... loading ...
افغانستان کے صوبے ننگرہار کے پہاڑی علاقے تورا بورا پر گزشتہ دنوں داعش کے قبضے نے امریکا کے کے خطے میں جاری معاملات کی بہت سی پرتیں کھول کر رکھ دی ہیں۔صورتحال انتہائی دلچسپ ہے۔ ذرائع کے مطابق افغانستان میں موجود داعش کے جنگجو گزشتہ دوبرسوں سے تورا بورا کے علاقے کا کنٹرول حاصل کرنے کی تگ ودو میں تھے لیکن افغان طالبان کی زبردست مزاحمت کے سامنے ان کی کچھ نہ چل سکی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکاکو آگے بڑھنا پڑا۔اب ایک طرف امریکا کی فضائی سپورٹ انہیں حاصل تھی تو دوسری جانب افغان فوج اور ازبک ملیشیا نے طالبان کے خلاف مورچہ سنبھالا ہوا تھا گزشتہ ہفتے بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب یہ تینوں فریق ایک ساتھ مصر وف عمل ہوئے جیسے ہی داعش کی جانب سے تورا بورا کے علاقے کی جانب پیش قدمی ہوئی، افغانستان میں موجود امریکی فضائی بمبار طیاروں نے طالبان کے ٹھکانوں پر شدید بمباری شروع کردی تو دوسری جانب زمین پر موجود افغان فوج اور ازبک ملیشیا بھی حرکت میں آگئی جس کے نتیجے میں افغان طالبان کو علاقے سے پیچھے ہٹنا پڑا۔ کابل حکومت کا دعویٰ تھا کہ اس علاقے میں موجود نئے افغان طالبان کمانڈر علاقے کی جغرافیائی صورتحال سے زیادہ واقف نہیں تھے جبکہ انہیں راستوں کا بھی زیادہ علم نہیں تھا جسے افغان طالبان نے یکسر مسترد کرکے داعش کے تورا بورا پر قبضے کو امریکا اور کابل کی اشرف غنی انتظامیہ کی مشترکہ کارستانی قرار دے دیا ہے۔ دوسری جانب اس تاثر کو زائل کرنے کے لئے اشرف غنی انتظامیہ نے افغان طالبان سے علاقے میں داعش کے خلاف مدد مانگ لی تاکہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاسکے۔اس سارے معاملے میں جو بات عیاں ہوئی ہے وہ اسی صورتحال کو بیان کررہی ہے جو امریکا نے شام اور عراق کے حوالے سے اختیار کررکھی ہے۔
جس وقت عراقی مجاہدین نے امریکا کی کمر توڑ ی تو سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق عراق کو ایران کے حوالے کرنے کے لئے میدان کھلا چھوڑا گیاتاکہ خطے کو مزید تباہی سے دوچار کردیا جائے۔ جب بغداد میں ایران نواز عراقی انتظامیہ نے پیر جما لیے تو شمالی عراق سے داعش ایک آندھی طوفان کی طرح اٹھی اور جنوبی عراق کی جانب زبردست پیش قدمی شروع کردی۔یہ یلغار اس قدر شدید تھی کہ نئی عراقی انتظامیہ کے تحت تشکیل دی جانے والی عراقی فوج اور ایران نواز شیعہ ملیشیا ئوںکے قدم اکھڑگئے اور وہ الٹے پائوں بھاگنا شروع ہوگئے الغرض ایسا محسوس ہونے لگا جیسے داعش کی یہ آندھی جلد ہی تمام مشرق وسطیٰ کو لپیٹ لے گی لیکن پھر اچانک بغداد سے شمال کی جانب واقع صوبہ انبار کے قریب آکر یہ طوفان تھم گیا۔ یہی صورتحال شمالی شام کے علاقے میں رونما ہوئی جس کی وجہ سے شام کی باقاعدہ فوج کو شمالی شام کے اہم ترین علاقے سے ہاتھ دھونا پڑ گئے اور اس کے بعد اسلام کے نام پر عجیب وغریب معاملات ظہور پذیر ہونے لگے۔ داعش نے اپنا نام اسلامی ریاست برائے شام وعراق رکھا تھا جس کا مخفف داعش اور انگریزی میں ISISبنتا ہے۔ دہائیوں کے ستائے ہوئے مسلمانوں نے جس وقت ’’اسلامی خلافت ‘‘کا نام سنا تو بہت سے ملکوں کی عسکریت پسند اسلامی تنظیموں نے اس میں اپنے لیے بے پناہ کشش پائی اور افغانستان تک اس کے اثرات پڑنے لگے یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس تنظیم کو اتنی قوت اچانک کہاں سے ملی جس نے عراق اور شام کی فوجوں کو بھگا دیا، کون اس کے پیچھے ہے؟ اصل اور حقیقی مقاصد کیا ہیں؟ کس کو سب سے زیادہ اس کا نقصان ہے اور کون فائدے میں ہے؟ شمالی عراق اور شمالی شام کے علاقوں کو قبضے میں لینے کے بعد جس وقت اس تنظیم نے عراق اور شامی جغرافیائی سرحدوں کو ختم کیا تو بہت سے دور اندیش دماغوں کے سامنے حقیقی منصوبہ کھلنا شروع ہو گیاکیو نکہ چند برس پہلے سے ہی امریکا میں ’’نئے مشرق وسطی‘‘ یا گریٹر مشرق وسطیٰ کے حوالے سے آوازیں اٹھنا شروع ہوچکی تھیںاس پر بہت کچھ مشرق اور مغرب میںلکھا بھی جانے لگا، نئے امریکی صہیونی منصوبے کے مطابق نقشے بھی سامنے آنے لگے جس میں تمام مشرق وسطیٰ کے ساتھ ساتھ جنوبی ایشیا میں افغانستان اور پاکستان کی بھی قطع و برید دکھائی گئی۔
یہ وہ وقت تھا جب عالم عرب کے دوراندیش دماغوں نے سمجھ لیا تھا کہ داعش کے وجود میں آنے کے اصل مقاصد کیا ہیں ایک ایسی تنظیم جس کے وجود اور افکار سے دنیا تو دور کی بات خود عالم عرب میں پہلے کوواقف نہیں تھا، کا اچانک وجود میں آجانا اور پھر طوفانی یلغار کرنا آخر کس کے مقاصد کے لیے تھا۔ صاف ظاہر تھا کہ بلی تھیلے سے باہر آگئی تھی باقی سب کچھ دنیا کو دھوکا دینے کے مترادف تھا کہ امریکا عراق اور شام میں داعش کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ دنیا کو آج تک سعودی عرب اور قطر کے اختلافات کی حقیقی وجہ معلوم نہیں ہوسکی ہے اور نہ ہوسکے گی۔۔!!! جبکہ جو بات دنیا کو بتائی جارہی ہے وہ حقیقی نہیں اصل معاملات کچھ اور ہیں۔۔۔ جو جلد سامنے آجائیں گے۔امریکا اور اسرائیل اس وقت عربوں کو لڑائو اور انہیں آہستہ آہستہ اسرائیلی کیمپ کی جانب دھکیلو کی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایک وقت تھا جب تمام عرب ممالک اسرائیل کے خلاف متحد تھے اور آج صورتحال یہ ہے کہ کچھ اسرائیل کے اعلانیہ اتحادی ہیں اور کچھ نے خاموشی سے اس کی خطے میں بالا دستی قبول کرلی ہے جبکہ آپس میں بری طرح علیحدہ چکے ہیں۔ اسی لیے سعودی عرب کی قیادت میں بنایا جانے والا عسکری اتحاد بھی جلد ہوا میں تحلیل ہوتا محسوس ہورہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ امریکا پر مسلط صہیونی لابی نے قطر اور سعودی عرب کے تنازعے کی آڑ میں بھی تقریبا ڈیڑھ سو بلین ڈالر کما لیے ہیںپہلے سعودی عرب کے ساتھ 110بلین ڈالر کے اسلحے کی فروخت کا معاہدہ کیا اس کے بعد جس قطر کے خلاف امریکی صدر ٹرمپ نے بیانات دیئے تھے اسی قطر کو 15بلین ڈالر کے ایف 15طیاروں کی فروخت کا بھی معاہدہ کرلیا اور آج امریکی بحریہ قطر کی بحریہ کے ساتھ مل کر علاقے کے پانیوں میں جنگی مشقیں بھی کررہی ہے۔۔۔ یا عجب۔۔!!
