... loading ...
ریمنڈ بیکر نے گندی دولت کے حوالے سے اپنی کتاب سرمایہ داری نظام کا کمزور گوشہ کے عنوان سے نواز شریف کی کرپشن کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے، ریمنڈ بیکر نے اپنی کتاب ڈرٹی منی میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ آزاد منڈی کے نظام کی اس طرح تجدیدکیسے کی جاسکتی ہے جس سے یہ پتہ چلایاجاسکتاہے کہ گندی دولت یعنی کرپشن سے حاصل کردہ دولت کس طرح کام کرتی ہے۔
کتاب میں واضح کیاگیاہے کہ کرپشن اور جرائم اوپر سے نیچے تک کام کرتے ہیں،اور سیاستداں ذاتی مفادات کی خاطر قومی خزانوں کو لوٹ کر معاشی پالیسیوں کو تباہ کرتے رہتے ہیں۔بینکوں سے لوگوں کو ان کی حیثیت اور سیاسی تعلقات کی بنیاد پر قرض دیے جاتے ہیں۔دولت مند اپنی ددلت اپنی پسند کے ملکوںمیں بھیج دیتے ہیں اور اپنا قرض ادا کرنے پر کوئی توجہ نہیں دیتے۔
ریمنڈ بیکر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ پاکستان کی حالیہ تاریخ دو خاندانوں بھٹو اورشریف خاندانوں کے گرد گھومتی ہے۔فوج جو ملک کی اصل قوت تصور کی جاتی ہے ان دونوں کوبمشکل برداشت کرتی ہے اورجب بات معاشی تباہ کاری کی ہوتوان تینوں ہی میں کوئی بڑا فرق نظر نہیں آتا۔
بے نظیر اپنے والد کو فوج کی جانب سے پھانسی دیے جانے کی وجہ سے جنرلزسے نفرت کرتی تھیں، نواز شریف نے ابتدا میں یہ تاثر دیاتھا کہ پاکستان میں اصل طاقت ان ہی کے پاس ہے۔ان کے والد نے 1939 میںایک فائونڈری لگائی تھی اور پھر6 بھائیوں نے مل کراس کو پروان چڑھانے کی کوشش کی لیکن1972 میں بھٹو دور میں اسے قومی ملکیت میں لے لیاگیا۔اس کے بعد بھٹو اور شریف خاندان کی دشمنی کاآغاز ہوا ۔جنرل ضیا کی جانب سے بھٹو کی حکومت کاتختہ اُلٹ کر اقتدار سنبھالنے کے بعد 1980 میں اتفاق فائونڈری شریف فیملی کو واپس کردی گئی،نواز شریف اتفاق فائونڈری کے ڈائریکٹر بن گئے اور انھوں نے سینئر فوجی افسران سے اپنے تعلقات استوار کیے جس کے نتیجے میں پہلے انھیں پنجاب کا وزیر خزانہ اور اس کے بعد1985 میں وزیر اعلیٰ بنایاگیا۔1980 سے1990 کے دوران پنجاب عملاً شریف خاندان کے کنٹرول میں رہا اور بعد میں انھیں ملک کی وزارت عظمیٰ بھی مل گئی ۔اس دوران ان کی یہ واحد فائونڈری 30 صنعتوں میں تبدیل ہوگئی جن میں اسٹیل، شکر، کاغذ اور ٹیکسٹائل ملز شامل تھیں۔جن کی مشترکہ آمدنی 400 ملین ڈالر کے مساوی تھی اس طرح یہ ملک کا سب سے بڑاکاروباری اور صنعتی ادارہ بن گیا۔
