... loading ...
پاناماپیپرز کو لیک ہوئے تقریباً سوا سال کا عرصہ گزر چکا دنیا میں کئی حکومتیں رخصت ہوگئیں اس لئے کہ ا ن ممالک کے سربراہوں یا سربراہوں کے اہلخانہ کے نام پیپرز میں شامل تھے ان میں سے کوئی بھی حکومت ایسے مذہب سے تعلق رکھنے والوں سے نہیں تھی جہاں احتساب کا تصور سب سے کڑا ہے جہاں حاکم وقت کو حکمران ہونے کی وجہ سے کوئی استثناء حاصل نہیں ہوتا اور جن کی تاریخ حکمرانوں کے عدالتوں میں پیش ہونے اور عدالتوں کا احترام کرنے سے بھری ہوئی ہے قرون اولیٰ کے دور میں خلیفہ دوم حضرت عمرفاروقؓ کے جیسے بلند کردار حکمران کی مثال تاریخ پیش نہیں کر سکتی کہ جن کے انصاف کی مثال آج بھی پیش کی جاتی ہے ایسا انصاف اور ایسے انصاف کا خوف کہ شیر اور بکری بھی ایک ہی وقت میں دریا کے ایک ہی گھاٹ سے پانی پیا کرتے تھے اور بکری شیر سے خوفزدہ نہیں ہوتی تھی ۔
ان پیپرز میں بدقسمتی سے پاکستانیوں کا نام بھی شامل ہیںجن میں حکمران خاندان بھی موجود ہے حکمرانوں نے اجتماعی طور پر ان پیپرز کو رد کیا اور انہیں ردی سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہیں تھے میاں نواز شریف اور ان کی شریف فیملی کسی طور بھی کرپشن کے الزام کو قبول کرنے اور اس کے نتائج کا سامناکرنے کے لیے تیار نہیں تھی ان کا خیال تھا اور جس کا اظہار ان کے قریبی خواجہ صفدر کے فرزند خواجہ آصف نے ہی کیا تھا کہ چند دن میں لوگ ان باتوں کو بھول جائینگے پھر پاناما پیپرز ماضی کا قصہ ہونگے لیکن ایسا نہ ہو سکا ان پیپرز نے اپنا اثر دکھانا شروع کیا اور شریف فیملی کا امتحان شروع ہو گیا لیکن کیا کیا جائے کہ شریف فیملی امتحانی معاملات میں کمزور ہے اور سکہ رائج الوقت کی طرح نقل کو ہی کامیابی کا ذریعہ سمجھتی ہے مجھے نہیں معلوم کہ میاںصاحب کی تھرڈ کلاس میں گریجویشن نقل کے نتیجہ میں ہے یا وہاں بھی نقل عقل پر غالب رہی لیکن بزرگ کہتے ہیں کہ نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ کچھ زیادہ ہی ضرورت ہوتی ہے ورنہ نتیجہ وہی نکلتا ہے جو نکل رہا ہے ۔
پہلے مرحلے پر “شریف فیملی “نے اس معاملے کو ہلکا لیا اور قانونی اور دفاعی پوزیشن اختیار کرنے کے بجائے جارحانہ حکمت عملی اختیار کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مخالف فریق بھی جارحیت پر آمادہ ہوئے اور وہ معاملہ جو مذاکرات کے ذریعہ حل ہو سکتا تھا وہ زبانی حملوں کے نتیجہ میں شدت اختیار کرتا چلا گیا معاملہ عدالت عظمیٰ میں گیا طویل سماعت کے بعد عدالت اعظمیٰ نے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم تشکیل دینے کے لیے 6 اداروں