حقیقت یہ ہے کہ اپنی انتخابی مہم کے دوران عربوں اور باقی مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دینے والے ڈونالڈ ٹرمپ کو وال اسٹریٹ کے صہیونی ’’گاڈ فادروں‘‘یا صہیونی بینکروں نے سعودی عرب بھیجا تھا ان کے ساتھ وائٹ ہائوس میں اسرائیلی موساد کاخاص بندہ اور ٹرمپ کا
یہودی داماد جیرڈ کوشنرJared Kushner بھی تھامقصد عربوں کو ایک طرف لڑا کر ان کی ثروت پر مزید ہاتھ صاف کرنا اور ان غلط فہمیوں کی آڑ میں دیگر عرب ملکوں کو اسرائیل کے مزید قریب کرنا تھا تاکہ عرب حکمران اپنے اقتدار کو خطرے میں دیکھ کر اسرائیل کی جانب دیکھنے پر مجبور ہوجائیں۔ اس سودے بازی میں وائٹ ہائوس میں موجود وال اسٹریٹ کے نمائندے اور ٹرمپ کے یہودی اقتصادی مشیر گولڈمین گیری کوہن Goldman’s Gary Cohn نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔یہ وہی وال اسٹریٹ ہے جہاں سے روزانہ تیل کی نئی قیمت جاری کی جاتی ہے۔ جس طرح لندن کے اکنامک زون سے روزانہ کی بنیاد پر سونے کی قیمت جاری ہوتی ہے اور یہ دونوں اسٹیشن صہیونی بینکروں کے ہاتھ میں ہیں۔جہاں تک ٹرمپ کے اس دعوے کی بات ہے کہ امریکی عوام کو اس سودے بازی سے ہزاروں نوکریاں ملیں گی تو یہ اپنی جگہ ایک دھوکہ ہے۔ یہ سارا پیسہ وال اسٹریٹ کے صہیونی گاڈ فادروں کی جیب میں جائے گا امریکی عوام کی حالت اس سے سدھرنے والی نہیںاور نہ ہی یہ اقدام امریکا کے لیے اٹھایا گیا تھا۔خطے میں امریکی پالیسی کبھی نہیں بدلی اور نہ کسی کے وائٹ ہائوس آنے جانے سے اس پر کوئی اثر ہوتا ہے یہ پالیسیاں وال اسٹریٹ کے بینکرز یا گاڈ فادر بناتے ہیں۔ امریکی انتظامیہ دنیا کے سامنے ایک چہرے کی مانند ہے جو ان پالیسیوں پر عملدرآمد کراتی ہے۔ آج بھی ایران کے معاملے میں باراک اوباما کی پالیسی جاری ہے جس نے ہر صورتحال سے صرف نظر کرکے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ کیا تھا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایران جوہری صلاحیت کی شکل کمال کو پہنچ جائے گا۔۔ اسے کبھی وہاں تک پہنچنے ہی نہیں دیا جائے گا کیونکہ خطے میں اسرائیل موجود ہے۔جہاں تک عربوں کی بات ہے تو جھگڑے کی بنیاد رکھنے کے لیے دوحہ میں اخوان المسلمون اور حماس کے دفاتر قائم کرنے کا عندیہ بھی امریکا کی جانب سے آیا تھا جبکہ نائن الیون کے ڈرامے کے بعد قطر میں سینٹ کام کا ہیڈکوارٹر بھی قائم کرلیا گیا تھا۔دجالی صہیونیت کے عالمی سیسہ گر اچھی طرح جانتے ہیں کہ مصر اور دیگر عرب ملک اخوان المسلمون کی انقلابی فکرسے خوفزدہ ہیںمقبوضہ فلسطین کی تحریک آزادی حماس نے چونکہ اخوان کے فکری بطن سے ہی جنم لیا ہے اس لیے بھی جھگڑے کی بڑی وجہ بنایا جائے گا اور پھر بظاہر جو تنازعہ کھڑا ہوا اس کی وجوہات اب سب کے سامنے ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ کیا عربوں اور ایران کو یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی؟ کہ کس طرح عالمی صہیونیت نے خطے کے ممالک کو مسلک اور قومیت کے نام پر علیحدہ علیحدہ کر دیا ہے اور ان کی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کرانہیں مزید کمزور کررہے ہیں۔ریاض میں کھڑے ہوکر ایران کو دہشت گردی کا منبع کہنے والے ٹرمپ نے واپس جاکر ایران کے حوالے سے کیا اقدام کئے؟ قطر کے خلاف بولنے والے ٹرمپ نے اسے کیوں اسلحہ فروخت کیا؟ یہ بات افغانستان کے طالبان کے دماغوں میں بہت پہلے سے پڑچکی تھی کہ داعش کس کے اشاروں پر قائم کی گئی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ’’کامیاب تجربے‘‘ کے بعد امریکا اپنے اس آخری ترپ کے پتے کو افغانستان کی بساط پر کھیلنے کا ارادہ رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ داعش کو سب سے پہلے تورا بورا کے محفوظ مقام تک پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے یہ وہی علاقہ ہے جہاں پر کبھی القاعدہ کے جنگجو مقیم تھے اور جن سیلڑای لڑتے ہوئے سینکڑوں امریکی کمانڈوز اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔امریکا اور اس کے صہیونی دجالی اتحادی افغانستان میں اسی داعش کو افغان طالبان کے خلاف اپنی پراکسی کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ جس کی وجہ زیادہ گہری نہیں سب جانتے ہیں کہ امریکا افغانستان میں بری طرح پٹ چکا ہے۔ اس صورتحال نے امریکا میں موجود صہیونی بینکروں کو دیوالیہ کی حد تک پہنچا دیا ہے کیونکہ جنگ امریکی اور یورپی صہیونی بینکروں کے لیے ایک فائدے مند بزنس ہے اسی مقصد کے لیے دنیا میں بڑی بڑی جنگیں کروائی جاتی ہیں۔ لیکن افغانستان کی منڈی میں یہ کاروبار افغان طالبان کی وجہ سے بری طرح پٹ چکا ہے۔ جس کے ازالے کے لیے اب خاموشی کے ساتھ داعش کو آگے بڑھایا جارہا ہے۔ افغانستان کی اشرف غنی انتظامیہ محض ایک کٹھ پتلی ہے جبکہ افغان فوج کی ہائی کمان اور افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسی این ڈی ایس بھارت نواز ایجنڈے پر امریکی اشاروں پر کام کرتی ہے اس لیے افغان فوج کا داعش کے خلاف افغان طالبان کی مدد کرنا یا مدد مانگنا محض ایک لطیفہ ہے جسے افغان طالبان کی اعلیٰ قیادت اچھی طرح سمجھتی ہے۔ داعش کا تورا بورا پر قبضہ مستحکم کرانے سے امریکا کی منشا یہ ہے کہ افغان طالبان کو امریکی شرائط پر مذاکرات کی میز پر لایا جائے تو دوسری جانب پاکستان کے اندر دہشت گردی کی وارداتوں کو مزید ہوا دی جائے۔ اس لیے خطے میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر پاکستان کے دفاعی اداروں کو انتہائی دور اندیشی سے معاملات کا جائزہ لینا ہوگاکیونکہ ملک کے اندر موجودسیاسی بحران ان اداروں کی توجہ ہٹانے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ ان بڑے عا لمی تغیرات میںدانشمندانہ فیصلے وقت کی اہم ضرورت ہیں۔
٭٭…٭٭