دوسرے بہت سے ملکوں کی طرح جب آپ اقتدار میں ہوں تو آپ معیشت کو جس طرح چاہیں موڑنے اور اس سے اپنی پسند اورضرورت کے مطابق سب کچھ حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔پنجاب کادارالحکومت لاہور شریف فیملی کے اقتدار کامرکز تھا۔اس لیے وزیر اعظم بننے کے بعد نواز شریف نے پہلا کام لاہور سے اسلام آباد تک شاہراہ تعمیر کرنے کا اپنا دیرینہ خواب پورا کرنے کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کے لیے لاہور اسلام آباد موٹر وے کامنصوبہ تیار کیاگیا ۔اس منصوبے کی تکمیل پر اخراجات کا تخمینہ 8.5 ارب یعنی ساڑھے 8 ارب روپے لگایاگیاتھا، اس کی تعمیر کے لیے دو اداروں کی جانب سے ٹینڈر دیے گئے ،اور کوریا کی ڈائیوو کمپنی نے نصف رات کو ملاقاتوں میں اپنی تجویز یا ٹینڈر کی منظوری حاصل کرلی جبکہ اس کی بولی دوسروں سے بہت زیادہ تھی اس طرح اس نے ٹھیکہ حاصل کیا اور یہ کام ساڑھے 8 ارب روپے کے بجائے 20 ارب روپے میں مکمل کیا۔
نئی شاہراہ یعنی موٹر وے کے لیے نئی گاڑیوں کی ضرورت محسوس ہوئی،نواز شریف نے لوگوں کو روزگار دینے کے نام پر 50 ہزار گاڑیاں ڈیوٹی درآمد کرنے کی ہدایت کردی۔ اس سے ایک اندازے کے مطابق صرف کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں حکومت کو 70 کروڑ ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا،بینکوں کو گاڑیوں کی خریداری کے لیے جنھیں ٹیکسیوں کے طورپر چلایاجانا تھا گاڑیوں کی قیمت کے صرف 10 فیصد ادائی پرقرض دینے پر مجبور کیاگیا ،اس طرح لوگوں نے نواز شریف کی ٹیکسیاں حاصل کرلیں اور اطلاعات کے مطابق ان میں سے 60فیصد فوری طورپر ہی نادہند ہ ہوگئے،اس طرح بینکوں کو کم وبیش 50 کروڑ ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔نواز شریف کے دور میں بینک سے قرض لے کر واپس نہ کرنا اور بڑے پیمانے پر ٹیکسوں کی چوری دولت مند بننے کامقبول ذریعہ بن گیا،نواز شریف کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد بننے والی عبوری حکومت نے قرض لے کر واپس نہ کرنے والے 322 بڑے قرض نادہندگان کی فہرست شائع کی تھی جس کے مطابق 4 ارب ڈالر میں سے 3ارب ڈالر کے مساوی بینکوں کے قرض شامل تھے ، اور نواز شریف کی فیملی پر 6 کروڑ ڈالر واجب الادا تھے۔ پہلی مرتبہ نواز شریف کی وزارت عظمیٰ جاتے ہی 1993 میں اتفاق گروپ دیوالیہ ہوگیا تھا اس وقت اس گروپ کے صرف 3یونٹ آپریشنل تھے یعنی ان میں کام ہورہاتھا اوربقیہ کمپنیا ں کم وبیش 5 ارب 70 کروڑ روپے یعنی 10 کروڑ ڈالر سے زیادہ کی قرض نادہندہ تھیں۔
بھٹو کی طرح شریف فیملی کی بھی آف شور کمپنیاں تھیں جن میں سے 3 برٹش ورجن آئی لینڈ ز میںنیسکول، نیل سن اورشیم روک کے نام سے تھیں جبکہ چینل آئی لینڈ میں بھی چینڈرن جرسی پرائیویٹ لمیٹیڈ کے نام سے بھی ایک کمپنی قائم تھی، کہاجاتاہے کہ ان میں سے بعض کمپنیوں کومختلف اوقات میں پارک لین لندن میں4 پرتعیش فلیٹس کی خریداری کے لیے استعمال کیاگیا۔اطلاعات کے مطابق ان کی ادائی کے لیے رقم بینک پاری باس ان سوئس کو منتقل کی گئی جو بعد میں شریف فیملی کی آف شور نیسکول وار نیل سن کمپنیوں کو 4فلیٹوں کی خریداری کے لیے استعمال کی گئی ۔
بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں پاکستان فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی ( ایف آئی اے) نے نواز شریف اور ان کی فیملی کے مالی معاملات کی چھان بین شروع کی یہ تحقیقات رحمان ملک کی قیادت میں کی جارہی تھی جو اس وقت ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل تھے۔رحمان ملک اس سے قبل1993 میں ورلڈ ٹریڈ ٹاور پر دھماکوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ رمزی یوسف کی گرفتاری میں مدد دینے کی وجہ سے کافی شہرت حاصل کرچکے تھے۔نواز شریف کے دوسرے دور میں اس تفتیش کی رپورٹ کا مسودہ دبا دیاگیا اور رحمان ملک کو جیل میں ڈال دیاگیا اور وہ ایک سال تک جیل میں رہے۔ بعد میں ان پر ایک قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ بچ نکلے جس کے بعد وہ لندن فرار ہوگئے ،رحمان ملک کی یہ رپورٹ جو 5سال میں تیار کی گئی تھی 1998 میں شائع کردی گئی جس سے دھماکا خیز انکشافات ہوئے ،اس میںجوریکارڈ شامل کیاگیاتھا اس میں سرکاری ڈاکومنٹس بھی شامل تھے جن پر پاکستانی حکام نے دستخط کرکے ان کی تصدیق کی تھی۔رحمان ملک کا کہناہے کہ اس رپورٹ میں بینک کی فائلیں اورپراپرٹی کاریکارڈ شامل تھا جس کے ذریعے میاں نواز شریف ان کی فیملی اور ان کے سیاسی ساتھیوں نے فائدہ اٹھایاتھا۔
ٔ٭ دستاویزات کے مطابق لاہور سے اسلام آباد تک موٹر وے کی تعمیر پر مبینہ طورپر 16کروڑ ڈالر کی خورد برد کی گئی، یعنی یہ رقم اپنی جیب میں ڈالی گئی۔
٭اسٹیٹ بینک پاکستان سے حاصل کردہ غیر محفوظ قرضوں کے ذریعہ 14 کروڑ ڈالر حاصل کیے گئے۔
٭ میاں نواز شریف اور ان کے تجارتی شراکت داروں کی شوگر ملوں سے برآمد کی جانے والی شکر کے نام پر 6 کروڑ ڈالر کا ری بیٹ حاصل کیاگیا۔
٭ امریکا اور کینیڈا سے زیادہ قیمت پر گندم درآمد کرکے کم ازکم5 کروڑ80لاکھ ڈالر کی خور دبرد کی گئی۔ ریکارڈ سے ظاہر ہوتاہے کہ نواز شریف کی حکومت نے واشنگٹن میں اپنے ایک ساتھی کی ایک پرائیوٹ کمپنی کو مارکیٹ سے بہت زیادہ قیمت ادا کی ۔ گندم کی زیادہ قیمت کے جعلی انوائس بنا کر لاکھوں ڈالر خود برد کرلیے گئے۔
رپورٹ میں کہاگیاتھا کہ یہ کرپشن اس قدر زیادہ تھی کہ اس سے ملک کا وجود خطرے میں پڑجانے کاخدشہ پیداہوگیاتھا۔رحمان ملک نے ایک انٹرویو میں کہاتھا کہ پاکستان کے کسی اور سیاستداں نے بینکوں سے اتنی بھاری رقوم حاصل نہیں کیں۔ پاکستان میں کوئی قانون ہی نہیں ہے۔ ان کاکہناتھا کہ نواز شریف کے دوسرے دور میں ان کے زوال کاسبب آمرانہ اختیارات کے حصول کی کوشش تھی۔ 1997 میں انھوں نے پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کیاتھا جس کے تحت ارکان پارلیمنٹ کو پارٹی رہنما کی ہدایت کے مطابق ووٹ دینا لازمی قرار دیاگیاتھا ۔1998 میں انھوںنے شرعی قوانین کے نفاذ کے حوالے سے ایک بل پیش کیاتھا۔جس کے تحت انھوں نے اسلام کے نام پر یکطرفہ طورپر ہدایات جاری کرنے کااختیار حاصل کرلیاتھا۔
