... loading ...
انسان اپنی ترجیحات کا قیدی ہے اور اسی سے اُس کا طرزِ عمل پھوٹتا ہے۔ درست اور غلط کی بحث معروضی کم اور اِن ترجیحات کے تحت زیادہ ہوتی ہیں۔ پاکستان سیاست وصحافت میں یہ عمل مکمل طور پر اسی سے آلودہ ہے۔
یہ ایک پُرانا مسئلہ ہے جس سے پاکستان کی سیاست وصحافت نبرد آزما ہے کہ کرائے کے کچھ دانشوروں اور بھارے کے چند لکھاریوں سے سیاسی خاندانوں کے رخ ورخسار اور نقش ونگار کو ہمیشہ سنوار اجاتا رہا ۔ نوازشریف کے اوپر ایک ایسے شخص کی ملمع کاری کردی گئی ہے جسے وہ خود بھی اپنی نجی زندگی میں نہیں جانتے۔ اللہ کی شان ہے کہ کبھی ہم ان دانشوروں سے یہ سنتے تھے کہ شریف خاندان کی عورتیں متوسط طبقے کی اقدار کی حامل ہیں اور وہ کبھی بھی سیاست کے میدان میں قدم نہ رکھیں گی۔ وہ تو یہ بھی گوارا نہ کرتے تھے کہ مریم نواز کی سیاسی تربیت میں جگنو محسن نے حصہ لیا ۔ کہاں جدیدیت پسند جگنو محسن اور کہاں متوسط طبقے کی اقدار کی حامل مریم بیٹی!!! مریم نواز مگر اب سب کے کان کتر رہی ہیں ،دوسری طرف یہ خیالات رکھنے والے اب نئے خیالات کی قے کررہے ہیں۔ عشق کی بس ایک جست سے اس قصے کو تمام کررہے ہیں۔ اب اُنہیں مریم نواز میں ایک پراعتماد شخصیت کی جھلک دکھائی دینے لگی ہے۔ اُنہیں اُس میں ایک سیاسی فکر کا گہرا رچاؤ نظر آنے لگا ہے۔معلوم نہیں مریم نواز کی سیاسی فکر کیا ہے جس پر وہ یقین رکھتی ہے؟یہ بھی معلوم نہیں کہ اُس کا اپنی ذات پر اعتماد کیسا ہے؟مگر دانشوروں نے اُن کے اندر سے ایسے ایسے کمالات برآمد کرنے شروع کردیے ہیں کہ سائنس کی پوری دنیا اپنے انکشافات اور اکتشافات کے ساتھ حیران رہتی ہوگی۔ نوازشریف کی شخصیت میں مختلف اداوار کے ساتھ جتنی قلابازیاں نظر آتی ہیں، اُس سے کسی سلامتی فکر کے حامل شخص کے لیے یہ ممکن ہی نہیں رہتا کہ وہ اُن کی حمایت ثابت قدمی کے ساتھ کرسکے۔ اس کے باوجود یہ نوازشریف کا نہیں اُن کے گرد حلقہ زن لشکر کے کمالات ہیں کہ وہ یہ ممکن کر پاتے ہیں۔ اب یہ ہنر محترمہ مریم نواز کے لیے بھی آزمایا جارہا ہے۔ مگر ا س میں قباحتیں بہت ہیں۔
یہ ایک نیا پاکستان ہے، جس میں اندھے اعتماد کی گنجائش کم سے کم ہورہی ہے۔ ذرائع ابلاغ خریدے جاسکتے ہیں مگر متوازی ذرائع ابلاغ اور سماجی رابطوں کے برقی مراکز ایف آئی اے سے بھی خوف زدہ ہونے کو تیار نہیں۔یہاں تضادات عریاں کردیے جاتے ہیں۔ مسلم لیگ نون کا تجربہ کچھ اور ہے۔ اب مریم نواز کے حوالے سے جو کہانیاں گھڑی جارہی ہے اُن میں سے کون سی کہانی دودن بھی ٹہر سکی ۔ جے آئی ٹی کے سامنے اُن کی آمد کو اگر ایک بڑا سیاسی واقعہ بنانے کی کوشش نہ کی جاتی تو اُنہیں اُس تنقید کا بھی سامنا نہیں کرنا پڑتا جو اس موقع پر سامنے آئی۔ سیاست میں موقع کو سمجھنے کی ایک اہمیت ہوتی ہے۔ ہمیشہ اُلٹی گنگا بہانے سے وہ اُلٹی نہیں بہنے لگتی۔ چنانچہ اب مریم نواز جن گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ آئی تھیں ، اُس کی نمبر پلیٹوں پر سوالات کا سامنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر گاڑیوں کی نمبر پلیٹیں تبدیل کرنے میں حکمت کیا تھی؟ یہ طبقہ آخر سیدھے طریقے سے کوئی کام کیوں نہیں کرپاتا ؟ ان میں قانون پسندی کا اعتماد کیوں نہیں پایا جاتا؟کیوں ایک شان وشکوہ، ایک کرّوفر ، لاؤ لشکر اور رعب داب ان کی زندگی کا ناگزیر عامل بن چکا؟حیرت ہے کہ کچھ لوگ مریم نواز اور بے نظیر بھٹو کے درمیان بھی ایک موازنہ کرنے لگے ہیں۔اس بدنصیب قوم کے مقدر میں کیا کیا کھکیڑ رکھی ہے۔ اور اُسے کن کن موضوعات پر غور کرناپڑتا ہے جسے سوچ کر بھی کراہیت ہوتی ہے۔ مگر پھر بھی ان دونوں خواتین میں اگر کوئی چیز مشترک ہوسکتی ہے تو وہ یہی شان وشکوہ ہو سکتا ہے۔ ایک بالاتر مخلوق ہونے کا گمان جو حکمران اشرافیہ کا مشترک احساس ہے۔ روئیداد خان کی کتاب ’’پاکستان انقلاب کے دہانے پر‘‘ کے اوراق ایک بار پھر پلٹتے ہیں۔ایوب کابینہ سے نکال باہر کیے جانے کے بعد روئیداد خان اُن سے ملنے دوسری بار اُن کے گھر گئے تب کیا ماجرا ہوا، خود اُن کی ہی الفاظ میں پڑھیے:
’’چند روز بعد جب میں دوبارہ ذوالفقار علی بھٹو سے اُن کے گھر پر ملا تو اُن کی حالت سنبھل چکی تھی، وہ اپنے گھر کے
برآمدے میں بیٹھے اپنے کاغذات ترتیب دے رہے تھے۔ اتنے میں اُن کی کم عمر بیٹی (بے نظیر) اُن کے پاس آئی
اور اردو میں اُن سے پوچھنے لگی:پاپا کیا اب ہم بھی عوام بن گئے ہیں؟‘‘
محترمہ مریم نواز جس طرح جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئیں کیا یہ انداز دنیا کے کسی بھی ملک میں کوئی بھی جمہوری حکمران خاندان اپنا سکتا ہے؟مگر ان کا اندازِ فکر وعمل مختلف ترجیحات سے پھوٹتا ہے۔ اس لیے یہ سوال بھی واجب قراد نہیںدیا جائے گا۔ مگرجے آئی ٹی کی کھکھیڑ سے بس یہی تاثر حکمرانوں کو پریشان رکھتا ہے کہ کہیں وہ بھی عوام نہ بن جائیں۔ایسی ہی اندیشوں بھری گفتگو 12اکتوبر 1999 کے بعد مریم نواز کی زبان سے سنی گئی تھی۔ نوازشریف جب22 ؍ نومبر کو عدالتی پیشیوں کے بعد لانڈھی جیل لائے گئے تو اُن کی ملاقات اُن کے اہلِ خانہ سے بھی کرائی گئی تھی۔ ایک صحافی کے طور پر وہ منظر میں نے دیکھا تھا، جیل تک رسائی پانے کے بعد جو مناظر نظرآئے وہ آج بھی آنکھوں کے سامنے گھومتے ہیں۔والدہ ، بیگم، دونوں بیٹیاں اور نواسا ، نواسی ایک ساتھ نوازشریف سے ملنے وہاں پہنچے تھے۔ مریم نواز جب اپنے والد سے ملی تو اُن کا ذہن کیسے کام کررہا تھا؟اور اُن کے خاندان کے باقی افراد کیا کررہے تھے؟یہ ایک بالکل الگ کہانی اور مختلف تجزیے کا موضوع ہے۔ مگر تب بھی مریم نواز اپنے ہاتھ میں بھاری مالیت کی گھڑی اور ہیرے کی انگوٹھیاں پہن کر آئی تھیں۔ ایک شاہانہ رہن سہن اس مزاج کے لوگ کبھی اور کسی بھی حال میں ترک نہیں کرسکتے۔ بس یہی ایک مشترک چیز ان دونوں کے درمیان پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ان میں کوئی چیز بھی مشترک نہیں۔
مریم نواز کے حوالے سے پھر بھی یہ کہا جارہا ہے کہ جے آئی ٹی میں اُن کی پراعتماد پیشی سے سیاسی طور پر اُن کی ’’لانچنگ‘‘ ہو گئی۔ کیا یہی وہ موقع رہ گیا تھا جہاں سے اُن کی لانچنگ کی جاتیں؟ یہ کیسا طرزِ فکر ہے کہ مبینہ بدعنوانیوں اور ایک معاملے پر پورے خاندان کی طرف سے اعلانیہ الگ الگ موقف پر اُٹھنے والے سوالات کی تحقیقات کے عمل میں ’’سیاسی امکانات‘‘ تلاش کیے جائیں۔یہ ایک خاص طرح کی ذہنیت ہے۔آصف علی زرداری نے گزشتہ دنوں کہا کہ نوازشریف کو میرا مشورہ یہ تھا کہ وہ وزیر اعظم نہیں صدر بنیں اگر وہ میرا مشورہ مان لیتے تو آج اس حال میں نہ ہوتے۔ صدر کو مقدمات سے آئینی تحفظ ہوتا ہے۔ اس کامطلب کیا ہے؟ بدعنوانی جاری رہے گی، مسئلہ اس کے اثرات سے بچنے کا ہے۔ سیاست دان نہیں ، ایک جرم پسند ذہن ایسے سوچتا ہے۔ یہ دونوں کیسے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ سیاسی محاذ پر دونوں جماعتوں کی قیادت اسی طرزِ فکر میں مبتلا دکھائی دیتی ہے۔ مریم نواز کے لیے جے آئی ٹی میں پیشی پر وضع کیے گئے دلائل دراصل زرداری زدہ ذہن رکھتے ہیں۔
اس ذہن سے مریم نواز کی پیشی پر وہی مناظر تخلیق کیے جاسکتے تھے جو ہوئے مگر ا س پر برعکس طورپر وہی دلائل آنے تھے جو آرہے ہیں کہ پاکستا ن کی سیاست وصحافت ایک بڑے بازار میں رہ کر تاجرانہ طور پر اسی طرح بروئے کار آتی ہے۔انسان کا طرزِ فکر وعمل اُس کی ترجیحات کی قید میں ہے اور ہماری ترجیحات میں کہیں پر بھی درست اور غلط کا کوئی تناظر سرے سے وجود ہی نہیں رکھتا۔
٭٭…٭٭