سے نام طلب کئے جب عدالت عظمیٰ نے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا فیصلہ کیا تو فریق مخالف نے تو اس کا خیرمقدم کیا ہی لیکن شریف خاندان اس خیرمقدم میں حد سے بڑھ گیا مٹھائیاں بانٹی گئیں ،بھنگڑے ڈالے گئے اور اس جے آئی ٹی کی تشکیل کو” شریف فیملی” کی فتح قرار دیا گیا جے آئی ٹی کی کارروائی شروع کرنے سے قبل ” شریف فیملی”اور اس کے سارے شامل بینڈ ایک ہی راگ الاپ رہے تھے عدالت نے ہمارے ہاتھ صاف کرنے کا اعلان کر دیا لیکن جب جے آئی ٹی نے اپنی کارروائی شروع کی اور کارروائی کے نتیجہ میں بہت کچھ خوفناک منظر نظرآنے لگا تو ” شریف فیملی”کہ وہ ارکان جو کل تک جے آئی ٹی کو فتح قرار دے رہے تھے جب جے آئی ٹی کی پوچھ گچھ سے باہر آتے تو ایسی گھن گرج کے ساتھ بات کرتے کہ شاید جے آئی ٹی کو اپنے جوابات سے لاجواب کر آئے ہیں خصوصاً بڑے گونگلوں نے جب یہ کہا کہ میرے سوالات کا جواب جے آئی ٹی والوں کے پاس نہیں تھا میں ان سے اپنا جرم پوچھتا رہا وہ میرا کوئی جرم نا بتا سکے اور سمدھی صاحب کی گھن گرج بھی کم نا تھی ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جے آئی ٹی شریف فیملی اور اس کے حواریوں کو کلین چٹ نہیں کلین چٹوں کی لامحدود صفحات پر مشتمل کتاب پیش کرے گی کہ جناب تاقیامت اس کتاب میں سے کلین چٹیں نکالتے رہیں ۔
جے آئی ٹی کو میڈیا سے گفتگو کی اجازت بھی نہیں تھی اور یہ اجازت ہونی بھی نہیں چاہیے تھی کہ انہوں نے اپنے اخذ کردہ نتائج سے عدالت عظمیٰ کو آگاہ کرنا تھا میڈیا کو نہیں یوں شریف فیملی اور اس کے چھٹ بھیئے بغلیں بجاتے رہے کہ جے آئی ٹی کچھ نہیں نکال سکتی جب جے آئی ٹی رپورٹ آئی تو ایک بھونچال آ گیا یہ رپورٹ کیا ہے ” شریف فیملی” کے جرائم کا ناقابل تردید ثبوت ایسے ایسے ثبوت کہ جو دنیا کی بہترین تحقیقاتی صحافیوں کا ایک بڑا گروپ بھی نہیں نکال سکا تھا پاناما پیپرز میں نواز شریف کی آف شور کمپنی اور ایف زیڈ ای میں ملازمت کا کوئی ثبوت انہیں نہیں ملا تھا لیکن جے آئی ٹی میںشامل دماغوں نے ثابت کیا کہ پاکستانی دنیا کی ذہین ترین قوموں میں سے ایک ہیں اور 60 دن کے مختصر عرصہ میں وہ وہ ثبوت جمع کر لیے کہ جو پاناما پیپر لیک کرنے والے صحافی طویل عرصہ کی تحقیق کے بعد بھی حاصل نہیں کر سکے تھے شاید اسی لیے فیصل آباد کے رانا ثناء اللہ جو اتفاق سے پنجاب کے وزیرقانون بھی ہے اور جے آئی ٹی رپورٹس کو خفیہ رکھوانے میں مہارت رکھتے ہیں چیخ پڑے کہ یہ جناتی آئی ٹی تھی جس نے ناموجود کو موجو د کر دیا ہے رانا ثناء اللہ کا یہ تبصرہ کچھ غلط بھی نہیں ہے کہ فی الواقع جے آئی ٹی نے وہ کام کیا ہے جس کی ” شریف فیملی”اور اس کے لے پالک توقع بھی نہیںکر رہے تھے ۔
یوں تو شریف فیملی نے جے آئی ٹی میں وہ وہ لطیفے سنائیں ہیں کہ جن سے لطیفوں کی بہترین کتاب تیار کی جا سکتی ہے اور اگر لطفیو ں کی کتاب کا بین الاقوامی مقابلہ ہو تو اس کتاب کے ایوارڈ جیتنے کے امکانات بہت روشن ہے یہ ” شریف فیملی”ہی کرسکتی تھی کہ جو فونٹ(برقی رسم الخط)ابھی ایجاد کے مراحل میں تھا اس رسم الخط میں مریم نواز کی ٹرسٹ ڈیڈ تیار ہو گئی جس میں مریم نواز کو مے فیئر فلیٹس کا غیرمنافع بخش ٹرسٹی ظاہر کیا گیا رقم کی ترسیل کے کوئی ثبوت موجود نہیں لیکن رقم قانونی ہے یہ بھی ہوا کہ 80 کی دہائی میں بکنے والی دبئی کی اسٹیل مل کی مشینری 2004 میں لگنے والی جدہ میں لگنے والی اسٹیل مل کے لیے دستیاب ہو گئی حسن نواز نے جے آئی ٹی میںجوکچھ کہا مجھے حیرت ہے کہ جے آئی ٹی کے ممبران نے اس کے بعد اپنے قہقوں پر قابو کیسے پایا ہو گا حساب دیا گیا 21 ملین کا اور وہ بھی ادھورا اور فیکٹری لگا لی 60 ملین کی حسن نواز کے مطابق دبئی سے جو مشینری جدہ پہنچی اس کی مالیت ساڑھے چھ ملین تھی ان کے قطری دوست نے انہیں ساڑھے چھ ملین کا قرضہ اس طرح دیا کہ جس کی کوئی دستاویز اور ادائیگی کا چیک موجود نہیں ہے اسی طرح ایک سعودی دوست نے بھی 8 ملین کا قرضہ دیا لیکن اس کی بھی کوئی دستاویز تیار نہیں ہوئی اور یہ تمام قرضہ نقد حسن نواز کے ہاتھ میں پہنچا اب سوچنے کی بات ہے کہ 60 لاکھ درہم (6 ملین)کی رقم ایسی تو نہیں ہے کہ وہ نقد دی جا سکے اور اسی طرح سعودی دوست کا دیا ہوا قرضہ 80 لاکھ ریال بھی کوئی معمولی رقم نہیں ہے کہ جو نقد دی جا سکے اگر ایک لمحہ کے لیے حسن نواز کا موقف مان ہی لیا جائے کہ دونوں رقوم اسے نقد میں ملی تب بھی قطری اور سعودی دوست نے کیا یہ رقم اپنے گھروں سے نکال کر دی تھی اور کیا قطری ،سعودی ایسی بھاری رقوم گھروں میں رکھا کرتے ہیں میاں نواز شریف 90 کی دہائی سے جب بھی برطانیہ گئے ان فلیٹس میں رہائش اختیار کی لیکن انہیں ان کی ملکیت کا علم نہیں تھا اور یہ فلیٹ 2005 میں جدہ کی مل بیچ کر خریدے گئے 90 کی دہائی میں تو یہ فلیٹ شریف فیملی کی ملکیت میں ہی تھے لیکن ان کے مالکان ” شریف فیملی” کو فلیٹ دے چکے تھے ۔
” شریف فیملی” اور اس کے وکیلوں نے شاید جے آئی ٹی تشکیل دینے کا عدالت عظمی کا فیصلہ پڑھا نہیں ہے یا پھر ان کی سمجھ میں نہیں آیا ہے میاں نواز شریف نے تو گریجویشن تھرڈ کلاس میں کی تھی لیکن ان کے وکیل کو جن میںسلمان راجہ،خواجہ حارث جیسے سینئر وکیل شامل ہیں بھی شاید اس فیصلے کو سمجھ نہیں سکے یا بھنگڑوں یا مٹھائی کے اثرات ایسے تھے کہ یہ فیصلہ ان کی سمجھ میں نہیں آیا۔جے آئی ٹی رپورٹ جمع ہونے کے بعد خواجہ حارث نے (میاں نواز شریف کے وکیل) نے جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی کے بریگیڈیر نعمان پر اعتراض اُٹھایا ہے کہ جس وقت ان کی نامزدگی کی گئی وہ اس وقت آئی ایس آئی میں تعینات نہیں تھے خواجہ صاحب ذرا فیصلہ جذبات سے بالاتر ہو کر پڑھیں عدالت اعظمیٰ نے کب کہا ہے کہ آئی ایس آئی کا حاضر سروس افسر ہی جے آئی ٹی کا نمائندہ ہو سکتا ہے عدالت عظمیٰ نے تو اپنے حکم نامہ میں لکھا ہے کہ آئی ایس آئی کا نامزد فرد جے آئی ٹی کا ممبر ہو گا اب اس میں حاضر سروس افسر کی شرط کہا ں سے نظر آ رہی ہے آئی ایس آئی نے فوج کے ایک افسر کو اپنی نمائندگی کیلئے نامزد کیا یوں یہ نمائندگی سو فیصد درست ہے لیکن آئی ایس آئی کے نمائندے پر اعتراض اس لیے ہے کہ اس ہی نے جے آئی ٹی میں شریک فیملی اور اس کے حواریوں کی پیشی کے وقت جو بال کی کھال اتاری تھی اس کے نتیجہ میں جے آئی ٹی کی یہ رپورٹ ایسی بن گئی ہے کہ جس کے نتیجہ میں ” شریف فیملی” کو اپنی گردن پھنستی ہی نہیں گردن میں پھندہ کھینچتا محسوس ہو رہا ہے ” شریف فیملی”کو امید تھی کہ کم از کم نوازشریف پر کوئی الزام ثابت نہ ہو گا اور یوں ان کی سیاست کی رکھیل بچ جائے گی کہ وہ وابستہ ہی نواز شریف کے نام سے ہے لیکن کیا کریں بریگیڈیر نعمان نے تو وہ لنکا ڈھائی ہے کہ راون کو کہیں پناہ نہیں مل رہی وہ آف شور کمپنی جو نواز شریف کی ملکیت ہونے کے باوجود پاناما پیپرز پر کام کرنے والے صحافیوں کو نظر نہیں آئی تھی وہ بھی بریگیڈیر نعمان کی گہری نظروں سے نا بچ سکی یوں نواز شریف بھی ناصرف آف شور کمپنی کے مالک نکل آئے بلکہ پاکستان کے وزیراعظم ہونے کے باوجود تقریباً15 ماہ تک دبئی کی ایک فرم کے چیئرمین کے طور پر فرائض انجام دیتے رہے اس فرم میں بھی نواز شریف کی طلسماتی شخصیت نے اثر دکھایا تھا کہ وہ بھرتی تو مارکیٹ منیجر ہوئے تھے لیکن مختصر عرصہ میں اسی طرح چھلانگیں لگاتے ہوئے کہ جس طرح چھلانگیں ” شریف فیملی” کے کاروبار نے لگائی ہیں اس کمپنی کے چیئرمین بن بیٹھے اور اس حیثیت میں 10 ہزار درہم ماہانہ تنخواہ بھی وصول کرتے رہے اگرچہ میاں صاحب رقم کی وصولی سے انکاری ہیں لیکن ملازمت سے انکار نہیں کر رہے گویا ان 15 ماہ میں جب وہ پاکستان کے وزیراعظم بھی رہے اسی عرصہ میں وہ اس فرم کے چیئرمین کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے میرا مختصر سا سوال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے کس عہدے کے ساتھ انصاف کیا۔