1999 میں انھوںنے اس وقت کے پاک فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف کو کنارے لگانے کی کوشش کی۔ایسا کرتے ہوئے انھوں نے 1980 کا سبق فراموش کردیاتھا جب فوج نے ملک کا کنٹرول سنبھال لیاتھا اور سیاستداں دربدر ہوگئے تھے۔ جنرل پرویز مشرف کی سری لنکا سے واپسی کے دوران جب وہ طیارے ہی میں تھے نواز شریف نے انھیں برطرف کرنے کی کوشش کی اور پی آئی اے کے طیارے کو جس پر 200 دیگر مسافر بھی سوار تھے کراچی میں اترنے کی اجازت نہیں دی جنرل پرویز مشرف نے دبئی سے طیارے کے اندر ہی سے کراچی میں اپنے کمانڈر کو ایئرپورٹ کنٹرول ٹاور پر قبضہ کرنے کی ہدایت کی، اس وقت طیارے میں ایندھن تقریباً ختم ہونے کوتھا ،اس طرح جنرل پرویز مشرف نے پانسہ پلٹ دیا اور نواز شریف کوجیل جانا پڑا ۔ لیکن نواز شریف اس صورت حال سے زیادہ خوفزدہ نہیں تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ پرویز مشرف کو جنرلوں کے ذریعے ہی حکومت چلانا ہوگی اور وہ زیادہ تر کی کرپشن سے واقف تھے۔
پرویز مشرف کے دور میں نواز شریف پر مقدمہ چلایاگیا اور انھیں عمر قید کی سزا سنادی گئی لیکن اُسے 2000 میں ملک بدر کردیاگیا جس کے بعد کارپٹ اور فرنیچر سے بھرے 22 کنٹینر ان کے ساتھ سعودی عر ب گئے ۔اس تمام تر کارروائی کے باوجود ان کے غیر ملکی اکائونٹس بدستور موجودرہے اور ان پر کوئی فرق نہیں پڑاجس کی بنیاد پرجدہ میں نواز شریف شاہانہ زندگی گزارتے رہے ،اطلاعات کے مطابق اس دوران نواز شریف ٹیلی فون پر بے نظیر سے رابطے میں رہے، ہوسکتاہے کہ وہ آپس میں تبادلہ خیال کرتے ہوں کہ وہ کتنی بے کیف زندگی گزاررہے ہیں۔
ایم یوسف
پیپلز پارٹی وفاق کا حصہ ہے ، آئینی عہدوں پر رہتے ہوئے بات زیادہ ذمہ داری سے کرنی چاہئے ، ہمیں پی پی پی کی قیادت کا بہت احترام ہے، اکائیوں کے پانی سمیت وسائل کی منصفانہ تقسیم پر مکمل یقین رکھتے ہیں پانی کے مسئلے پر سیاست نہیں کرنی چاہیے ، معاملات میز پر بیٹھ کر حل کرن...
وزیر خارجہ کے دورہ افغانستان میںدونوں ممالک میں تاریخی رشتوں کو مزید مضبوط بنانے پر تبادلہ خیال ، مشترکہ امن و ترقی کے عزم کا اظہار ،دو طرفہ مسائل کے حل کے لیے بات چیت جاری رکھنے پر بھی اتفاق افغان مہاجرین کو مکمل احترام کے ساتھ واپس بھیجا جائے گا، افغان مہاجرین کو ا...
دوران سماعت بانی پی ٹی آئی عمران خان ، شاہ محمود کی جیل روبکار پر حاضری لگائی گئی عدالت میں سکیورٹی کے سخت انتظامات ،پولیس کی بھاری نفری بھی تعینات کی گئی تھی 9 مئی کے 13 مقدمات میں ملزمان میں چالان کی نقول تقسیم کردی گئیں جس کے بعد عدالت نے فرد جرم عائد کرنے کے لیے تاریخ مق...
واپس جانے والے افراد کو خوراک اور صحت کی معیاری سہولتیں فراہم کی گئی ہیں 9 لاکھ 70 ہزار غیر قانونی افغان شہری پاکستان چھوڑ کر افغانستان جا چکے ہیں پاکستان میں مقیم غیر قانونی، غیر ملکی اور افغان سٹیزن کارڈ ہولڈرز کے انخلا کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے دی گئ...
حملہ کرنے والوں کے ہاتھ میں پارٹی جھنڈے تھے وہ کینالوں کے خلاف نعرے لگا رہے تھے ٹھٹہ سے سجاول کے درمیان ایک قوم پرست جماعت کے کارکنان نے اچانک حملہ کیا، وزیر وزیر مملکت برائے مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کھیئل داس کوہستانی کی گاڑی پر ٹھٹہ کے قریب نامعلوم افراد کی جانب سے...
کان کنی اور معدنیات کے شعبوں میں مشترکہ منصوبے شروع کرنے کا بہترین موقع ہے غیرملکی سرمایہ کاروں کو کاروبار دوست ماحول اور تمام سہولتیں فراہم کریں گے ، شہباز شریف وزیراعظم شہباز شریف نے 60 ممالک کو معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری کی دعوت دے دی۔وزیراعظم شہباز شریف نے لاہور میں ...
ہتھیار طالبان کے 2021میں افغانستان پر قبضے کے بعد غائب ہوئے، طالبان نے اپنے مقامی کمانڈرز کو امریکی ہتھیاروں کا 20فیصد رکھنے کی اجازت دی، جس سے بلیک مارکیٹ میں اسلحے کی فروخت کو فروغ ملا امریکی اسلحہ اب افغانستان میں القاعدہ سے منسلک تنظیموں کے پاس بھی پہنچ چکا ہے ، ...
اسحاق ڈار افغان وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند ، نائب وزیر اعظم برائے اقتصادی امور ملا عبدالغنی برادر سے علیحدہ، علیحدہ ملاقاتیں کریں گے افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کے ساتھ وفود کی سطح پر مذاکرات بھی کریں گے ہمیں سیکیورٹی صورتحال پر تشویش ہے ، افغانستان میں سیکیورٹی...
ہم نے شہباز کو دو بار وزیراعظم بنوایا، منصوبہ واپس نہ لیا تو پی پی حکومت کے ساتھ نہیں چلے گی سندھ کے عوام نے منصوبہ مسترد کردیا، اسلام آباد والے اندھے اور بہرے ہیں، بلاول زرداری پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پانی کی تقسیم کا مسئلہ وفاق کو خطرے...
قرضوں سے جان چھڑانی ہے تو آمدن میں اضافہ کرنا ہوگا ورنہ قرضوں کے پہاڑ آئندہ بھی بڑھتے جائیں گے ایف بی آر کی ڈیجیٹائزیشن کا سفر شروع ہوچکا، یہ طویل سفر ہے ، رکاوٹیں دور کرناہونگیں، شہبازشریف کا خطاب وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کھربوں روپے کے زیر التوا ٹیکس کیسز کے فوری فی...
8ماہ میں ٹیکس وصولی کا ہدف 6کھرب 14ارب 55کروڑ روپے تھا جبکہ صرف 3کھرب 11ارب 4کروڑ ہی وصول کیے جاسکے ، بورڈ آف ریونیو نے 71فیصد، ایکسائز نے 39فیصد ،سندھ ریونیو نے 51فیصد کم ٹیکس وصول کیا بورڈ آف ریونیو کا ہدف 60ارب 70 کروڑ روپے تھا مگر17ارب 43کروڑ روپے وصول کیے ، ای...
عمران خان کی تینوں بہنیں، علیمہ خانم، عظمی خان، نورین خان سمیت اپوزیشن لیڈر عمر ایوب، پنجاب اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بھچر،صاحبزادہ حامد رضا اورقاسم نیازی کو حراست میں لیا گیا تھا پولیس ریاست کے اہلکار کیسے اپوزیشن لیڈر کو روک سکتے ہیں، عدلیہ کو اپنی رٹ قائ...