ 24 نومبر کے احتجاج کے لئے ہم نے حکمتِ...

علی امین گنڈاپور سے مذاکرات کے لئے رابطہ ہوا ہے ،اسد قیصر

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ وجود - جمعرات 21 نومبر 2024

وزیر اعظم کی ہدایت کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے غیر رجسٹرڈ امیر افراد بشمول نان فائلرز اور نیل فائلرز کے خلاف کارروائی کے لیے ایک انفورسمنٹ پلان کو حتمی شکل دے دی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ایف بی آر نے فیلڈ فارمیشن کی سطح پر انفورسمنٹ پلان پر عمل درآمد کے لیے اپنا ہوم ورک ...

غیر رجسٹرڈ امیر لوگوں کے خلاف ایف بی آر کا گھیرا تنگ

عمران خان کو رہا کرا کر دم لیں گے، علی امین گنڈا پور کا اعلان وجود - بدھ 20 نومبر 2024

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا کرا کر دم لیں گے ۔پشاور میں میڈیا سے گفتگو میں علی امین گنڈاپور نے کہا کہ انشاء اللہ بانی چیئرمین کو رہا اور اپنے مطالبات منوا کر ہی دم لیں گے ۔انہوں نے کہا کہ ہم سب کے لیے تحریک انصاف کا نعرہ’ ا...

عمران خان کو رہا کرا کر دم لیں گے، علی امین گنڈا پور کا اعلان

24نومبر احتجاج پر نظررکھنے کے لیے پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قائم وجود - بدھ 20 نومبر 2024

دریں اثناء پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے 24 نومبر کو احتجاج کے تمام امور پر نظر رکھنے کے لیے مانیٹرنگ یونٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ پنجاب سے قافلوں کے لیے 10 رکنی مانیٹرنگ کمیٹی بنا دی۔تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قیادت کو تمام قافلوں کی تفصیلات فراہم...

24نومبر احتجاج پر نظررکھنے کے لیے پی ٹی آئی کا مانیٹرنگ یونٹ قائم

24نومبر کا احتجاج منظم رکھنے کے لیے آرڈینیشن کمیٹی قائم وجود - بدھ 20 نومبر 2024

ایڈیشنل سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی فردوس شمیم نقوی نے کمیٹیوں کی تشکیل کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے ۔جڑواں شہروں کیلئے 12 رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں اسلام آباد اور راولپنڈی سے 6، 6 پی ٹی آئی رہنماؤں کو شامل کیا گیا ہے ۔کمیٹی میں اسلام آباد سے عامر مغل، شیر افضل مروت، شعیب ...

24نومبر کا احتجاج منظم رکھنے کے لیے آرڈینیشن کمیٹی قائم

عمران خان کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت منظور،رہائی کا حکم وجود - بدھ 20 نومبر 2024

اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ ٹو کیس میں دس دس لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض بانی پی ٹی آئی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ہائیکورٹ میں توشہ خانہ ٹو کیس میں بانی پی ٹی آئی کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری پر سماعت ہوئی۔ایف آئی اے پر...

عمران خان کی توشہ خانہ ٹو کیس میں ضمانت منظور،رہائی کا حکم

مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر