... loading ...
کارڈف یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے انسانی دماغ کی اندرونی وائرنگ کی اب تک کی سب سے تفصیلی تصاویر لی ہیں۔ایم آر آئی مشین سے لی جانے والی ان تصاویر سے دماغ کے اندر موجود ان ریشوں کی عکاسی کی گئی ہے جو سوچنے کے عمل میں حصہ لیتے ہیں۔ ڈاکٹروں کو امید ہے کہ اس کی مدد سے کئی قسم کی دماغی بیماریوں کو سمجھنے میں مدد ملے گی اور انھیں بایوپسی کی جگہ استعمال کیا جا سکے گا۔اس تحقیق کے لیے ایک شخص نے رضاکارانہ طور پر اپنا دماغ پیش کیا۔ اس کاکہنا ہے کہ ا سکین میں کل پونا گھنٹہ یعنی45منٹ صرف ہوئے۔ ایک نیورولوجسٹ میرے ساتھ موجود تھے جو مجھے تسلی دیتے رہے کہ میرے دماغ میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ وہ شخص کہتاہے کہ اس سے قبل میرے کچھ عزیزوں نے خوشی کا اظہار کیا تھا کہ آخرکار معلوم ہو گیا کہ میری کھوپڑی کے اندر دماغ بھی پایا جاتا ہے۔
جب میں نے تصاویر دیکھیں تو دنگ رہ گیا۔ میرے دماغ کے وائٹ میٹر کے اندر موجود باریک ریشے انتہائی واضح طور پر نظر آ رہے تھے۔ یہ ریشے اربوں سگنل لاتے اور لے جاتے ہیں۔ تصاویر میں بال سے 50 گنا باریک ریشوں کی تصاویر بھی نمایاں تھیں۔اس اسکین سے یہ بھی معلوم ہوتا کہ دماغی سگنل کس طرف پیغام لے کر جا رہے ہیں۔میرے ساتھ سیان رولینڈز نامی ایک اور رضاکار بھی تھیں جو ملٹیپل سکلیروسس کی مریض ہیں۔ وہ بھی اپنے ا سکین دیکھ کر ‘زبردست کہنے پر مجبور ہو گئیں۔عام دماغی اسکین میں دماغی زخم نظر آتے ہیں لیکن اس جدید ترین ا سکین کی مدد سے یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ ان زخموں سے جسم کے جسمانی اور ذہنی افعال کس طرح سے متاثر ہوتے ہیں۔اس تحقیق کے سربراہ پروفیسر ڈیرک جونز نے کہا کہ یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم دوربین کی بجائے ہبل خلائی دوربین کی مدد سے آسمان کا جائزہ لیں۔
‘ہم پہلی بار ساخت کے علاوہ فعل کا بھی جائزہ لے سکتے ہیں۔دنیا میں اس قسم کے صرف تین ا سکینر موجود ہیں۔یہ ا سکینر ملٹیپل سکلیروسس، سکٹسوفرینیا، ڈیمینشیا اور مرگی جیسے امراض کے علاج میں استعمال ہو گا۔